ہمارا تعارف کیا ہے، ہماری پہچان
کیا ہے، ہم کون ہیں ہم کیا ہیں۔۔۔؟
ظاہر ہے کہ ہماری ذات انسان اور ہمارا مذہب اسلام ہے جبکہ ہم ملک پاکستان
کے باشندے ہیں کیا ہمارے تعارف ہماری پہچان ہماری شناخت کے لئے اتنا ہی
کافی نہیں جو آج اسلامی برادری بے شمار طبقات اور جماعتوں میں تقسیم ہو چکی
ہے بحیثیت مسلمان ہماری کوئی حییث کوئی مقام نہیں ہے شادی بیاہ کا معاملہ
ہو یا ملازمت کے لئے انٹرویو دینا ہو یا پھر اسی نوعیت کے دیگر معاملات
زندگی مذہب، قومیت اور قابلیت ان سب سے قطع نظر ہمارے فرقے اور ہماری ذات
ہمارے خاندان یا مالی حیثیت سے متعلقہ سوالات کو اہمیت دینا زیادہ ضروری
سمجھا جاتا ہے
اسلامی برادری اتنے زیادہ فرقوں برادریوں اور طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے ہر
فرقہ اور ہر جماعت اپنے آپ کو ہی دوسروں سے بہتر اور مقدم سمجھتی ہے اور
ایک دوسرے کو نیچا دکھنے کے لئے باہم دست و گریبان ہونے سے پیدا ہونے والا
انتشار ہی امت مسلمہ کے اتحاد کو کمزور کر سکتا ہے
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم
ابھی تک اسی دقیانوسی خیالات کی زد میں محصور ہیں ذات پات کا تصوّر جو
فلسفہ اسلام سے کسی بھی حوالے سے مطابقت نہیں رکھتا مذہب اسلام کے پیروکار
پھر کیوں اپنی ذاتی زندگی میں اس تصوّر کو اہمیت دیتے ہیں جو سراسر اسلام
سے متصادم ہے
اسلام میں قومیت کی بنیاد مذہب ہے اور مذہب اسلام کی رو سے ہر وہ شخص جو
سچّے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے قرآن اور سنّت کے مطابق تمام
عقائد پر ایمان رکھتا اور ارکان اسلام پر باقاعدگی سے کاربند ہے وہ مسلمان
ہے دائرہ اسلام میں داخل ہے اور اب یہی اسکا تعارف اسکی پہـچان اور فخر ہے
مذہب اسلام کی رو سے کسی انسان کو کسی انسان پر کوئی برتری حاصل نہیں سوائے
تقوی کے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے
ہمارے معاشرے میں جس کے پاس دولت ہے امارت ہے عہدہ ہے اسی کو دنیا سلام
کرتی ہے بھلے ہی وہ شخص اخلاق و کردار کے حوالے سے غریب تر ہی کیوں نہ ہو
اس کی عزت کی جاتی ہے اور دولت مند کی دولت اس کے بڑے بڑے عیب بھی چھپا
لیتی ہے جبکہ غریب آدمی کی چھوٹی سے چھوٹی تفسیر کو بھی ناقابل معافی جرم
کا رنگ دے کر اچھے خاصے شریف انسان کی شرافت کو داغدار بنا دیا جاتا ہے
غریب کو بدنام کرکے 'بد سے بدنام برا' کے مصادق بروں سے بھی برا ثابت کر
دیا جاتا ہے
اخلاق و کردار کے حوالے سے کوئي شخص کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اسکی عزّت
نہیں کی جاتی ظاہر پرستوں کی دنیا میں خاندانی شرافت کی کوئی اہمیت نہیں
صرف دولت کی اہمیت رہ گئی ہے شرافت اور ایمانداری کی دولت سے مالامال ہونے
کے باوجود غریب آدمی سے رشتہ جوڑنا معیوب سمجھا جاتا ہے آج کے دور میں متقی
اور پرہیز گار یا سادہ طبیعت انسان کو یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ شرافت
کا کیا کرنا زندگی تو مال و دولت سے گزرتی ہے
نادان نہیں جانتے کہ دنیا عارضی مسکن ہے مستقل رہ جانے والی چیز صرف اعمال
صالحہ ہیں کہ جن کو انسان حصول دولت کے لئے داؤ پر لگا کر ہمیشہ کے لئے
کنگال ہو جاتا ہے کہ یہ مال و دولت ظاہری حسن و جمال اور شان و شوکت سب کچھ
دنیا میں رہ جائے گا
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان معاشی بدحالی دور کرنے کی کوشش نہ کرے
اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے کہ زندگی میں سامان حیات کا میّسر آنا بھی
انسان کا حق اور ضرورت ہے لیکن حصول دولت کے لئے حد سے تجاوز نہ کیا جائے
ضرورت کے مطابق اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جائز
طریقوں سے مال و دولت کا حصول عین عبادت ہے
جبکہ زیادہ سے زیادہ دولت کی طمع حرص یا لالچ میں ناجائز طریقوں سے حاصل
شدہ دولت اگرچہ وقتی طور پر کچھ فائدہ پہنچاتی بھی ہے تو آخر کار اس کا
