دوست وہ ہوتا ہے جو دنیا تو دور
کی بات اپنے دوست کی آخرت تک کو بچاتا ہے۔
اچھے دوست اپنے دوستوں کی برائیوں کو خلوت میں سُدھارتے ہیں ناکہ دوسروں کے
سامنے اُن کو رُسوا کرتے ہیں۔ حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہِ و صلم فرماتے
ہیں ایسے دوست سے پناہ مانگو جو بُرائی دیکھے تو ڈھنڈورا پیٹ دے۔ اﷲ تمہارے
رازوں کو نہیں کھولتا تم دوستوں کے رازوں کو مت کھولو۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ سے کسی نے شکایت کی کہ حضرت دوست نایاب
ہوتے جاتے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ نے جواب دیا تمہیں ایسے
دوست کی تلاش ہے جو تمہاری خدمت و غمخواری کرے یا ایسا دوست چاہتے ہو جس کی
تم خدمت وغمخواری کرو۔
موجودہ دور میں دوست کی اہمیت کیا ہے ؟ دوست کیسا ہونا چاہئیے ؟ اور دوستی
کس سے کرنی چاہئیے ؟ افسوس ! ہم اس اہم رشتے سے نا آشنا ہیں۔ دوست وہ نہیں
ہوتا جسے اپنے غرض کے مطابق استعمال کریں،اُس سے فائدہ حاصل کریں، خواہ
دوست نقصان ہی میں کیوں نہ ہو۔ آئیے دینِ اسلام کی نظر میں اس اہم رشتے کو
پہچاننے کی کوشش کریں۔
دوست وہ ہوتا ہے جو دنیا تو دور کی بات اپنے دوست کی آخرت تک کو بچاتا
ہے۔چاہے اُسکا دوست اُس سے تھوڑی دیر کے لئے ناراض ہوجائے۔ وہ دوست کی خوشی
نا خوشی کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اپنے دوست کو دوزخ سے بچانے کے لئے اُسے
خلوت میں نصیحت کرتا ہے تاکہ اُس دوست کے اندر سُدھار آجائے۔ اچھے دوست
اپنے دوستوں کی برائیوں کو خلوت میں سُدھارتے ہیں ناکہ دوسروں کے سامنے اُن
کو رُسوا کرتے ہیں۔ حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہِ و صلم فرماتے ہیں ایسے
دوست سے پناہ مانگو جو بُرائی دیکھے تو ڈھنڈورا پیٹ دے۔ اﷲ تمہارے رازوں کو
نہیں کھولتا تم دوستوں کے رازوں کو مت کھولو۔ مگر اس کے بر عکس آج کسی دوست
کی بُرائی کو محفلوں میں اس طرح اُچھالا جاتا ہے کہ وہ شرمندہ ہوجاتا ہے۔
ویسے بھی غیبت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ غیبت ہمارے نیک اعمال کو اس طرح کھا
جاتی ہے جیسے لکڑی کو دیمک لگ جاتی ہے۔ شریف الطبع لوگ خلوت کی نصیحت کا
احسان مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اُن سانپوں اور بچھوؤں سے آگاہ کیا
گیاہے جو ہمارے اوپر چڑھ آئے تھے۔ بد عادتیں سانپ اور بچھو ہی تو ہیں یہ
سانپ اور بچھو ( بد اعمال ) جسم کی بجائے روح کو ڈنستے ہیں اور روح پر ڈنک
مارتے ہیں۔ اُن کا ڈنک مارنا دنیا میں شاید اسلام کے احکامات سے دوری ہونے
کی وجہ سے دکھائی نہ دے مگر قبر میں سب کو دکھائی دے گالیکن تب افسوس کرنے
سے کیا فائدہ۔
ایمان والے دوست نصیحت سے نہیں گھبراتے۔ بلکہ اچھی نصیحت پر عمل کر کے دنیا
و آخرت سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نصیحت سے گھبراتے وہ ہیں جن کے دماغ و
عقل پر رعونت و کبر کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جو اپنے عمل کا توازن خود کرکے
دل کو یہ تسلّی دیتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جھوٹے لوگوں کی مذمت
میں فرمایا ہے وہ نصیحت کرنے والوں کو دوست نہیں جانتے ۔ دوست کوئی غلطی ِخاص
ہمارے ساتھ کر جائے تو اُس کو درگذر کرنا چاہئیے درگذر تو دور کی بات اُس
سے انجان بن جانا چاہئیے لیکن غلطی اگر نا قابلِ برداشت ہے اور ضبط نہیں ہو
