کیا ہم اپنے گھوڑے تیار رکھیں؟

وہ ہمارے باس تھے۔خوب گورے چٹے، پٹھان تھے اور پٹھانوں کی روایتی عادتوں سے مسلح۔ سادہ دل ،مہمان نواز لیکن کسی بات پہ اڑ جاتے تو پھر انہیں قائل کرنا اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے مترادف ہوتا۔ باس بننے سے پہلے نہ صرف ہمارے دوست بلکہ ایک طرح سے ہماری انگلی پکڑ کے گلی گلی محلے محلے گھوما کرتے۔ہماری انگلی کا اثر تھا یا ان کی صلاحیتوں کا کہ چند ہی دنوں میں بڑے بڑوں کے کان کترنے لگے۔وہ جوانی نہیں بلکہ نوجوانی کے دن تھے۔ہم نے باس بن کے ان کے بدلتے تیور دیکھے تو اسی میں عافیت جانی کہ آپے میں رہیں۔ہم نے ان سے محاورے کی زبان میں ایک بازو کا فاصلہ رکھنا شروع کر دیا۔ایک بازو کا فاصلہ ہوتا ہی کتنا ہے۔آنکھ کی پتلی حرکت کرے تو بھی ساتھی کو خبر ہوتی ہے۔ان کو باس ہونے کا زعم تھا تو ہمیں استاد ِ شاہ ہونے کا۔زندگی یونہی چلے جا رہی تھی کہ اچانک ایک دن ایک ایسا واقعہ ہوا کہ ہمیں ان کی معصومیت پہ ڈھیروں پیار آ گیا اور ہم نے ان کے ساتوں قتل معاف کر دئیے۔اس معافی کا نقصان یہ ہوا کہ انہوں نے سات مزید قتل کر کے حساب برابر رکھا۔

ہم اپنے آفس میں تھے کہ باس کے کمرے سے چیخم دھاڑ کی آوازیں سنائی دیں۔ہم بھاگے کہ شاید دفتر میں آگ لگ گئی ہے۔ وہاں پہنچے تو آگ واقعی لگی ہوئی تھی ۔باس آگ بگولا تھے۔ ان کا گلابی رنگ شعلہ جوالا بنا ہوا تھا۔ میرے سامنے انہوں نے سامنے کھڑے ماتحت جسے ٓپ مشتاق کہہ لیں پہ ایش ٹرے کھینچ ماری اور وہ مغلظات بکیں کہ الحفیظ و الامان۔میں نے مشتاق کو ان کی نظروں سے دور کیا اوران سے احوال جاننے کی کوشش کی۔ موصوف فرمانے لگے کہ اس فلاں ابن فلاں نے مجھے گالی دی ہے۔ اب جس ادارے میں ہم کام کرتے تھے وہاں محبتوں کا اتنا رواج تھاکہ یہ بات مجھے ہضم نہ ہو سکی۔ تفصیل پوچھی تو کہنے لگے اس نے مجھے" ڈڈو" کہا ہے۔ میں نے بار بار ان کے چہرے پہ نظر ڈالی لیکن کہاں وہ گلابوں جیسا کھلا کھلا چہرہ اور کہاں منحوس" ڈڈو" یعنی مینڈک۔ میں نے انہیں ٹھنڈا کیا اور باہر نکل کے دوسرے فریق کو طلب کیا۔

