؛؛ہاتھی پالنا ہو تو ہاتھ میں آنکس رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ
یہ جنگلی جانور کبھی بھی بگڑ سکتے ہیں۔ انہیں جب تک دماغ میں لوہے کی میخ
نہ چبھوئی جائے تو قابو نہیں آتے؛؛ سر پنچ بولا تھا
میں نے خشمگیں نگاہوں سے اُسے گھورتے ہوئے جواب دیا، ؛؛ آپ مجھے بے رحم
سمجھتے ہیں؟ پھر میں نے اُسے انسداد بے رحمی حیوانات پر سیر حاصل لیکچر پلا
دیا۔ ؛؛ مجھے شوق ہے ہاتھی پالنے کا، تو کیا کروں ؟ نہ پالوں کیا؟ ارے صاحب
آپ کو کہنے کی بیماری ہے فضول بولے چلے جاتے ہیں، پر کچھ بھی کہئے مجھے
ہاتھی پالنے ہیں ، میں تو پالوں گا۔ اور وہ بھی پیار اور محبت سے ؛؛
جانوروں سے مجھے محبت تو تھی ہی سہی پر ساتھ ہی یہ ہاتھی پالنا میری مجبوری
بھی تھا، یہ میں بعد میں بتلاؤں گا کہ کیوں۔
سر پنچ مجھے سمجھا سمجھا کے شائد تھک گیا تھا اس لئے خاموش ہو گیا، میں دل
ہی دل میں اُس کی خاموشی سے محظوظ ہو رہا تھا کہ آخر اُس نے ہار مان ہی لی۔
گاؤں والے اُس کی ذہانت کی قدر تو کرتے تھے پر میری طاقت کے آگے اُن کا بس
نہیں چلتا تھا کہ وہ میرے منہ پر اُس کی تعریف کریں۔ میں اُسے زچ کر کے
ہمیشہ ایک نیا چرکا لگا دیتا اور وہ خاموش بیٹھ جاتا، سر پنچ کی حیثیت ہی
کیا تھی مرے سامنے، گاؤں کے طاقتور جوان مرے قبضہ میں تھے اور میری ہر
خواہش کا احترام اُن پر جیسے فرض تھا۔
بات اتنی سی تھی کہ جس اُلو نے مجھے پٹھہ بنایا ہوا تھا وہ سات گاؤں پار
سُفید حویلی میں رہتا تھا، اُسے اپنی ضرورت کے لئے ہاتھیوں کی مدد درکار
تھی، مسئلہ یہ تھا کہ اُلو سفید برفانی ریچھوں سے تنگ آیا ہوا تھا۔، جو اُس
کی مطلق العنانی کی راہ میں حائل تھے، اور وہ چاہتا تھا کہ میں ہاتھیوں کی
ایک فوج بناؤں اور ریچھوں کو مزہ چکھاؤں۔ پر مشکل یہ تھی کہ میرے گاؤں والے
عام حالات میں شائد اس کے لئے رضامند نہ ہوتے کہ میں جنگلی حیات میں مداخلت
بے جا کا مرتکب پایا جاؤں اور اُسے اپنی قدرتی نظام سے ہٹ کر ترتیب دوں۔
حالانکہ وہ مجھ سے ڈرتے تھے، خائف تھے میری طاقت سے، لیکن پھر بھی میں
چاہتا تھا کہ اُن کی رضامندی حاصل کر لوں۔ اب ان کم بخت گاؤں والوں کو کون
سمجھائے کہ وقت رہتے وقت کی فرزندی میں آ جایا جائے تو دنیاوی فوائد ایسے
برسنا شروع کر دیتے ہیں جیسے بچپن میں غریب کو ماں کے ٹوٹے چھتر سے مار
پڑتی ہے۔
پھر وہی ہوا جو میں چاہتا تھا ، میں نے ہاتھی پال ہی لیئے۔ اس کے لئے نہ تو
مجھے اپنی حویلی کا دروازہ اونچا کرنا پڑا، نہ ہی میں نے کوئی آنکس بنوایا
اور نہ ہی میں نے اتنی زحمت گوارا کی کہ بنیادی معلومات حاصل کرتا جو ایک
کامیاب مہاوت کے علم میں ہونا ضروری تھیں۔ بس طاقت کا نشہ تھا جو مجھے میری
ذہانت اور فطانت کے کامل ہونے کا یقین دلاتا اور میں ہر وہ کام کر گزرتا کہ
جسے کرنے سے پہلے عاقل ایک عرصہ حیات صرف کر دیتے تھے اور اجتماعی سوچ سے
بھی استفادہ کر لیا کرتے تھے۔ میں نے ہاتھیوں کو میٹھا زہر دینے کا پورا
انتظام کر لیا۔ کرنا صرف اتنا تھا کہ اُنہیں اُن کی جنگلی حیات سے تھوڑا سا
ہٹا دینا تھا تاکہ وہ میرے مطیع و فرمانبردار بن جائیں۔ منصوبہ میں کوئی
سقم نہ تھا میرے مطابق اور زر و جواہر کی فراوانی تھی جو سات گاؤں پار کی
