میں تقریبا تیس منٹ تک سڑک کنارے
سٹاپ پر دیگر لوگوں کیساتھ کھڑا گاڑی آنے کا انتظار کررہا تھا دن کے اوقات
میں گاڑی تو آسانی سے مل جاتی ہیں لیکن رات کے وقت دس بجے کے بعد گاڑیاں
بہت کم ہی چلتی ہیں اسی وجہ سے پشاور جیسے شہر میں لوگ سٹاپوں پر انتظار
کرتے رہتے ہیں اور جن کے جیب میں پیسے ہوں تو وہ رکشہ یا ٹیکسی میں بیٹھ کر
اپنی منزل کو روانہ ہو جاتے ہیں تقریبا پینتالیس منٹ بعد ایک گاڑی آکر رکی
اس سے کنڈیکٹر اترا اور پشاور صدر تک آواز لگائی ساتھ میں گاڑی میں بیٹھنے
والوں کو کہہ دیا کہ کرایہ پندرہ روپے ہوگا حالانکہ کرایہ دس روپے تھا میں
بھی سنی ان سنی کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا گاڑی روانہ ہوگئی اور کنڈیکٹر
نے کرایہ مانگا میں نے جیب سے سو روپے نکال کردئیے اس نے بقایا 80 روپے
مجھے دئیے میں نے اس سے پوچھا بھائی میرے دس روپے اور بھی دو کیونکہ
ہشتنگری سے صدر تک کرایہ دس روپے ہے کنڈیکٹر نے جواب دیا کہ صاحب میںپانچ
روپے واپس کردیتا ہوں میں نے اسے کہا کہ دس روپے واپس دو اس نے جواب دیا کہ
میں نے گاڑی میں بیٹھنے والے تمام مسافروں کو کہا تھا کہ کرایہ پندرہ روپے
ہے میں نے اس سے پوچھا کیوں یہ تمھارا فیصلہ ہے اگر کرایہ نامہ ہے اور اس
پر پندرہ لکھا ہے تو مجھ سے بیس روپے لو لیکن اگر کرایہ نامہ نہیں تو پھر
مجھے دس روپے واپس کردو کنڈیکٹر نے جواب دیا کہ بھائی میرے یہ گاڑی میری ہے
اور آپ اپنے پیسے واپس لیکر اتر جائیں میں نے اسے جوابا کہا کہ گاڑی اگر
تمھاری ذاتی ہے تو پھر مسافر وں کو کیوں اٹھا رہے ہوں اور سڑک جس پر تمھاری
گاڑی چل رہی ہیں یہ میرے جیسے لوگوں کی ٹیکسوں کی کمائی لگی ہے اگر خان
ہونگے تو اپنے لئے مجھے تم اتار بھی نہیں سکتے کرایہ مجھے پورا لو اور مجھے
اپنے سٹاپ پر پہنچائو گے اس پر کنڈیکٹرکو غصہ آیا لیکن مجھے کہنے لگا کہ
خاموش ہو جائو تم سے دس روپے لیتا ہوں لیکن دوسرے مسافروں کے سامنے بحث مت
کرو کیونکہ پھر یہ بھی نہیں دینگے میں نے اسے کہا کہ غلط بات مت کرو مجھے
اپنے پیسے واپس کرو اس نے بادل نخواستہ مجھے دس روپے واپس کردئیے اسی دوران
گاڑی میں مسافر بیٹھے ہوئے تھے لیکن سب نے میرے بعد اسے پندرہ روپے دئیے
اور وہ کنڈیکٹر مسافروں پر یہ احسان کرتا رہا کہ اس وقت گاڑی نہیں تھی اگر
میں نے آتا تو آپ لوگ کھڑے رہتے اس لئے میرا احسان مانو کہ میں پندرہ روپے
میں تمھیں پہنچا رہا ہوں یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ ہمارے آگے پیچھے چھوٹے بڑے کس طرح دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ
اٹھاتے ہیں اور ہم بے حس لوگوں کی طرح خاموش بیٹھے انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں
کہ اگر میں نے کچھ کہہ دیا تو شائد مجھے کوئی نقصان ہو جائے ہم لوگ آواز
نہیں اٹھاتے نہ ہی اپنا احتجاج ریکارڈ کرتے ہیں حالانکہ ہمیں پتہ ہوتا ہے
کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہیں لیکن صرف اپنی بے عزتی چھوٹے سے نقصان ڈر
اور خوف کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کا فائدہ ان
کنڈیکٹر جیسے بے حس بے غیرت لوگ اٹھاتے ہیں اور شریف لوگ کڑھتے ہی رہتے ہیں
کہ شائد ہماری آواز سے کچھ نہ ہو اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے-
اب اسی چیز کو آپ بڑے کینوس پر دیکھ لیں کیا یہ ملک کل کے چور وں اور آج کے
ڈاکوئوں کیلئے بنا ہے جو جمہوریت کی راگ الاپ رہے ہیں ملک میں جمہوریت کی
مضبوطی جیسے نعرے بلند کرکے اس قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں ایک دوسرے کو
