جہاں تک ساس اور بہو کے جھگڑوں کا تعلق ہے اس کی بنیادی
وجہ کم علمی اور دین سے دوری ہے، عورتیں مل بیٹھتی ہیں، تھوڑی سی بات پر
جلد نتیجے نکال لیتی ہیں اور اس میں غلطی کرجاتی ہیں، غلط فہمیوں کی وجہ سے
آپس میں لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں، ان غلط فہمیوں کو دور کرنا خاوند کی ذمہ
داری ہے، خاوند ایک آنکھ سے ماں کا عمل دیکھے دوسری آنکھ سے بیوی کا عمل
دیکھے، ایک کان سے ماں کی بات سنے، دوسرے کان سے بیوی کی بات سنے، اللہ
تعالیٰ نے دونوں آنکھوں اور دونوں کانوں کے درمیان دماغ رکھا ہے۔ اب وہ
اپنے دماغ سے سوچ کر فیصلہ کرے کہ اعتدال کا راہ کونسا ہے جب خاوند یہ ذمہ
داری سنبھال لے گا وہ دونوں کو الجھنے کا موقع نہ دے گا۔ غیر جانبدار ہوکر
فیصلہ کرے گا تو گھر کا ماحول خوشگوار ہوجائیگا۔
بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو ماں کا درجہ دے اور ساس اپنی بہو کو اپنی بیٹی
سمجھے اگر کوئی ماں اپنی بیٹی کو گھر میں تھپڑ بھی لگادے تو بیٹی خاموش
ہوجاتی ہے اور اگر ساس اصلاح کی بات کرے تو بہو اس کے اوپر تڑک کر بولتی
ہے۔ یہ ناانصافی بہو کی طرف سے ہے اگر وہ ماں کا تھپڑ برداشت کرسکتی ہے تو
ساس کی تنقید کو دل میں جگہ دینے کی بجائے برداشت کرے۔ بعض عورتیں ساس بن
کر اجارہ داری کی حیثیت سنبھال لیتی ہیں اور اپنا حکم چلانا چاہتی ہیں۔
بیٹے کی شادی ہوئی تو بہو کی جائز ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھتیں ساس کے
ذہن میں این او سی دینے کی بات سما جاتی ہے کہ میرا بیٹا ہر بات کیلئے مجھ
سے اجازت لے گا پھر بیوی سے بات کرے گا۔ یہ چیزیں فساد کی جڑھ بن جاتی ہیں،
کچھ عورتیں جب بہو بننے کے بعد پروموٹ ہوکر ساس بنتی ہیں تو ان کے ہاں
انصاف نہیں رہتا بلکہ اپنی چوہدراہٹ اور من مانی کیلئے اپنا ہر جائز و
ناجائز حکم پورا کرتی ہیں اور بہو سے کہتی ہیں کہ دیکھو تم میرے سامنے کتنی
محتاج ہو۔
کچھ عورتوں کو یہ گلہ رہتا ہے کہ جب میں بہو تھی، ساس اچھی نہ ملی اور اب
ساس بنی ہوں تو مجھے بہو اچھی نہ ملی۔ ساس کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ بیٹی
کوئی گناہ کبیرہ میں مبتلا ہوگئی تو اپنی بیٹی کا عیب چھپاتی پھرتی ہے لیکن
خدانخواستہ بہو سے کوئی کھانے پکانے کی معمولی غلطی ہوگئی تو یہ ساس دوسروں
کو بتلاتی پھرے گی۔ یہ کتنی ناانصافی کی بات ہے جس دن ساس، اپنی بہو کو
بیٹی سمجھنے لگ جائے گی اور بہو اپنی ساس کو ماں کا مقام دے گی تو گھر کی
زندگی پرسکون ہوجائے گی۔ ماں اور بیٹی کے درمیان تو نفرتیں نہیں محبتیں جنم
لیتی ہیں۔
ایک بزرگ نے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر بیوی کو طلاق دیدی۔ کسی نے وجہ
پوچھی تو خاموشی اختیار کی۔ بس اتنا فرمایا کہ جب تک وہ میری بیوی تھی میں
نے کبھی اس کی غیبت نہیں کی تھی اور اب تو وہ اجنبی ہوگئی میں اس کی غیبت
کیسے کرسکتا ہوں۔
نیک بیوی کی چند نشانیاں ہیں
خاوند اس کی طرف دیکھے تو اس کا دل خوش ہوجائے خاوند کسی بات پر قسم اٹھالے
کہ تم ایسا کرو تو وہ اس کی قسم پوری کرے۔ خاوند کا حکم مانے اور ضد نہ
کرے۔ خاوند گھر میںنہ ہو تو اس کے مال اور آبرو کی حفاظت کرے، ہر وقت
دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھنا اور ان کی اچھائیاں نظر انداز کردینا بُری