سفید حویلی سے براہ راست ایک نہر کے ذریعہ میرے در دولت تک پہنچ رہا تھا۔
ہاتھی بہت خوش تھے اور میں جیسے ہی جنگل میں داخل ہوا کرتا خوشی سے ناچنے
لگتے، میں اپنے زور بازو یا اپنے اُلو کے بل بوتے پر اُن کی مطلوب ہر غذا
اُن کو مفت فراہم کر دیتا تھا اور وہ پیدائشی حرام خوروں کی طرح بغیر ڈکار
لئے اُسے ڈپھار (کھا) لیا کرتے۔ اس حرام خوری کی خبر جنگلوں میں آگ کی طرح
پھیلی اور پاس پڑوس کے جنگلوں سے بھی ہاتھی وہاں اکٹھا ہونا شروع ہو گئے،
مانو ہاتھیوں کی ایک فوج ظفر موج تیار تھی اور میں اُن کا بے تاج بادشاہ۔
پھر تو یہ ہوا کہ اپنی فرعونیت میں میں جسے چاہتا ہاتھیوں پر سواری کروا
دیتا اور جسے چاہتا اُن کے پاؤں کے نیچے کچلوا دیا کرتا۔ ہاتھی اب میرے
تابع، فرمانبردار بن چکے تھے۔
اُلو کا پٹھہ ہونے کی وجہ سے دن بدن میری مراعات میں اضافہ ہوتا گیا اور
میں بے تاج بادشاہ بن گیا، پھر تو صورتحال کچھ ایسی ہو گئی کہ میرے نام کا
طوطی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگا۔ آپ شائد یقین نہ کیجئے گا کہ وہ
بولیاں میری اپنی سمجھ سے بھی باہر تھیں لیکن میرے مصاحب خاص جو کہ جونکوں
کی طرح مجھ سے اپنے مفادات کی خاطر چمٹے رہتے، ان بولیوں کا کچھ ایسا مطلب
اخذ کر لیتے کہ الامان الحفیظ۔۔ اب یہ اور بات ہے کہ جو بھی مطلب وہ اخذ
کرتے محض اور محض اتفاقاٰٰ میری رضا کے عین مطابق ہوتا، اور میں خوش ہو کر
کچھ نہ کچھ شیرہ اُن جلیبیوں کا جو میں کھایا کرتا زمین پر ڈال دیتا، اور
وہ سبھی مصاحب اُسے چاٹنے زمین پر ٹوٹ پڑتے۔ اب جہاں مال و زر کا سوال ہو
وہاں یہ عزت نفس قسم کے الفاظ کون سی لغات و قوامیس میں پائے جاتے ہیں بھلا؟۔
یہ تو غریب غربا کی سہولت کے لئے ہم جیسوں نے بنائے ہیں کہ اُنہیں بھی تو
سیف پیسیج یا دوسرے الفاظ میں کوئی راستہ دینا ہوتا ہے نا اُنکی نااہلیوں
پر پردہ ڈالنے کے لئے۔
ہاتھی آہستہ آہستہ اپنی قدرتی زندگی بھولتے جا رہے تھے اور مفت کے ٹکڑوں کی
عادت اُنہیں پڑتی جا رہی تھی، دن بدن اُن کی خوراک بڑھنے لگی لیکن پرواہ
کسے تھی، اُن کے قیام و طعام اور اُنہیں پچکارنے کا بہترین بندوبست سفید
حویلی والے کر دیتے تھے، اب اگر آپ کان ادھر لائیں تو ایک راز کی بات بتاؤں،
بس یہ جان لیجئے کہ بات آف دی ریکارڈ ہے، ہی ہی ہی ہی ۔ وہ یہ ہے کہ ہاتھی
کمبخت کسے بتاتے کہ اُنہوں نے جو پیتل کھایا ہے وہ اصل میں جب سفید حویلی
سے آیا تو سونا تھا، ھا ھا ھا ھا۔
خیر صاحب وقت کی تو عادت ہے کہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے، سو وہ گزرتا جا رہا
تھا اور میری زنبیل اب عمرو عیار کی زنبیل سے اگر بڑی نہ تھی تو کم بھی نہ
ہو گی۔ مجھے خود بھی حیرت ہے کہ کبھی کبھی میں سوچتا تھا کہ اتنا کچھ میں
خرچ کہاں کروں گا، استعمال کہاں کروں گا؟ کوئی جواب نہ پا کر میں سوچتا کہ
جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ابھی تو بھرتے ہیں جیبیں۔
سر پنچ عرف مسٹر ذہیں ایک دن موقع پا کر پھر آن دھمکے، ؛؛ کیا کر رہے ہو؟
جانتے ہو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ ؛؛۔
؛؛ اجی خاک ڈالئے اس بات پر، ہم آپ کے باقی پنچوں کو جو ہر وقت روتے رہتے