نفصان ہی نفصان ہے اس دنیا میں بھی ناجائز طریقوں سے مال و دولت سمیٹنے
والا کسی نہ کسی آفت کا شکار رہتا ہے اور آخرت میں بھی تباہی حرام مال
کمانے والے کا مقدر ہے اگر انسان اس حقیقت کو نظر انداز کرتا رہے اور لالچ
کی پٹی کو اپنی آنکھوں سے اتار کر نہیں پھینکتا تو یقیناً جلد یا بدیر اپنی
گمراہی کے سبب ہلاکت و تباہی کا بھیانک نتیجہ ضرور بھگتتا ہے
اس کے برعکس خود کو حرص و طمع سے محفوظ رکھتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے لئے
ضروریات زندگی کے سامان کا حلال اور جائز طریقوں سے بندوبست کرنے والا بہت
سی ذہنی و جسمانی فکروں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے اور سکون و اطمینان
کی زندگی بسر کرتا ہے جبکہ آخرت میں بھی اپنے ہر عمل کو مذہب کے دائرے میں
رہتے ہوئے سرانجام دینے والا اپنے ربّ کے حضور بھی سرخرو رہتا ہے
مقصد صرف یہ جتانا ہے کہ مال و دولت زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہے لیکن
دولت کو اپنی زندگی اپنا ایمان اپنا تعارف اپنی پہچان نہ سمجھیں کہ دولت کے
حصول میں ہی ساری زندگی صرف کردی جائے اور آخر میں کچھ بھی آپ کے ہاتھ نہ
آئے سو اپنی بہچان اپنا تعارف اپنے دین اپنے ایمان اپنے عقائد اپنے کردار
اپنے وطن اور انسانیت کے حوالے سے بنائیں دولت کو معیار نہ بنائیں کہ دولت
کسی کا تعارف نہیں انسان کی انسانیت اور اس کا اخلاق و کردار ہے جو کہ ہم
اللہ کی کتاب کلام پاک کی تعلیمات پر عمل کر کے ہی سنوار سکتے ہیں اگر آپ
تعلیمات قرآنی کی روشنی میں اپنا تعارف تلاش کریں تو آپ کا اپنا ذاتی وجود
ہی آپ کا نمائندہ آپ کی پہچان اور آپ کا تعارف ہے ظاہری حسن و دولت کو اپنے
تعارف کا معیار نہ بنائیں بلکہ اپنا جائزہ لیں کہ آپ اگر مسلمان ہیں تو آپ
کے عمل سے یہ مسلمانیت کس حد تک جھلکتی ہے کہیں ہم محض نام کے مسلمان ہو کر
اس خوش فہمی کا شکار تو نہیں کہ ہم مسلمان ہیں امّت نبی ہیں شافع محشر کی
امت سے ہیں اور روز آخرت اپنے نبی کی شفاعت سے جنّت کے حقدار بھی یقیناً ہم
ہی ہوں گے
ضرور ہوں گے لیکن وہ جو واقعتاً مسلمان ہیں اور جن کے ہر عمل سے اسلام
جھلکتا ہے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرتے ہیں
جبکہ وہ مسلمان جو پیدا تو مسلمان کے گھر ہوئے لیکن زندگی کے تمام معاملات
میں تقلید کافروں کی کرتے رہے جس طرح کوئی غیر مذہب سے تعلق رکھنے والا
اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے ہر عمل کی انجام دہی کے لئے دین محمدی سے
رہنمائی لیتے ہوئے اپنے اخلاق و کردار کو سنوارتا ہے وہی دائرہ اسلام میں
داخل سمجھا جائے گا اور یقیناً شافع محشر کی شفاعت کا مستحق بھی ٹھہرے گا
بلکل اسی طرح مسلمان کے گھر پیدا ہونے والا کافر صفت انسان جو اپنے ہر عمل
میں بڑی دیدہ دلیری سے شیطان کی پیروی کرتا اور پھر بھی خود کو بڑی ڈھٹائی
سے مسلمان کہتے ہوئے شفاعت کی خوشی فہمی میں مبتلا رہے اسکی شفاعت مشکوک ہے
ایسے انسان کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کس منہ سے خود کو مسلمان کہتے ہوئے رب
اور اسکے رسول کا سامنا اور کیونکر کرسکے گا
اپنی پہچان اپنی شناخت اپنے مذہب میں تلاش کریں کے اغیار کے کافرانہ طرزعمل
کی تقلید کرنے والے انسان کی مثال اس جانور جیسی ہوتی ہے کہ جو' نہ گھر کا
رہتا ہے نہ گھاٹ کا' انسان کا تعارف انسانیت میں اور مسلمان کا تعارف
مسلمانیت میں ہے جبکہ مذہب اسلام دنیا کے ہر اس انسان کا مذہب ہے جو دائرہ
اسلام میں آنا چاہے جو معاملات زندگی میں اسلام کی پیروی چاہے خواہ وہ کسی
بھی خطّے کسی بھی دیس کسی بھی ارض وطن تعلق رکھتا ہو کیسی بھی زبان بولتا
ہو مسلمان ہے اگر اسکا دل اسلام کی طرف راغب ہے تو جب چاہے اس دائرے میں
داخل ہو سکتا ہے جو اسے بحیثیت انسان قابل فخر تعارف عنایت کرتا ہے
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اپنا کیسا تعارف چاہتے ہیں |