سی ایم ایچ مظفرآباد

 آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآبادکا، سی ایم ایچ ہسپتال جو2005 کے زلزلہ میں تباہ ہو گیا تھا، مگردوبارہ ،یو، ایس کے تعاون سے مضبوط بنیادوں،خوبصورت اورجدید سہولیات کے ساتھ مظفرآباد کی سر زمین پرتعمیر کیا گیا۔اس کے اندر دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو دکھی انسانوں،اور مریضوں کی خدمت بہترین طریقے سے کر سکتے ہیں۔ یہ ہسپتال مکمل طور پر انسانی بیماریوں کا علاج کرنے کی صلاحت رکھتا ہے،اس میں مریضوں کے لئے بہترین اور سستی ادویات کا زخیرہ ہر وقت موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر،تربیت یافتہ ڈاکٹر اور عملہ بھی موجودہے۔جن کے لئے پرسکون کمرے دفاتر اور آرام گائیں بھی ہیں۔ یہ دیکھنے میں بہت خوبصورت اور وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا ہے،مگراس کو استعمال کرنے والوں نے اس کو نہ صرف بدنام کر رکھا ہے بلکہاسسے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں،تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود مریضوں کا وہ علاج نہیں کیا جاتا جس کی امید لے کر دکھی انسان یہاں آتے ہیں،دور دراز سے آنے والے مجبور بے بس اور غریبلوگ اس سے اچھی طرح واقف ہیں جو زندگی کی آس لے کر آتے،اور مایوس ہو کر جاتے ہیں۔ اپنی زمہ داریاں نبھانے والے ڈاکٹرز،نرس،اور عملہ گورنمنٹ کے خزانوں سے بڑی بڑی تنخوائیں اور مراعات تو لیتے ہیں مگر ان کا رویہ سلوک اور برتاو مریضوں اور غریبوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدتر ہے ۔ابن آدم مسیحا کا نام پانے والے ڈاکٹر، پہلے تو مرض سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے اگر کسی پر کوئی رحم آ بھی جائے تو اس کے ساتھ قصایوں وا لا سلوک کرتے ہیں،اس لئے نہیں کہ وہ نالائق یا ناوقف ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کی لالچ اور دولت کی حس ان کو بے رحم اورسنگدل بنا دیتی ہے ۔وہ زیادہ تر مریضوں کو اپنے بنائے ہوئے پرائیویٹ کلینک کا راستہ بتاتے ہوئے جلد ٹھیک ہونے اور بہتر صحت کی امید دیلاتے ہیں زندگی اور موت کی کشمکش میں مرض کرے تو کیا کرے جان سلامت سو لاکھوں پائے کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے لواحقین مجبوراً ڈاکٹر کے مشورے پر اپنے عزیزوں کو پرائیویٹ ان ہی ڈاکٹروں کے کلینک لے جاتے ہیں۔،وزیر صحت نے عملے کا خیال رکھتے ہوئے ان کی مراعات میں اضافہ بھی کیا تھا مگر یہ آدم کا بیٹھا پیسوں کی لالچ میں کسی کی بھی مجبوری ،بے بسی،لاچارگی کا خیال نہیں رکھتا جو بھی مریض آتا ہے اس کے ساتھ تلخ لہجے،ترش زبان سیپیش آتے ہیں، اسے انسان تک نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہاں پر آنے والا دکھی انسان جو بھی فیس دے گا وہ سرکار کے خزانے میں جائے گی وہ علاج جو یہاں ،دو ،تین ہزار میں ہو سکتا ہے وہی علاج وہ ڈاکٹر اپنے خود ساختہ بنائے ہسپتال میں،بیس،بیس ہزار میں کرتے ہیں مریض کو اس حدتک مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کا سامان اپنے زیور تک بیچ کر اپنے عزیز و اقارب اپنے پیاروں کا علاج کرواتے ہیں ۔ڈاکٹر بے لاگام ہاتھی کی طرح من موجی ،آتے اور چلے جاتے ہیں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ گاہنی وارڈ جس میں زئچہ بچہ کسی بھی طرح کے کیس کی سہولت موجود ہے مگر جب گاہنی وارڈمیں بے یارو مددگار عورتیں صرف اور صرف اﷲ کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں،ڈاکٹر توجہ نہیں دیتے اگر کوئی پوچھ بھی لے توا س کارویہ کسی خون خوار بھیڑیے سے کم نہیں ہوتا ابھی حال ہی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت کا ڈلیوری کیس تھا اس کی بلیڈنگ بہت زیادہ ہونا شروع ہو گی کسی نے بھی ہسپتال میں اس کی طرف توجہ نہیں دی،وہی ڈاکٹر جو ،سی ایم ایچ میں سیدھے منہ بات نہیں کر رہے تھے اپنے پرائیویٹ کلینک میں جانے کے بعد منٹوں میں دوا دے کر بلیڈنگ کو کنٹرول کیا۔