تھے ۔ نا ۔۔ رو ۔۔ اوت ۔ کہ کر انعام و اکرام سے نواز چکے ہیں اور وہ ہماری
جیب میں ہیں اب، آپ بھی بہتی گنگا میں اشنان کیجئے اور اپنے پاپوں سے مکتی
پا لیجئے ورنہ یہ پاپ مکتی باہنی کی مانند آپ سے آپ کا بنگلہ چھین لیں گے
اور آپ بے گھر رہ جائیں گے، ہی ہی ہی ہی ؛؛۔ میں نے دانت باچھوں سے ۱۸۰درجہ
باہر کرتے ہوئے کہا تھا۔
حسب معمول وہ چپ چاپ سر جھکا کر اور منہ لٹکا وہاں سے تشریف کے آموں کا
ٹوکرا اُٹھائے چل دئیے
بات ہے قسمت کے لکھے کی ، اب اگر قسمت میں ہی کچھ اُلٹا سیدھا لکھا ہو تو
اُس میں میرا کیا قصور ہے؟ ہے کوئی جو اس بات کی وضاحت کر سکے؟ ہونا وہی ہے
جو قسمت میں لکھا تھا، چاہے میں کچھ بھی کرتا رہوں۔ ہوا بھی وہی کہ سفید
حویلی والوں کا کام نکل گیا اور اُنہوں نے اک دم چپ سادھ لی۔ مانو مجھے
جانتے ہی نہ ہوں کمبخت۔ وہ سب مال و زر جو پانی کی طرح بہتا ہوا خود بخود
شیر مادر کی طرح ہونٹوں سے رس کر نیچے بطن کی عمیق نالیوں میں گردش کرنے
لگتا تھا، اب ناپید ہو گیا تھا۔
نامہ بر پیغامات پر پیغامات لے جا رہے تھے مگر سفید حویلی والوں نے شائد
جونوئیں مار ادویات کا اسقدر استعمال کیا تھا کہ ایک آدھی کمبخت جوں بھی
اُن کے کان پر رینگنے سے انکاری ہو گئی، تنگ آمد بجنگ آمد آخر میں اپنے
کمانڈو پنے پر اُتر ہی آیا۔ ہاتھیوں کا دانہ پانی بیک جنبش لب بند کروا دیا،
میرے پاس کون سا قارون کا خزانہ تھا کہ اُن مفت خوروں کے لئے لنگر جاری
رکھتا۔
ہاتھی اب اس قابل رہے ہی نہیں تھے کہ جنگلوں میں غذا تلاش کرتے اور کھاتے،
دن بدن اُن کا غصہ بڑھنے لگا اور پھر ایسا ہوا کہ وہ آس پاس کے گاؤں
اُجاڑنے لگے۔ ہر کس و ناکس، ہر قصوروار اور بے قصور اں کے قدموں کے نیچے
کچلا جانے لگا۔ اور پھر تو یہ ہوا کہ میرے قبیلے کے لوگ بھی اُن کے قدموں
کے نیچے کچلے گئے، جن میں میرے بھائی بند بھی تھے۔
مکافات عمل ہوتا ہے اور ہوا، ہاتھیوں کے غول نے میری بستی پر حملہ کر دیا
اور ایک مست ہاتھی میری جانب بڑھا، اُس کم بخت کی آنکھوں میں شناسائی کی
رتی برابر بھی رمق مجھے دکھائی نہ دی، حالانکہ یہ کمبخت میرا چہیتا ہوا
کرتا تھا۔ پتھر سی آنکھیں تھیں اُس کی جن میں اچھا یا بُرا کوئی بھی تاثر
نہیں ہوتا، ایک سنسنی سی میرے جسم کے طول و عرض میں دوڑ گئی۔ قریب تھا کہ
وہ مجھے روند ڈالتا اپنے دیو ہیکل پاؤں کے نیچے کہ میں چھلانگ مار کر پاس
کی ایک دیوار پر چڑھ گیا۔ ہاتھی جھومتا ہوا آیا اور اُس نے دیوار کو ٹکر
مار دی، دیوار ہل کر رہ گئی، مجھے یقین تھا کہ اگلی ٹکر اُس دیوار کو صفحہ
ہستی سے ناپید کر دے گی، چناچہ جیسے ہی ہاتھی دوسری بار ٹکر مارنے دیوار کے
قریب پہنچا میں لپک کر اُس کے اوپر سوار ہو گیا۔ ہاتھی شائد غصہ سے پاگل ہو
گیا تھا، اُس نے دیوانہ وار جسم کو جھٹکے دینا شروع کر دئے۔
قریب تھا کہ وہ مجھے زمین پر گرا کر کچل ڈالتا کہ سر پنچ نمودار ہوا اور
اُس نے ایک لوہے کی بڑی سی میخ میری طرف اُچھال دی۔ میخ میرے ہاتھ میں آتے
ہی سر پنچ کی آواز آئی کہ اسے ہاتھی کے دماغ میں گاڑ دو۔ میں نے جانوروں سے
متعلق اپنی محبت کے تمام تر دعووں کو بھول کر ویسا ہی کیا، میخ پوری طاقت
سے ہاتھی کے دماغ میں گاڑ دی۔ میخ گڑتے ہی جیسے ہاتھی کو سکون آ گیا ہو |