عادت ہے۔ کچھ لوگ دوسروں کی اچھائیوں پر نظر رکھتے ہیں، برائیوں کو
نظرانداز کردیتے ہیں، خاوند، ساس، سسر، بیوی ہر ایک کو مثبت سوچ اپنانی
چاہیے۔
ہر بیوی کی تین بنیادی ضرورتیں پوری کرنا شوہر کا فرض ہے۔ تحفظ، خاوند کی
توجہ، حوصلہ افزائی۔ اگر ان میں سے کسی ایک پہلو میں کمی رہ گئی تو گھر
اجڑنے کا خطرہ ہے۔ بعض اوقات خاوند کچھ ایسی غلطیاں کر بیٹھتا ہے کہ گھر
میں لڑائی جھگڑے کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔ بیوی کو
نظرانداز کردینا، بات بات پر طلاق کی دھمکی دینا، دوسری شادی کی دھمکی
دینا، دوسروں کے سامنے بیوی کی بے عزتی کرنا، بیوی کو وقت نہ دینا، بیوی پر
پابندیاں لگانا اور اپنے لیے آزادی، ہر بات پر نکتہ چینی کرنا، بیوی پر
الزام لگانا، بیوی کے رشتہ داروں سے بدسلوکی کرنا۔
خاوند کیلئے ضروری ہے کہ درج ذیل اصولوں پر عمل کرے تو گھر کا ماحول
خوشگوار ہوجائے گا۔ گھر میں مسکراتے چہرے سے داخل ہو یہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی سنت مبارک ہے۔
بیوی کے اچھے کاموں کی تعریف کرے، بیوی کے کاموں میں دلچسپی لے، دفتاً
فوقتاً بیوی کو ہدیہ اور تحفہ دے، زوجین دل جوئی اور دل لگی کی باتیں کریں،
گھر میں شریعت کی پابندی کرائی جائے، بالخصوص بے پردگی کی نحوست سے بچیں،
زوجین ایک وقت میں غصہ نہ کریں (ایک غصے میں آئے تو دوسرا برداشت کرے) آپس
میں ناراضگی کی حالت میں نہ سوئیں۔
ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور پرسکون بنانے کیلئے بیوی کو بھی چند باتوں کا
خیال رکھنا چاہیے مثلاً وہ اپنے خاوند کا اعتماد حاصل کرے خاوند کو محبت سے
تسخیر کرے، لگائی، بجھائی اور سنی سنائی باتوں سے پرہیز کرے۔ بچوں کی تربیت
کا خاص خیال رکھے۔ خاوند کے قرابت داروں سے اچھا سلوک کرے، رشتہ داروں کے
ہاں صلہ رحمی کی نیت سے جائے، خاوند کو پریشانی کے وقت تسلی دے، شوہر کو
صدقہ خیرات کی ترغیب دے، کھانے کو ذکر سے پکائے، کام کو وقت پر سمیٹنے کی
عادت ڈالے، گھر کو صاف ستھرا رکھے، فون پر مختصر بات کرنے کی عادت ڈالے،
ضرورت کی چیزوں کو سنبھال کررکھے، خاوند کو دعائوں کیساتھ رخصت کرے، خاوند
کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی تردد نہ کرے، اپنے دل کا غم فقط اللہ سے بیان
کرے جہاں خالق کی نافرمانی ہو وہاں مخلوق کی اطاعت نہ کرے۔ شوہر کا دل
جیتنے کیلئے بیوی کیلئے ضروری ہے کہ وہ خاوند سے عزت کے صیغے میں بات کرے،
عورت اپنے اندر صبروتحمل پیدا کرے، اپنی غلطی مان لینے میں عظمت سمجھے اور
خاموشی میں عافیت۔ کفایت شعاری اختیار کرے ہر حال میں شوہر کا ساتھ دے۔ بات
کا بتنگڑ نہ بنائے، خاوند کی ناشکری نہ کرے، شوہر کی بے رخی کا علاج خود
کرے، خاوند کے الوداع اور استقبال کے انداز کو قیمتی بنائے۔
اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کیلئے مرد کیلئے ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے ہر عمل کی اتباع کرے جبکہ عورتوں کو یہ رتبہ غیر سے نظریں ہٹانے،
خاوند پر نظریں جمانے اور پیار محبت سے اس کا دل لبھانے سے حاصل ہوتاہے۔ یہ
بھی یاد رکھیں کہ قیامت کے دن ایک بے عمل عورت چار محرم مردوں کو جہنم میں
لے جائے گی خاوند کو۔ بھائی کو۔ والد کو اور بیٹے کو وہ کہے گی کہ یااللہ!
وہ خود تو نیک بنے لیکن مجھے نیکی کرنے کیلئے کبھی دبائو نہ ڈالا۔
بشکریہ عبقری میگزین |