ہسپتال کے برامدے میں لگے بینچ پر بیٹھے
دونوں پولیس اہلکاروں کی نظریں مسلسل برنز وارڈ کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔
وہ دونوں پچھلے ایک گھنٹے سے وہاں بیٹھے بے چینی سے اندر گئی لیڈی شوشل
ورکر کنیز فاطمہ کا انتظار کر رہے تھے۔ مذید آدھ گھنٹہ گزرنے کے بعد اُنہیں
وارڈ کے دروازے سے کنیز فاطمہ تھکے تھکے قدموں سے چلتی دروازے سے برآمد
ہوتی نظر آئی۔
دونوں تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئےاور تیر کی طرح سے اُس کی طرف بڑھے۔
اُنہیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر کنیز فاطمہ کے چہرے پر ایک خفیف سی اداس
مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
۔"میڈم پھر کچھ بتایا اُس نے؟"۔
اُن میں سے ایک پولس والا جو کہ اپنی وردی پر لگے پھُول کی مناسبت سے سب
انسپکڑ تھا، آگے بڑھ کر کنیز فاطمہ سے مخاطب ہوا۔ جواباً اُس نے ایک گہری
سانس بھرتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو سختی کے ساتھ بھینچ لیا اور اپنی ناکامی کے
اظہار میں نظریں جھکاتے ہوئے دھیرے سے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔
۔"آپ ہی ہماری آخری امید تھیں میڈم"۔ سب انسپکڑ تاسف بھرے لہجے میں بولنا
شروع ہوا۔ "آج پندرہ دن ہوگئے ہیں اِس لڑکی کو ہسپتال کے برنز وارڈ میں پڑے
اور ہمیں پورا یقین ہے کہ اِسے اِس کے شوہر اور سسرال والوں ہی نے جلایا ہے"۔
۔"جی میرا بھی یہی خیال ہے اور میں پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے بہلا پھُسلا کر
حقیقت جاننے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ تو بس مسلسل اصرار کئے جا رہی ہے
کہ اچانک چولہہ پھٹ جانے کے سبب وہ جل گئی اور اُس وقت گھر میں وہ اکیلی ہی
تھی"۔ کنیز فاطمہ تھکے تھکے سے لہجہ میں دھیرے سے بولی۔
۔"جی ایسا ہی ہوتا ہے ہمیشہ۔ جل کر مرنے سے بچ جانے والی ہر لڑکی اپنے شوہر
اور سسرالیوں کو بچانے کی خاطر ایسے ہی بیانات دیتی ہے اور اگر جو لڑکی
وقوعے پر ہی چل بسے تو پھر اُس کا شوہر اور دیگر لوگ بھی کوئی ایسا ہی بیان
دے کر سارا معاملہ چولہے کے پھٹنے پر ڈال کر بری ازمہ ہو جاتے ہیں"۔ سب
انسپکڑ سے ساتھ کھڑا پولیس کانسٹیبل افسردہ لہجے میں بولا۔
۔"پھر عوام اور میڈیا پُلس پر لعن تعن کرتا ہے کہ جی پُلس کچھ نہیں کرتی۔
مگر جب تک مظلوم خود ہماری مدد نہ کرے بھلا ہم اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟"۔
سب انسپکڑ مایوس لہجے میں بولا: "اسی لیے تو ہم ایسے کسیوں کو سلجھانے کے
لیے آپ کے ادارے انجمنِ تحفظِ نسواں کی مدد لیتے ہیں اور ماضی میں بھی آپ
ایسی کئی لڑکیوں کو سمجھا بجھا کر اپنے خاوندوں اور سسرالیوں کے خلاف گواہی
دینے پر آمادہ کر چکی ہیں"۔
۔"ہاں، لیکن یہ لڑکی تو ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ میں نے اِسے بہتیرا
سمجھایا، ہر قسم کے تحافظ کی یقین دھانی کروائی لیکن وہ تو بس مسلسل اِسی
بات پر ڈٹی ہوئی ہے کہ میرا شوہر مجھ سے بہت پیار کرتا ہے وہ کبھی ایسا
نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ میں نے تو اُسے یہ تک کہا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔!، ارے یہ سامنے والی بینچ پر جو شخص بیٹھا ہے وہ کون ہے؟" اچانک کنیز
فاطمہ کی نظر سامنے بینچ پر بیٹھے ایک شخص پر پڑی، جس کے چہرے سے پریشانی
