تمام مسلمان عیدالاضحی ذی الحجہ
کی دس تاریخ کو انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں عازمینِ حج بھی حج کے
مناسک پورے کرنے کے بعد قربانی دیتے ہیں۔ یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام
اور ان کے فرمانبرداربیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد سے منصوب ہے
اﷲنے اپنے نبیوں کو جو بھی حکم دئیے انہوں نے ان کی پیروی کی حضرت ابراہیم
علیہ السلام کو اس سے پہلے حکم ملا کے اپنے نومولود بیٹے اور اپنی اہلیہ
حضرت ہاجرہ کو صحرا میں چھوڑ آئیں جہاں پانی تک میسر نہ ہو آپ نے حکم کی
تعمیل کی اور خدا وند نے وہاں ان کی حفاظت فرمائی ۔اسی طرح جب آپ ؑ کو خواب
میں حکم ہوا کے اپنے بیٹے اسماعیل کی گردن پر چھری پھیر دو تو ابراہیم ؑ
اپنے بیٹے اسماعیل ؑکے پاس پہنچے ان سے یہ سارا ماجرہ بیان کیا فرمانبردار
بیٹے نے کہا کہ آپ جو کہیں گے میں اس کی اتباع کروں گا آپ مجھے صابریں میں
سے پائیں گے ، باپ فرزند کو مروہ کے پہاڑ پر لے گیا جب چھری پھیری تو
آنکھیں بند تھیں جب یہ آنکھیں کھولیں تو بیٹے کی جگہ دنبے کی گردن کٹتے
دیکھا رب نے آسمان سے اس دنبے کو بھیجا اور اسماعیل کو محفوط و شاد رکھا اس
کی یاد میں عاقل،بالغ اور صاحبِ استطعات مسلمان ہر سال بیل،بکرے،اونٹ یا
دنبے کی قربانی دیا کرتے ہیں یہ سنتِ معقدہ ہے۔ ان جانوروں کا گوشت یا خون
خدا باری تعالیٰ تک نہیں پہنچتا بلکے مالک و مختار خلوصِ نیت دیکھتا ہے۔
البتہ اس گوشت کو غریبوں، ہمسایوں،اور رشتہ داروں میں برابر تقسیم کرنا
چاہیے نا کہ اپنے خود کے سال بھر کے گوشت کا انتظام کرلیا جائے۔ عید کے ان
دنوں میں فریج بیچنے والوں کی اچھی خاصی چاندی ہو جاتی ہے۔بطورِ پاکستانی
ہم کھانے کے بہت شوقین مزاج ہیں سولہ اکتوبر کو ورلڈ فوڈ دڈے بھی منایا
جائے گا اس لئے میرے بیشتر بھائی ذیادہ گوشت بچا کررکھیں گے تاکہ مزے مزے
کے پکوان سے محضوض ہوسکیں۔دوست احباب اور اہل و عیال کے ساتھ چٹکھارے دار
کھانے کھانا پرلطف ہے مگر اس کی زیادتی کے سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں
مثال کے طور پر پائے اوردیگر اعضا کلیسٹرول کا مجموعہ ہوتے ہیں اس لیئے
ہمیں چاہیے کہ ان کے ستم سے بچیں۔ پر کیا اس طرز کی قربانی قبول ہوپائے گی
جس کا مقصد محض دکھاوا ہواور پیٹ بھرائی ۔لاکھوں روپے کے جانور خریدے جاتے
ہیں موقف یہ ہوتا ہے کہ جانور خوبصورت ہونا چاہیے خیر یہ بات بھی سہی ہے
مگرکیا ایک عام دنبے اور بکرے سے یہ لاکھوں روپے مالیت کے مویشی زیادہ
فضیلت رکھتے ہیں؟ نہیں یہ ان کے برابر کے ہی ہیں آپ ﷺ نے دکھاوے کی
قربانی،نمازاور روزے کو ناپسند فرمایا ہے اگر ہم معقول رقم میں جانور خرید