یہ کسی ایک مریض یا ایک دن کی بات نہیں بلکہ یہ روزانہ کا ڈرامہ ہے اس تھیٹر میں کھیلاجاتا ہے وہ ڈاکٹر جو یہاں سے صرف اور صرف تنخوائیں لیتے ہیں اپنے پرائیویٹ ہسپتالوں میں ہزاروں میں فیس لے کر مسیحا بن جاتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہاس ہسپتال کے نام سے ایشو ہونے والی ادویات بھی ہیر پھیر کر کے اپنے اپنے کلینک میں منتقل کر دیتے ہیں،دکھی مریضوں پر رونا آتا ہے جو بڑی امیدیں لے کر آتے ہیں مگر یہاں سے مایوس لوٹے ہیں۔ حکمران ، انتظامیہ ،وزیر صحت سے گزارش ہے کہ وہ اپنی ناک کے نیچے ہونے والی ڈاکٹروں کی لاپروائی کو دیکھیں اور اس کا نوٹس لیں۔ ڈاکٹروں کو پابند کیا جائے کے وہ ہسپتال میں فل ٹائم مریضوں کی دیکھ بھال اپنا فریضہ سمجھ کر سرانجام دیں۔ہسپتال میں ایک شکایت بکس یا رجسٹر رکھا جائے جس میں اس ہسپتال میں آنے والے مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے ایٹنڈٹس اپنے ریمارکس لکھیں،اس بکس ،یا رجسٹر کو روزانہ کی بنیاد پر چیک کیا جائے ڈاکٹروں کی کارگردگی کو مونیٹر کیا جائے ،مریضوں کے ساتھ ہونے والے کسی بھی معمولی یا غیر معمولی واقعے کا نوٹس لیا جائے،کسی تعلق ،کسی دوستی،کسی عہدے،کی بنیاد پر کسی بھی ڈاکٹر کورعایت نہ دی جائے جو ڈاکٹر اپنا کلینک چلنا چاہتے ہیں وہ اپنی نوکری سے استعفیٰ دے کر چلا سکتے ہیں۔یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جدید ترین سہولیات کے موجود ہونے کے باوجودہسپتال میں علاج نہیں ہو سکتا تو پرائیویٹ کلینک میں کیسے ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر، اﷲ کے خوف سے ڈریں اور غریبوں ،دکھی مریضوں کی ان آہوں سے بچیں جو بے بسی ،مجبوری میں ان کے منہ سے نکلتی ہیں اعلیٰ انتظامیہ کو سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اسسلوک کا سدباب کرنا چاہئے جو CMHمظفرآباد اور پرائیویٹ کلینک کے درمیان مریضوں کے ساتھکیاجا رہا ہے ،ڈاکٹروں کی پرائیویٹ علاج خانوں پر چھاپے مارے جائیں مریضوں سے پوچھا جائے کہ وہ یہاں کیوں آتے ہیں ان کو ہسپتال میں کیا مشکلات ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے زیورات بیچ کراپنا علاج کرواتے ہیں ۔ایسے میں دوھ کا دوھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے گا کوئی کمیشن ،یا کمیٹی بنانے کی ضرورت نہیں،بلکہ مریضوں یا ان کے ہمراہ عزیزوں سے پوچھ کر ایکشن لیا جائے۔یہاں پر غریبوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کیا جائے گا ان کو اپنی زندگی کی سانسیں لینے کے لئے کیسے کیسے امتحانات سے گزرنا ہوگا۔عام انسانوں کو انسانیت کے نام پر کہاں کہاں لوٹا جائے گا۔کچھ خوف کرو۔یہ مظفرآباد کے ایک ہسپتال کی کہانی نہیں،بد قسمتی سے ملک بھر کے شہر شہر کے ہسپتالوں کی ترجمانی کرتی ہے ،مگر انتظامیہ نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں سب اپنے اپ کو انجان بنا بیٹھے ہیں مگر ڈرو اس وقت سے جب ان غریبوں کی آہوں کی لپیٹ میں آو گے اور تم کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے تو صرف ایک نظر آپنے گریبان میں جھانک کر دیکھواپنی زندگی کے اردگرد نظر دوڑاو آپ کو اپنا اپ عجیب اور نہ سمجھ آنے والے مسائل میں الجھا ہوا دیکھائی دے گا ۔لاکھوں روپے کمانے کے باوجود بھی ایک لمحے کے لئے سکون میسر نہیں کیوں؟دولت تو سکون حاصل کرنے کے لئے کمائی جاتی ہے جب سکون نہیں تو اس دولت کا اس بے آرامی کا،اس فراڈ اور دکھی انسانیت کے ساتھ دھوکے کا کیا فائدہ۔سوچئے گا۔امید ہے انتظامیہ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کا سختی سے نوٹس لے گی اور غریب انسانوں،مریضوں کے حال پر رحم کرے گی۔ اگر کسی کے پاس مذید معلومات ہے تو وہ مجھ سے ای میل پر شیر کر سکتا ہے۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75014 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.