مترشح تھی اور وہ نہ جانے کیا سوچتے ہوئے دُور خلاؤں میں گھورے چلا جا رہا
تھا۔
۔"جی یہی تو ہے اُس بدنصیب لڑکی کا کمینہ شوہر جس پر ہمیں شک ہے کہ یہ سب
اِسی کا کیا دھرا ہے۔ ہم نے اپنا ہر حربہ آزما لیا۔ کم بخت بڑی ڈھیٹ ہڈی کا
بنا ہے کچھ اگلتا ہی نہیں اور اِس نے یہ سارا کام اِس ہوشیاری کے ساتھ کیا
ہے کہ کوئی ثبوت تک نہیں چھوڑا۔ دراصل یہ لڑکی ایک چھوٹے سے قصبہ کے رہائشی
غریب والدین کی بیٹی ہے۔ جہیز شہیز تو کیا لانا تھا اِس نے، بےچاری شادی کے
کوئی سات سال بعد بھی ماں نہ بن سکی تو اِس خبیث نے سوچا کہ چلو زرا اِس کا
قصہ یوں ہی پاک کر دیا جائے"۔ سب انسپکڑ غصے سے بولا۔
۔"کیا میں اس کیس کی فائل دیکھ سکتی ہوں؟" کنیز فاطمہ سب انسپکڑ کی بات پر
کوئی خاص توجہ دیئے بغیر بولی اور سب انسپکڑ نے بناء کچھ کہے فوراً اپنے
ہاتھ میں تھامی پیلے رنگ کی ایک پتلی بوسیدہ سی فائل اُس کے ہاتھ میں تھما
دی۔ کچھ دیر کنیز فاطمہ فائل میں لگے چند کاغذات اُلٹ پلٹ کر دیکھتی رہی
اور پھر فائل واپس کرتے ہوئے بولی: "سب انسپکڑ صاحب، آپ فکر نہ کریں،
انشاءاللہ اب آپ کا کام ہو جائے گا" یہ کہتے ہوئے وہ پلٹی اور وارڈ کے کھلے
دروازے سے اندر چلی گئی۔ گو کہ اِس بار اُس کی آواز کہیں دُور کسی کنویں سے
آتی محسوس ہوئی تھی لیکن اُس کی چال کا والہانہ پن اُس کے اندر اُٹھتے کسی
طوفان کا غماز تھا۔
کنیز فاطمہ تیز تیز چلتی ہوئی اُس دس بستروں کے وارڈ کے بیڈ نمبر تین پر جا
کر رُک گئی۔ بیڈ پر ایک لڑکی تکیۓ پر سر ڈالے اپنی آنکھیں بند کئے پڑی تھی۔
گردن سے نیچیے تک کا تمام حصّہ، بیڈ سے قدرے بلند نصف دائرہ بناتے، سفید
چارد سے ڈھکے جالی دار مچھر دانی نما کور کے اندر یوں پڑا تھا کہ اُس کا
بُری طرح سے جھلسا ہوا جسم کسی بھی شئے کو نہ چھوئے۔ ڈرپ کی بوتل سے نکلتی
تار اُس کور کے اندر جا کر کہیں گم ہوگئی تھی اور یقیناً اُس کی سوئی لڑکی
کے ہاتھ ہی میں پیوست ہوگی جو کہ جھلسے ہونے سے سبب اندر ہی تھا اور نظر نہ
آتا تھا۔
کنیز فاطمہ کے کھنکھارنے پر اُس لڑکی نے دھیرے دھیرے اپنی پلکیں اٹھا کر
دواؤں کے خمار میں ڈوبی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔ "آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، آپ پھر
واپس آ گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی بار آپ کو بتاؤں؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شوہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلایا ہے!" لڑکی کمزور لہجے
میں ٹہر ٹہر کر بولی۔
۔"نہیں نازو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، اب کی بار میں تم سے کچھ پوچھنے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔! کچھ بتانے آئی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، اپنی کہانی سنانے آئی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ !!!"۔ کنیز فاطمہ کی آواز بدستور کسی اندھے کنویں سے آتی سنائی دی۔
۔"کہانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کیسی کہانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔ نازو نے نحیف سی آواز
میں پوچھا۔
۔"میری کہانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! کنیز فاطمہ کی کہانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!"
