گزشتہ سے پیوستہ
ہمارے یہاں عدل کا تو تصور ہی نہیں کہ راہبر ہی رہزن ہیں ، اور احسان کی
صورت کچھ یوں ہے کہ پہلے کسی کے آگے سے سارا کھانا اٹھا لیا پھر جب وہ بھوک
سے بلبلانے لگا تو ایک نوالہ دے کر کہا اس کو احسان سمجھو، رہی معیشت تو
معیشت کی زبوں حالی سے کون واقف نہیں، اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ جو لوگ
ہمارے قوانین کی نگہداشت کرتے ہیں انہیں ہم زمین کی حکومت عطا کرتے ہیں اور
جو لوگ ہمارے قوانین سے انکار کرتے ہیں انہیں ہم بھوک اور خوف کا عذاب دیتے
ہیں ۔
تو کیا آج ہم مسلمان قرآن سے دوری کے باعث اللہ کے عذاب میں مبتلا نہیں ہیں
، ہماری عدالتیں کیا احسان کے ساتھ عدل کر رہی ہیں آیئے غور کرتے ہیں کہ
خدا نے عدل کو احسان کے ساتھ کرنے کا حکم کیوں دیا اس کو ایک مثال سے
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
عدل و احسان
ایک شخص کسی دوسرے شخص سے ایک مدت معینہ کے لئے کچھ رقم ادھار لیتا ہے، اور
پھر وقت آنے پر پہلا شخص دوسرے سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے
دوسرا شخص اس سے مزید وقت مانگتا ہے پہلا شخص اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے
قرآن کے اصول کے مطابق اسے اس کے خوشحال ہونے تک کا وقت دے دیتا ہے، پھر
کچھ عرصہ کے بعد دوسرا شخص خوشحال ہو جاتا ہے پہلا شخص پھر اس سے اپنی رقم
کا مطالبہ کرتا ہے ، دوسرا شخص پھر کوئی عذر پیش کر کے وقت مانگتا ہے پہلا
شخص پھر اسے وقت دے دیتا ہےجب وہ وقت بھی گزر جاتا ہے تو پھر پہلا شخص اپنی
رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو دوسرا شخص پھر عذر پیش کرتا ہے جو کہ سراسر
بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے، اب پہلا شخص عدالت سے رجوع کرتا ہےاب عدالت دوسرے
شخص کو نوٹس بھیجتی ہے وہ حاضر نہیں ہوتا حتی کہ عدالت کی دو تین دفعہ طلبی
پر بھی وہ شخص حاضر نہیں ہوتا اگلی دفعہ عدالت اسے سختی کا نوٹس بھیجتی ہے
پھر وہ شخص اپنا وکیل بھیجتا ہے قصہ مختصر یہ کیس عدالت میں چھ ماہ تک چلتا
ہے دوسرے شخص کی بدنیتی ثابت ہو جاتی ہے عدالت اس کے خلاف فیصلہ دیتی ہےوہ
شخص دوسری بڑی عدالت سے اپنی ضمانت کرواتا ہے اب کوئی سال بھر یہ کیس بڑی
عدالت میں چلتا ہے فیصلہ پھر اس کے خلاف اب وہ کچھ رقم عدالت کے روبرو پہلے
شخص کو واپس دیتا ہے اور باقی رقم کے لئے پھر عدالت اسے وقت دے دیتی ہے اور
پھر وہی پراسس دو سال تک چلتا ہے عدالت پھر اس کے خلاف فیصلہ دیتی ہے لیکن
اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اور پہلا شخص تھک ہار کر خاموش ہو جاتا ہے اس
سارے عرصے میں اس کا وقت اور پیسہ دونوں برباد ہوتے ہیں ، حتی کہ وہ پہلا
شخص کنگال ہو جاتا ہے اب وہ پہلا شخص سوچتا ہے کہ یا تو خودکشی کر لے یا اس
شخص کو ختم کر دے جس نے اسے اس حال تک پہنچایا تو اس نے ایسا کیوں سوچا؟
کیونکہ عدالت نے دیر سے ہی سہی عدل تو کر دیا لیکن اس عدل سے مظلوم کی
بجائے ظالم کو فائدہ ہوا۔
جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جب پہلی عدالت میں دوسرے شخص کی بد نیتی ظاہر ہو
گئی تھی تو عدالت اس شخص کی فوری گرفتاری کا حکم دیتی اور پہلے شخص کو اس
کا حق دلواتی، یا عدالت فوری طور پر حکم دیتی کہ پہلے شخص کو خزانے سے اس
کی مطلوبہ رقم بمعہ اخراجات کے ادا کر دی جائے اور دوسرے شخص کو جیل بھیج
دیا جائے جہاں اس سے مشقت لے کر تمام رقم بمعہ تاوان کے وصول کی جائےتاکہ
آئیندہ کوئی بھی شخص کسی سے بددیانتی کا نہ سوچے یہ ہوتا ہے عدل احسان کے
ساتھ
جاری ہے |