لوگ کہتے ہیں روپے پیسے میں بڑی
طاقت ہے یہ پاس ہو تو سب کچھ خریدا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر چیز
بازار میں نہیں بکتی کوئی اپنا مر رہا ہو تو زندگی بازار میں نہیں ملتی
سکون و اطمینان ساتھ چھوڑ جائے تو کسی دکان سے ملنا بالکل محال ہے راحت
بھری نیند کہیں کھو جائے تو اچھا بھلا آدمی دیدے پھاڑے بیٹھ رہتا ہے صحت
رخصت تھام لے جوانی الوداع کہہ دے غم ڈیرے ڈال لے اور خوشی ہوا ہو جائے تو
روپیہ پیسہ کیا کرے؟ کتنی پیاری بات ہے یہ اپنے رَب سے عقل و دولت نہ مانگو
بلکہ اچھا نصیب اور مقدر مانگو کیونکہ بڑے بڑے عقل والے مقدر والوں کی
چاکری کرتے پھرتے ہیں سکون بھی کتنا عجیب خزانہ ہے لوگ اِسے حاصل کرنے کے
لیے دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں نہ سکون ملتا ہے نہ حسب ِ خواہش دولت اور
مقدر جن کی نظروں کا منتظر رہتا ہے وہ دولت سے منہ پھیر لیتے ہیں مگر دولت
اُنکے پیچھے بھاگتی ہے اور سکون فرش ِ راہ بچھ جاتا ہے ہم سکون کی تلاش میں
مارے مارے پھرتے ہیں اور وہ سکون کی خیرات بانٹتے ہیں ہم دنیا کے لیے فکر
مند رہتے ہیں اور وہ دنیا والوں کے لیے متفکر ہماری فکر سکون سے دوری کا
باعث اور اُن کا تفکر ایسا کہ تسکین دریوزہ گری کرتی ہے ہم سکون کے لیے
خدمت گار تلاش کرتے ہیں اور وہ خدمت میں تسکین دیکھتے ہیں جادہ سکون و راحت
پر متمکن حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمت اللھ علیھ وصالِ محبوب ِ
حقیقی کا قرب محسوس فرماتے ہیں ایسے میں اپنے لاڈلے پوتے خواجہ اللہ بخش
تونسوی سے پوچھنے لگے ''اللہ بخش! تمہارا دل کیا چاہتا ہے ، کہ تم کیا کِیا
کرو ؟'' دست بستہ عرض کیا: ''حضور! میرا دل چاہتا ہے کہ آپکے چاہنے والے
آتے رہیں اور میں اُن کی خدمت کرتا رہوں؟'' بس یہ ایک جواب حُسن ِ انتخاب
بن گیا خواجہ صاحب نے خواجہ اللہ بخش تونسوی کو سینے کے ساتھ لگایا تمام
منازل طے کروا دیں سکون کا خزانہ بانٹنے کو بخش دیاایسا بے مثل چشمہ سکون
جاری فرمایا کہ بڑے بڑے نصیب والے سیراب ہو رہے ہیں مجھے بھی شرف حاصل ہوا
کہ وہاں چشمہ تسکین اور اَبر ِ کرم کا ملنا دیکھوں کیونکہ جانشین ِ گنج ِ
کرم، شیخ المشائخ بابا جی سیّد میر طیب علی شاہ بخاری دامت برکاتہم العالیہ
کی سنگت حاصل تھی خواجہ خواجگان، حضرت شاہ سلیمان اور خواجہ اللہ بخش
تونسوی اپنے مزارات میں آرام فرما تھے مگر تسکین بھری فضاء اور راحت بھری
ہوا کے ہلکورے روح کی گہرائیوں تک اُتر رہے تھے ہر آنے والے لمحے سے گذرا
ہوا ماند پڑ رہا تھا یہ سوال کتنا عجیب ہے کہ قبر والوں کے پاس کیا ملتا ہے؟
یقیناً وہ سب کچھ جو دنیا والے نہیں دے سکتے ! مجھے ماضی کے ایک گلوکار ''جنید
جمشید'' کا انٹرویو یاد آ گیا اُس نے بتایا کہ میں ہر روز قبرستان بھی جایا
کرتا ہوں انٹرویو لینے والے نے فوراً وجہ دریافت کی اُس نے کہا: '' کیونکہ
مجھے قبر والوں کے پاس جا کر سکون ملتا ہے'' یہ کیسی عجیب بات ہے مادیت
پرستی اور دولت کی ہوس سے آزاد ہونے کے بعد ایک عام انسان کی جائے آرام