لیں اور باقی پیسے سیلاب زدگان زلزلہ زدگان یا محتاجوں ضرورت مندوں کو دے
دیں تو وہ اپنی اشد ضرورت کوپورا کر سکیں گے ہمارا یہ عمل بارگاہِ الہیٰ ٰ
میں بہت اجر رکھنے والاہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کے
سوسائٹی میں ہمارا منفرد سٹیٹس ہے اگر ہم عام سا جانور لے آئیں گے تو لوگوں
پر ہمارا کیا تاثر پڑے گا مسلمان کے گناہ تیز رفتاری سے جھڑتے ہیں جب وہ
روحانی طور پر پرہیزگار ہوجائے اور قربانی دے ریا کاری کو شدید نا پسند کیا
گیا ہے ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو مڈل کلاس طبقے کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا
کے وہ منڈی سے جانور خرید سکیں بیچارے عوام بس قیمتیں سن کر ہی واپس لوٹ
آتے ہیں۔اس دفعہ قربانی کرنے کی شرح میں کچھ حد تک کمی واقعٰ ہوئی ہے۔قصائی
جانور سے ذیادہ اس سنت کو ادا کرنے والے کی کھال اتارا کرتے ہیں ان کے اتنے
ذیادہ ریٹ ہیں کے توبہ،ہر کوئی اسے افورڈ نہیں کر پاتا اور اناڑی قصاص کے
ہاتھ لگ جاتا ہے جو صرف عید کے دنوں میں قصائی بن جاتے ہیں نہ ہی وہ تکبیر
پڑھتے ہیں نا ہی صحیح طریقے سے جانور ذبح کر پاتے ہیں حکم ہے کہ جب تک
جانور کی روح نہ نکل جائے اس پر چھری پوری طرح سے نہ پھیر دی جائے یہ اس کے
کے لئے باعثِ تکلیف ہوگا پر یہ ناسمجھ ایک سچے مسلمان کی قربانی خراب کرنے
میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے انہیں تو بس اپنی آمدن کی فکر ہوتی ہے۔اس عید
کے تہوار کا مقصد آپس میں محبتیں بانٹنا ہے ایک دوسرے کے کام آنا اس کا
مجموعی فریضہ ہے غریبوں کو کھانے کے لئے اچھا کھانا دستیاب آسکے اس سے بڑھ
کر ہمارے لئے کیا خوشی ہوگی کہ کسی مسکین کا بچہ بھوکہ نہ سوئے۔دس زی لحجہ
سے لے کر بارہ زی لحجہ کی نمازِ عصر تک قربانی کرنا جائز ہے اور بہت فضیلت
رکھتی ہے۔اس عید ِبقر پر ہم نئے جوڑے اور جوتے نہیں لیتے بلکے یتیم و مفلس
بچوں کو ضرور دلواتے ہیں اور خود صاف ستھرا لباس پہن کر خوشبو لگاتے ہیں
۔یہ عید معاف کرنے کی اور بات کو رفہ دفع کرنے والی ہے ۔نہ ہی اس دن ہمیں
کسی کی بھی دل عزاری کرنی ہے بلکہ امن سے رہنا ہے ۔تمام تر برائیوں کو ترک
کرنا ہے استقامت پسند رہنا ہے۔درِحقیقت آپ کو اپنی سب سے عزیز چیز قربان
کرنی ہوتی ہے تو آئیں آج ہم سچے دل سے یہ عہد کریں کے ہمیں اگرپنے لختِ جگر
تک کو رب کی بارگاہ اور آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں قربان کر نا پڑے تو اس سے
گریز نہیں کریں گے۔خدا ہم سب کے گناہوں کی بخشش فرمادے (آمین) ــ۔’’سادہ و
رنگین ہے داستانِ حرم انتہا ہے جس کی حسین تو ابتداء ہے اسماعیل‘‘ |