ماسی حرمتے

وہ دونوں میاں بیوی تھے ۔ مگر میاں محلے بھر کے لیے چاچاتھا ۔ چاچا فقیریا۔ اور بیوی سارے محلے کی ماسی یعنی خالہ تھی ماسی حرمتے ۔دونوں محنت کش تھے اور اپنے اپنے کام میں یکتا۔1960؁ء کی دہائی میں لاہور کے بہت سے محلو ں میں کارپوریشن کی طرف سے سرکاری نل لگائے گئے تھے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے گھر میں پانی کا کنکشن نہیں لیا ہوا تھا اُن سرکاری نلکوں سے پانی بھر کر اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ ایساہی ایک نل میرے گھر کے دروازے کے قریب لگا ہوا تھا اُس نل کے ساتھ ایک طرف اینٹوں کا ایک بستر بنا ہوا تھا جس پر پٹ سن کی بوری کو کاٹ کر چادر بنا کر بچھائی ہوئی تھی ۔ چاچا فقیریا ماشکی تھا۔ محلے کا اکلوتا ماشکی وہ نل اینٹوں کا وہ بستر اور ایک مشکیزہ ۔ بہ سب چاچے فقیرے کی سلطنت تھی اُن دنوں پانی بھی مخصوص اوقات میں آیا کرتا تھا۔ صبح سحری سے نو بجے تک۔ دوپہر 12بجے سے 2بجے تک اور شام سے رات 10بجے تک۔ پانی کی ضرورت تو ہر گھر کو ہوتی ہے اسلیے پانی آنے سے پہلے لوگ نل پر موجود ہوتے۔ پانی آتا تو سب سے پہلے چاچا فقیریا اپنا مشکیزہ بھرتا کیونکہ چاچا ان تمام پابندیوں سے آزادتھا۔ چاچے کے جانے سے لے کر واپس آنے تک کے وقت میں لوگ اپنے برتنوں میں پانی بھرتے۔ چاچا اپنی راجدھانی میں واپس آتا تو لوگ سمٹ جاتے ۔وہ مزے سے مشکیزہ بھرتا اور یہ جاوہ جا۔ نل پر بے پناہ بھیڑہونے کے باوجود لوگوں کے نظم و ضبط اور چاچے فقیریے کے احترام میں کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

چاچے کی بیوی ماسی حرمتے بڑی محنتی خاتوں تھی۔ میرے گھر سے کوئی تین گھر چھوڑ کر ایک خالی پلاٹ تھا۔ اُس پلاٹ پر چھونپڑی نماتین اطراف سے کھلا ایک کمرہ سا بنا ہوا تھا جس کی چھت پر سرکنڈے ڈال کر مٹی کا لیپ کیا گیا تھا۔ یہ ماسی حرمتے کا تنور تھا بلکہ سچی بات یہ کہ تنور نما ریسٹورنٹ تھا۔ ماسی صبح صبح اُٹھ کر تین چار سالن تیار کرتی ،دوپہر سے قبل تنور پر آجاتی اور روٹیاں تیار کرنے لگتی۔ پورا محلہ اُس کا گاہک تھا مجھے یاد ہے والدہ نے گندھا ہوا ٓٹا دینا اور کہنا کہ حرمتے کو دے دو اور کہو جلدی سے روٹیاں بنا دے۔ رش نہ ہوتا تو تھوڑی سی دیر میں روٹیاں مل جاتیں اور اگر رش ہوتا تو برتن قطار میں رکھ دیتے۔ ماسی حرمتے نے کہنا بیٹا جاؤ روٹیاں لگ جائیں گی تو آوازدے دوں گی ۔ تھوڑی دیر بعد ہم کھیل رہے ہوتے یا گھر بھی واپس آجاتے تو کوئی نہ کوئی آواز دیتا کہ روٹیاں لگ گئی ہیں ماسی نے کہا ہے آکر لے جاؤاور ہم لے آتے۔