وہ بے چارہ ابھی تک پریشان تھا کہ آخر خان صاحب کو غصہ کس بات پہ آیا۔میں نے جب اسے بتایا کہ تم نے باس کو مینڈک کہا ہے تو وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگا۔الٹا اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کیا میں انہیں ایسا کہہ سکتا ہوں۔ مجھے لگا وہ کہہ رہا ہے کہ آپ ہوتے تو شاید میں کہہ بھی دیتا لیکن اتنے خوبصورت آدمی کو مینڈک کوئی اندھا ہی کہہ سکتا ہے۔میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے تفصیل سے بتائے کہ گفتگو کیا ہوئی تھی۔اس نے بتایا کہ روٹین کی گفتگو تھی ۔کسی بات پہ میں نے پنجابی میں کہا کہ آپ بہت "ڈاہڈے" ہیں ۔بس یہ سننا تھا کہ وہ آپے سے باہر ہو گئے۔آنکھیں شعلے برسانے لگیں۔انہوں نے مغلظات بکیں اور آخر میں مجھے ایش ٹرے کھینچ ماری۔یہ سنتے ہی میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔میں مشتاق کو باس کے پاس لے گیا اور تھوڑی دیر بعد ہر طرف قہقہے ہی قہقہے تھے اور باس نے اٹھ کے تختہ مشق کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ اس سے بار بار معافی بھی مانگی۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مشتاق کی کسی بات کے جواب میں جب خان صاحب نے رکشے میں بیٹھنے کی کوشش کی جو وہ دوران گفتگو اکثرکیا کرتے تو ماتحت نے پنجابی میں عرض گزاری کہ" سر تسی بہت ڈاھڈے ہو"یعنی جناب آپ بہت زور آور ہیں۔باس کا ہاتھ پنجابی میں کافی تنگ تھا۔وہ" ڈاھڈے" کو" ڈڈو" سمجھے اور پھر جو ہوا وہ تو آپ سن ہی چکے ہیں۔ دونوں کا بڑا پن کہ جب انہیں حقیقت کا علم ہوا تو دونوں نے کھلے دل سے ایک دوسرے کو معاف کر دیا۔

میاں صاحب امریکہ کے دورے پہ ہیں۔یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سر پہ ہے۔ اے پی سی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر چکی ہے۔ڈرون حملوں کے خلاف ملکی سطح پہ غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ کو ان حملوں کی وجہ سے جنگی جرائم کا مجرم قرار دئیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔امریکہ افغانستان سے نکلنے کا اعلان کر چکا۔جنگی سازو سامان کی طور خم کے راستے واپسی پہلے ہی شروع ہو چکی۔ افغانستان پاکستانی زمینی حدود کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پہ دباؤ بڑھا رہا ہے۔"ممنون صدر "فرماتے ہیں کہ یہ کاروائیاں بھارتی الیکشن کی وجہ سے ہیں جبکہ سیانے کا کہنا ہے کہ انتخابات میں تو ابھی پورا سال باقی ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ گاجر اور ڈانگ والا معاملہ ہے خیر یہ بات اﷲ جانے، گاجر جانے یا ڈانگ۔

ہمیں تو بس یہی خدشہ ہے کہ میاں صاحب کو پنجابی بولنے کا بہت شوق ہے جس کا مظاہر ہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات میں کر چکے ہیں۔ا مریکہ میں بھی کہیں میاں صاحب گرمئی گفتار میں یہ نہ کہہ دیں کہ اوبامہ صاحب! آپ جناب بہت " ڈاہڈے" ہیں کہ ہمارے باس کی طرح امریکہ کو بھی کسی بات پہ قائل کرنااونٹ کو رکشے ہی میں بٹھانے کے مترادف ہے۔اس ڈاھڈے کو اگر انہوں نے" ڈڈو "سمجھ لیا اور ان کے پاس اس غلط فہمی کی گنجائش بھی بہت ہے تو نون لیگ جو اس دورہ امریکہ کی کامیابی پہ جشن بپا کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے،اس کا کیا بنے گا؟ہمارے باس نے تو صرف گالیاں دی تھیں ۔ایش ٹرے پھینکی تھی۔اوبامہ تو سگریٹ چھوڑ چکے تو کیا پھر افغانستان اور بھارت سے سرحدی خلاف ورزیوں سے بڑھ کے بھی کچھ متوقع ہے۔کیا ہم اپنے گھوڑے تیار رکھیں؟

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268786 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More