سکون فراہم کرنے لگتی ہے پھر وہ کیوں نہیں جو دنیا میں ہی اِن آزار و
تکلفات سے آزاد اور بے پروا رہے اور یہ بات بھی کتنی عجیب ہے اولیاء کے
فضائل و کرامات تسلیم نہیں مگر بعض اوقات غیر ارادی طور پر بہت کچھ مان
جاتے ہیں افتخار احمد ایک دن مجھے کہنے لگے ''جنید جمشید'' نے ایک نجی ٹی۔
وی پروگرام میں کہا: '' عجیب سی بات ہے کہ میں جب پہلی دفعہ مسجد جا رہا
تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک کتا مرا پڑا ہے ___ کوئی گاڑی اُس کے اوپر سے
گزر گئی تھی اور وہ ہلکا ہلکا لرز رہا ہے بلکہ مسجد نہیں کسی کام سے جا رہا
تھا گاڑیاں اُس کے دائیں بائیں سے گزر رہی تھیں اب اُس کے قریب جانا بڑا
عجیب لگ رہا تھا تو میں نے گاڑی سائیڈ پر روکی ایک کپڑا پھاڑا اُسے ہاتھ پر
لپیٹا کتے سے خون نکل رہا تھا میں نے جا کر اُسے اُٹھا لیا میں نے اُسے
اٹھایا تو دو تین لوگ آ گئے اور کہنے لگے ارے یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ہم
کرتے ہیں تو میں نے کہا بس ٹھیک ہے آپ اپنا کام کریں پھر میں اُسے اٹھا کر
سائیڈ پر لے گیا اُس کے لیے زمین کھودی زمین کھود کر جب اُس کتے کو دفن کیا
تو دفن کرتے ہوئے میں نے اُس سے کہا ''میدان محشر میں یاد رکھنا یہ میں نے
تیرے لیے کیا ہے مجھے یاد رکھنا میدان محشر میں اور آ کر مجھے لے جانا اللہ
کے سامنے میری سفارش کرنا تُو ایسے ہی زمین پہ پڑا ہوا تھا اور میں نے تجھے
قبر میں ڈالا*'' یہ کتنی عجیب بات ہے بقول ''جنید جمشید'' ایک کتا سفارشی
بن سکتا ہے! ہاں بھئی! ہمارا رَب بہت کریم و رحیم ہے کتے کے ساتھ یہ برتاؤ
واقعی بخشش کا باعث بن سکتا ہے انسان کُجا کسی جانور کے ساتھ ہمدردی دائمی
سکون بخش سکتی ہے اور دائمی سکون کی حقیقت بہرحال آخرت میں بخشش ونجات کا
حاصل ہونا ہے اِسی لیے اللہ کے ولی بلا امتیاز سب کے ساتھ پیار کرتے ہیں
ایک بزرگ کسی روحانی مرحلے کو طے کرنے کے لیے جنگلوں میں سرگرداں تھے ایک
دن چلتے پھرتے آبادی کے قریب جا نکلے چند بچے زور زور سے ہنس اور اُچھل کود
رہے تھے یہ قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہاں گڑھے میں ایک کتیا نے بچے دے رکھے
تھے اور کمزوری و بھوک سے نڈھال ہو چکی تھی بار بار اوپر آنے کی کوشش کرتی
مگر نقاہت کی وجہ سے پھر نیچے گر جاتی بچے اُسی کا کھیل تماشا دیکھ رہے تھے
وہ بزرگ فی الفور آبادی میں داخل ہوئے ایک تندور والے سے روٹی اور مٹی کے
پیالے میں تھوڑا سا دودھ لیا روٹی کے ٹکڑے دودھ میں ڈال کر بھگوئے اور پھر
تیزی کیساتھ واپس پہنچے پیالہ جھک کر کتیا کے قریب رکھ دیا کتیا نے جلدی
جلدی دودھ سے بھیگے ہوئے روٹی کے ٹکڑے کھالیے پھر آسمان کی طرف نظریں
اُٹھائیں اُسی لمحے وہ بزرگ حالیہ درپیش مرحلے سمیت روحانیت کی کئی منزلیں
طے کر گئے اگر غور کیا جائے تو حقیقی خوشی کہیں اور نہیں کسی فاقہ کش کی
بھوک مٹانے میں پوشیدہ ہے اصل راحت کہیں اور نہیں کسی لاچار کی امداد میں
چھپی ہے لافانی تسکین کہیں اور نہیں کسی بے سہارا کی دلجوئی میں ہے اور
دائمی سکون کہیں اور نہیں کسی بے کس و مجبور کی دعا سے مل سکتا ہے |