ماسی جہاں بیٹھ کر روٹیاں پکاتی تھی وہیں اُس کے داہنے طرف پکے ہوئے سالن کے تین چار برتن رکھے ہوئے تھے۔ ان برتنوں سے آگے ایک لمبی صف تھی۔ یہ ماسی کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے والے لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ غریب لوگ آتے ۔صف پر بیٹھتے اور کہتے ماسی دو روٹیاں ۔ ماسی فوراً روٹیاں پکاتی ۔پکی ہوئی گرم گرم روٹیاں چنگیر میں رکھتی اور گاہک کو دیتے ہوئے پوچھتی سالن بھی لو گے۔ کوئی ہاں کہتا تو دوسرا سوال ہوتا۔ سبزی یا گوشت سبزی کی تفصیل بھی بتاتی۔ لوگ سبزی یا گوشت پسند کے مطابق قیمتاًحاصل کر لیتے ۔لیکن اگر کوئی کہتا کہ سالن نہیں لینا ماسی ایک پلیٹ میں تھوڑی سی ڈال کر اُسے دے دیتی۔ یہ دال بلا معاوضہ ہوتی یعنی دو روٹیوں کی قیمت میں دال مفت ۔ دال کی اہمیت اس قدر کم تھی کہ اُسے سالن میں بھی شمار کیا نہیں جاتا تھا۔ پچاس سال گزر گئے اب نہ چاچا فقریا ہے نہ ماسی حرمتے اور نہ ہی کوئی ایسا جو دو روٹیوں کے مول میں دال مفت دے دے۔

چند دن ہوئے میں اور میر ی بیگم اسلام آباد جا رہے تھے۔ دوپہر ہوئی تو کھانا کھانے کے لیے میں نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روکی اور اندر جا کر میز پر بیٹھ گئے۔ ویٹر صاحب تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا کچھ ہے اُس نے بہت سے کھانے گنوا دیے۔ ایسے ہی میں نے پوچھ لیا کہ تمہارے ہوٹل کی کوئی خاص ڈش جواب ملا کہ جناب ہمارے ہوٹل کی تڑکہ لگی چنے کی دال اپنی لذت کے حوالے سے پاکستان بھر میں مشہور ہے ۔۔۔ بڑی اچھی بات ہے پھر دو آدمیوں کے لیے دال اور صرف دو روٹیاں لے آؤ۔ کہنے لگا ہم دال پلیٹ میں دیتے ہیں دو پلیٹیں لے آتا ہوں میں چونکہ پلیٹ میں سالن لینا پسند نہیں کرتا کیونکہ جھوٹا بچ جاتا ہے اس لیے میرے کہنے پر وہ دو پلیٹیں ایک پیالے میں ڈال کر ساتھ دو خالی پلیٹیں لے کر آیا دال کے ساتھ پوری دو روٹیاں اور ایک سلاد کی پلیٹ ۔ ہم نے کھان کھایا ۔ واقعی دال بہت لذیز تھی ۔ مزہ آیا مگر چند لمحوں بعد جب ویٹر نے بل لا کر دیا تو مزہ دگنا ہو گیا میں نے بل کو دوبارہ پڑھا ۔ دو روٹیاں دو پلیٹیں دال اور ایک سلاد بل مگر پانچ سو پچیس روپے (525) دال نے جہاں کمی رکھی بل نے اُس انگ کو بھی مزہ مزہ کر دیا تھا۔ میں بیگم کی طرف اور بیگم نے میری طرف دیکھا ہم مسکراتے ہوئے بل دیا اور باہر نکل آئے ۔ آج کافی دن ہوئے ہیں دال کی لذت تو شاید بھول چکی مگر بل کی لذت ابھی برقرار ہے اُسی بل کا کمال ہے کہ میں ماضی کی پچاس سال پہلے والی ماسی حرمتے کو یاد کرنے لگا ہوں۔

پچاس سال میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ مگر اب مہنگائی کی رفتار میں جو تیزی آرہی ہے آنے والا وقت شاید بہت ہی ہولناک ہو گا۔ دو روٹیوں کے ساتھ مفت ملنے والی دال ۔ جسے آج سے 50سال پہلے اتنی عزت بھی میسر نہیں تھی کہ اُسے سالن میں شمار کر لیا جائے آج ڈیڑھ سو روپے کلو کے لگ بھگ ہے اور پکی ہوئی دال کی پلیٹ کی قیمت اچھے ہوٹلوں میں دو سو روپے سے زیادہ ہے مہنگائی جس انداز سے محو پر زور ہے لگتا ہے کہ اب پچاس نہیں فقط پانچ سات سالوں میں دال کی فی کلو قیمت ہزار وں میں ہو گی۔ حکمرانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ لوگوں کی زندگیاں تلخ سے تلخ تر ہو رہی ہیں اور مزید تلخیوں سے بچانے کے لیے مہنگائی پر قابو پانابہت ضروری ہے۔ حکومت کو اس کے لیے فوری عملی اقدامات کرنے چاہیے۔ لیکن وہ فہم و فراست جو ان اقدامات کے لیے ضروری ہے حکومتی ٹیم میں نظر نہیں آتی یا شاید مسائل کی بھر مار نے حکومت کی قوت فیصلہ کو مفلوج کر دیا ہے۔ لیکن صورت حال جیسی بھی ہو ضرورت ہے کہ حکومت عوام کی فلاح کے لیے مہنگائی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بھی بنائے ۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 445012 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More