وہ خُود کلامی کے انداز میں بولی۔
۔"مجھے کوئی کہانی نہیں سننی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ، آپ میرا یقین کیوں نہیں کرتیں
کہ میں چولہہ پھٹ جانے سے ہی جلی ہوں"۔
۔"سنو نازو، اب مجھے اِس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ تم خُود جلی یا تمھیں
جلایا گیا۔ لیکن اگر تم اپنی زندگی کے چاک دامن کے اصل رفُوگر کو پانا
چاہتی ہوں تو تم کو میری کہانی سننا ہی ہوگی" کنیز فاطمہ کی نگاہیں بظاہر
تو نازو کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کہیں
دُور خلاوؑں ٘ میں گھور رہی ہوں اور نازو نے اُس کی بات کو کچھ یوں سُنا
جیسے اُسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا ہو۔
۔"میں کنیز فاطمہ، عمر پچیس برس، قدر پانچ فٹ چھے انچ، وزن 110 پاؤنڈ، رنگ
گورا، خوش شکل، تعلیم ایم اے، پابندِ صوم و صلاۃ کے لیے ایک مناسب بر کی
تلاش ہے، والدین لڑکی کو ذیادہ جہیز دینے سے قاصر ہیں۔ نازو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ،
یہ تھے وہ حالات جن میں میرے والدین میرے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں مبتلا
تھے"۔ کنیز فاطمہ میکانیکی انداز میں سپاٹ چہرے کے ساتھ بولنا شروع ہوئی۔
۔"کافی کوششوں کے بعد آخر میرے والدین میرا رشتہ ایک ایسے خاندان میں کرنے
میں کامیاب ہوگئے جن کی شرافت کا ایک زمانہ گُن گاتا اور اُن کا شمار کھاتے
پیتے لوگوں میں تھا۔ میرے والدین کو یقین تھا کہ وہ لوگ یہ رشتہ محض میری
شکل و صُورت اور اِس سے بھی بڑھ کر میرے کردار، چال چلن، اچھے اخلاق، تعلیم
اور صوم و صلاۃ کی پابندی کے سبب کر رہے ہیں۔ لیکن یہ محض اُن کی خام خیالی
ہی ثابت ہوئی۔ پہلے پہل تو وہ باتوں میں لپیٹ لپیٹ کر محض اشاروں و کنایوں
میں جہیز میں مطلوب اشیاء گنواتے رہے۔ پھر جیسے جیسے شادی کا وقت قریب آتا
گیا مطالبات کا برملا اظہار ہونے لگا۔ آخر میرے والدین کو وہی تلخ گھونٹ
اپنے حلق سے اتارنا ہی پڑا جس سے وہ بچنا چاہتے تھے۔ انہوں نے میری شادی کے
لیے اپنی زندگی بھر کی کمائی، اپنے بڑھاپے کا سہارا اور اپنے سر کی اکلوتی
چھت فروخت کر کے ان کے مطالبات پورے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے اپنے
والدین کو بہت سمجھایا کہ لڑکے والے شرافت کی چادر میں لپٹے وہ بھیٹریئے
ہیں جو آج تو جہیز کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن کل شادی کے بعد کسی ایسے ہی
مطالبے کے پورے نہ ہونے پر آپ کی بیٹی کا خُون پینے سے بھی گریز نہ کریں گے۔
لیکن میرے والدین مجھے یہی سمجھاتے رہے کہ ایسے رشتے روز روز نہں آیا کرتے۔
تم جہیز کی فکر مت کرو۔ چاہے ہمیں خُود کو ہی کیوں نہ بیچنا پڑے مگر ہم ایک
ایک چیز کا بندوبست کر لیں گے"۔
۔"میری شادی کو سن کر ایک روز میری کالج اور یونیورسٹی کی کلاس فیلو اور
دوست فرزانہ جو کہ مقامی اخبار میں کام کرتی تھی، ملنے آئی۔ اُس نے جب میرا
اداس چہرہ دیکھا تو مجھ سے پوچھا کہ کیا میری شادی زبردستی کی جا رہی ہے۔
جس پر میں نے اُسے ساری کہانی کہہ سنائی۔ میری کہانی سن کر کچھ دیر تو وہ
سوچ میں پڑ گئی، پھر بولی:۔
۔"اگر تم میں ھمت ہے تو تم کوئی ایسا قدم اٹھاؤ جو اِن جیسے لالچی لڑکے
والوں کو سارے معاشرے میں بےنقاب کردے۔ اِس طرح سے نہ صرف تم ایک لالچی
انسان اور اُس کے لالچی گھر والوں سے خود کو بچا لو گی بلکہ اِس بات سے سبق
لے کر نہ جانے کتنی لڑکیاں اور اُن کے غریب والدین دوسرے لڑکوں کے لالچی
والدین کے جال میں آنے سے محفوظ رھ پائیں گے"۔