سکتا تو انقطاع کے مقابلے میں دل کی بھڑاس اُس کے سامنے نکال لینی چاہئیے
مگر دوستی کو قائم رکھنا چاہئیے۔ دوستی میں زبان درازی کی اجازت نہیں۔ اُس
دوست کو دور ہی سے سلام جس سے اخلاق بگڑے اور شائستگی باقی نہ رہے۔ اﷲ
تعالیٰ فرماتاہے تمہارے قریبی اگر گناہ سے باز نا آئیں تو کہہ دو ہم تمہارے
عمل سے بیزار ہیں۔ خدا نے یہ نہیں تلقین کی کہ ہم تم سے بیزار ہیں۔
دوست کے لئے دُعائے خیرکرنی چاہئیے۔ اُس کی زندگی میں بھی اور اُس کے مرنے
کے بعد بھی۔ دوست ہی نہیں بلکہ دوست کے اہل و عیال کا بھی خیال رکھنا
چاہئیے۔اس طرح جیسے انسان اپنے اہل و عیال کا خیال رکھتا ہے۔ حضور سرورِ
کائنات صلی اﷲ علیہِ و صلم فرماتے ہیں کہ سب دُعائیں دُعا کرنے والوں کے حق
میں قبول ہوتی ہیں لیکن اگر انسان دوسروں کے لئے دُعا کرتا ہے تو فرشتہ
پُکارتا ہے کہ اﷲ جو دُعا یہ دوسروں کے لئے مانگتا ہے اُس دُعا کو تو اس
بندے کے حق میں بھی قبول فرما۔
حضرت ابو الدادا ؓ فرماتے ہیں : دوست کی تعریف یہ ہے کہ مرنے کے بعد ورثاء
تو ورثہ بانٹنے میں مشغول ہوں اور دوست دُعائے مغفرت کررہا ہو اور فکر مند
ہوکہ مرنے والے کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کیا معاملہ کرتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ زندہ
لوگوں کی دُعا مرنے والوں کی قبر میں نور کا پہاڑ بن کر پہنچتی ہے۔ مُردہ
کو بتایا جاتا ہے کہ دُعا کا یہ ہدیہ فلاں شخص نے بھیجا ہے اور مُردہ اُس
ہدیہ سے شاداں و فرحاں ہوتا ہے۔
ایک ضعیفہ حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہِ و صلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
حضور صلی اﷲ علیہِ و صلم نے اُن کی اتنی تعظیم و تکریم فرمائی کہ صحابہ ؓ
حیران رہ گئے۔ حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہِ و صلم نے فرمایایہ خدیجہ ؓ
کی قریبی ہیں اُن کے پاس بہت آیا کرتی تھیں۔تعلق کو نبھانا ایمان میں داخل
ہے۔
دوستوں کے ساتھ اس طرح بے تکلفی برتنی چاہئیے جس طرح انسان اپنے ساتھ بے
تکلف ہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا بد تریں دوست وہ ہے جس سے معذرت کرنے
اور تکلّف برتنے کی ضرورت پڑے۔ عزّت و حشمت پاکر دوستوں سے آنکھیں پھیرنا
شیطان کی ہدایت پر چلنا ہے۔ شیطان کا دلچسپ ترین مشغلہ یہ ہے کہ دوستوں کے
دلوں میں فرق ڈالے۔
آخر میں ایک اور قول کے ساتھ اپنی تحریر ختم کروں گا کہ حضرت جنید بغدادی
رحمتہ اﷲ علیہ سے کسی نے شکایت کی کہ حضرت دوست نایاب ہوتے جاتے ہیں۔ حضرت
نے جواب دیا تمہیں ایسے دوست کی تلاش ہے جو تمہاری خدمت و غمخواری کرے یا
ایسا دوست چاہتے ہو جس کی تم خدمت وغمخواری کرو۔
اچھا دوست قسمت سے ملتا ہے اور اچھے دوست کو پا کر کھونے والا بے وقوف ہے
۔آج مسلمان عمل کی کمی کی وجہ سے مختلف مصائب کے امراض میں مبتلاء ہیں جن
کا علاج صرف او رصرف اﷲ کا ڈر اورنیک اعمال ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کے ہم
نے جس دینِ اسلام کو قبول کیا ہے اُس دین کے تمام ارکان پر عمل کریں
اورزندگی کے ہر شعبہء میں سُدھار پیدا کریں۔ انشاء اﷲ اس سے ہماری دنیا اور
آخرت سنور جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ ہم تمام کو لکھنے ، کہنے ، سُننے سے پہلے عمل
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ثم آمین |