باری آنے پر حکومت دینے والے میڈیا اور اپنے چند خوشامدی صحافیوں کو
استعمال کرکے پوری قوم کا استحصال کررہے ہیں لیکن اس ملک سے کوئی آواز ہی
نہیں اٹھ رہی ہر شخص یہی سوچ کر خاموش بیٹھ جاتا ہے کہ میرے آواز بلند کرنے
سے کچھ نہیں ہوگا کیا یہ ملک مخصوص خاندانوں اور ان کے بچوں کیلئے کھیلنے
کا میدان ہے کہ جب ان کا دل چاہا سیاست کے میدان میں آئے ایک دوسرے کے خلاف
آواز بلند کی اور ہم جیسے بے وقوف صحافی ان کی آواز بن گئے اور پوری قوم کو
چور اور ڈاکوئوں کے پیچھے لگا دیا اور آوے اور جاوے کے نعرے لگنے شروع
ہوگئے-آوے جاوے کی سیاست کرنے والے اور بھاری مینڈیٹ لیکر آنیوالوں کا یہ
حال ہے کہ دو ماہ میں بجلی کی قیمتیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دی ہیں کل تک
عزت غیرت کے دکانداری کرنے والے آج قرضے مانگ کر اس قوم کو بیڑہ غرق کرنے
پر تلے ہوئے ہیں سابق حکمرانوں کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا کر اب حالات
بہتر کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں اب کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پانچ سال تک تو
آپ ہی ان کے اپوزیشن لیڈر بنے ہوئے تھے اور انکو سپورٹ کررہے تھے خوشامدی
چمچوں اور مخصوص صحافیوں کی مدد سے اپنا کام نکالنے والے یہ لیڈر قوم کو
بتانا پسند کرینگے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی بیرون ملک دورہ ہوتا ہے
اپنے خاندان کے بچوں کو سرکاری خرچ پر دورے کیوں کرواتے ہیں کیا عوام کا
ٹیکس ان کی اور ان کے خاندان کی عیاشیوں کیلئے ہے کہ جب چاہا بیرون ملک
دورے پر نکل گئے اور بعد میں ایجنڈا طے کردیاکہ ہم نے یہ کرنا اور یہ کردیا
-
سرکار کے کھاتے میں امریکہ یاترا کرنے والے حکمرانوں سے کوئی یہ پوچھے کہ
ڈو مور کا مطالبہ کرنے والے امریکی کیسے آپ کی مرضی کے بغیر ڈرون حملے
کررہے ہیں اس سے قبل بھی یہی ڈرامہ جاری تھا اور یہ ڈرامہ اب بھی جاری ہے
ہاں کل اگر آپ چوروں کیساتھ ملے ہوئے تھے تووہ چور آج ڈاکوئوں کاساتھ د ے
رہے ہیں خارجہ اور دفاع کے وزارت رکھنے والے حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ
انہیں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ائیرپورٹ پر ریسیو کیا کوئی اعلی عہدیدار
انہیں ریسیو کرنے ہی نہیں یا نہ ہی سٹیٹ گیسٹ کے طور پر انہیں بلایا گیا
تھا اسی وجہ سے ہوٹل میں رہائش اختیار کی جس کی ادائیگی بھی پاکستان کے
بھوکے ننگے عوام ہی کرینگے انہی کیساتھ مشیر کے طور پر کام کرنے والے ایک
صاحب نے کچھ دن قبل بیان دیا تھا کہ امریکہ بہادرپاکستانی حکمرانوں سے
افغانستان سے نکلنے کے بعد تعاون سمیت غداری کے الزام میں گرفتار ہونیوالے
ڈاکٹر شکیل کی رہائی چاہتے ہیں جس کا مطالبہ بھی کیا گیا لیکن یہ بات چھپا
لی گئی اور صحافیوں کے سوال کرنے پر اس پر گول مول جواب دیدیا گیاپہلے سب
کچھ غلط تھا اور اب ٹھیک کرنے جارہے کے نام پر کونسل آف یورپ کنونشن کے
معاہدے کرنے والے حکمران کیا یہ بتانا پسند کرینگے کہ کیا یہ غداروں کو
نکالنے کیلئے راستہ فراہم کرنا نہیں ہے-باتیں تو بہت ساری ہیں لیکن کیا یہ
آواز بلند کرنا صرف صحافیوں کا کام ہے کیا اس ملک کے عوام شعور نہیں رکھتے
جو آئی ایم ایف کے غلام حکمرانوں سے یہ سوال کرے کہ آخر انہیں کس چیز کی
سزا دی جارہی ہیں اور یہ حکمران کب تک عوام کیساتھ جھوٹ بولتے رہیں گے - سو
موجودہ حالات میںیہ اس ملک کے ہر شہری کا فرض ہے کہ اپنی آواز بلند کریں
سوال کریں کب تک خاموش رہینگے صرف اس طرح کے پیغامات موبائل فون پر ایک
دوسرے کو بھیجنے سے سے کچھ نہیں چلے گا کہ شیر کتے سے زیادہ کھاتا ہے - |