۔"پھر اُس نے مجھے ایک ایسا راستہ بتایا جو کہ میرے لیے کٹھن بھی تھا اور
اُس میں میری بدنامی کے بھی امکانات تھے لیکن میں نے بھی ٹھان لی تھی کہ
چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اپنے بوڑھے غریب والدین کی عمر بھر کی کمائی، اُن
کے سر کی چھت کو اِن لالچی لوگوں کے لالچ پر ہرگز قربان نہ ہونے دوں گی۔
اگلے روز فرزانہ کے اخبار کے صفحہِ اول پر میری منگنی کی تصویر جس میں میرا
ہونے والا دولہا بھی نمایاں تھا، مکمل حقائق کے ساتھ شائع ہو گئی۔ اُس
تصویر اور خبر کے شائع ہوتے ہی شہر بھر میں ہاہاکار مچ گئی۔ لوگوں بطورِخاص
شہر بھر کے متعمد افراد و عمائدینِ شہر، فلاحی اداروں اور حقوقِ نسواں کی
تمام تر تنظیمیں کمر باندھ کر میدان میں کود پڑیں۔ سب نے میری بھرپور حوصلہ
افزائی کرتے ہوئے نہ صرف میرے حق میں آواز بلند کی بلکہ مجھے حقوقِ نسواں
کا چمپین قرار دے دیا گیا۔ میرے نام اور تصاویر کے پلے کارڈز لے لے کر
مختلیف فلاحی اور حقوقی نسواں کی تنظیموں نے میرے حق میں جلسے جلوس نکالنا
شروع کر دیئے۔ یہ صورتحال دیکھ کر لڑکے والوں اور خُود اُس لالچی لڑکے کے
تو جیسے ہوش ہی ٹھکانے آ گئے ہو۔ وہ دوڑے دوڑے میرے والدین کے پاس پہنچے
اور بات معافی تلافی تک جا پہنچی۔ میرے والدین نے مجھے بہت سمجھایا کہ اب
اِنہیں عقل آ گئی ہے اور یہ اپنے کئے پر پشیمان ہیں۔ لیکن میں نے اُس لالچی
خاندان میں شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ لڑکے والے شہر کے
چند شرفاء کی سفارش بھی لے آئے جس پر میرے والدین نے مجھے ایک بار پھر بہت
سمجھانے کی کوشش کی لیکن میرا کہنا صرف یہ تھا کہ:۔
۔"آج تو یہ لوگ اپنی بدنامی کے خُوف سے مجھے جہیز کے بغیر ہی اپنانے کو
تیار ہو گئے ہیں لیکن اِن کی لالچی فطرت کو کبھی نہیں بدل سکتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔!!!"۔
۔"تو کیا باجی آپ نے اُس لڑکے سے شادی نہ کی؟" نازو جو اتنی دیر سے بت بنی
یہ ساری کہانی سن رہی تھی، کنیز فاطمہ کے سانس لینے پر اچانک بول پڑی۔
۔"ہاں میں نے اُس رشتے کو ٹھکرا دیا۔ مجھے اپنے اُس فیصلے پر فخر تو تھا ہی
لیکن آج احساس ہوا ہے کہ میرا وہ فیصلہ کس قدر درست تھا"۔
۔"وہ کیسے باجی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔ نازو نے قدرے حیرت سے دریافت کیا۔
۔"سنو نازو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، ہرانسان کو اپنی زںدگی کے چاک کو خُود ہی سینا
پڑتا ہے اور تمھیں بھی اپنی زندگی کے چاک چاک دامن کو خُود ہی سینا ہوگا۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ جانتی ہو نازو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! اگر میں اپنے چاکِ زندگی کی ازخُود
رفُوگر نہ بنتی اور اپنے والدین اور لوگوں کے کہنے پر اُس لالچی انسان سے
شادی کر لیتی تو آج اِس ہسپتال کے برنز وارڈ کے جس بیڈ پر تم لیٹی ہو، میں
لیٹی ہوتی"۔
۔"مگر باجی وہ کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔ اب کی بار نازو کی آواز میں زمانے
بھر کی حیرت تھی۔
۔"وہ اِس لیے کہ تمھارا شوہر عاصم ہی میرا منگیتر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
!!!"۔
کنیز فاطمہ کی بات سُن کر نازو کے چہرے پر ویرانی سی چھا گئی۔ اُس کی
کٹوروں سی وحشست ذدہ آنکھیں لحضہ بھر کو پھیلیں اور پھر وہ نین کٹورے موٹے
موٹے آنسوؤں سے جل تھل ہو گئے۔ ضبط کا دامن چاک ہوا اور نین دریا پر بندھے
سارے بند ٹوٹ گئے۔ |