اب سنجیدہ ہونا پڑے گا

 مادیت پرستی اتنی چھا چکی ہے ہمارے معاشرے میں کہ اب ہمارا زیادہ تر نوجوان تیں خواہشات دل میں رکھتے ہیں۔ ۱۔ بے تحاشہ پیسہ، ۲۔ بہت زیادہ شہرت، ۳۔ دنیا اس کی مرضی سے چلے اس کی سوچ پہ چلے اور اس کی جائز نا جائز خواہشات پوری ہوں۔

اس کے علاوہ بھی خواہشات ہوتی ہیں ہمارے دلوں میں مثلاً دین کی سر بلندی ، ملک و قوم کی خدمت لیکن وہ اتنی شدید کم ہی لوگوں میں ہوتی ہیں کہ ان کو پورا کرنے کے لیے باقی خواہشات کو مار دیا جائے۔

اب بہت سے لوگوں کے ذہن میں فوراً یہاں پہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بے شمار نوجوان ہیں جو صرف ملک و ملت کی اور مذہب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور یہی ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ مگر جو بات سوچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے نوجوان اور لوگ اکثر وہ ہیں جن کی کوئی اپنے لحاظ سے تربیت کرتا ہے۔ ملک سے محبت تو خوش قسمتی سے ہمارے نوجوانوں میں بڑھ رہی ہے لیکن مذہب کے قریب جو لوگ آ رہے ہیں انہیں بدقسمتی سے اکثر لوگ اپنے یا اغیار کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ان کی اس قدر برین واشنگ ہو چکی ہے کہ وہ آپ کی کتنی بھی سہی بات ہو اس کو رد کر دیں گے چاہے اس کے لیے کتنا ہی بڑا ثبوت ہو آپ کے پاس۔

بد قسمتی سے پچھلے ایک مہینے میں دو لوگ مجھ پہ بالکل ایک دوسرے کے بر عکس فتویٰ جاری کر کے کافر اور خارجی قرار دے چکے ہیں۔ ایک صاحب ہمارے ٹی وی پہ اکثر نظر آنے والے انڈیا اور امریکہ کے خلاف بولنے والے ماڈرن مولوی نما صاحب ہیں۔ ان کے سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ میں بہت انتہا پسند ہوں اور خارجی ہوں جبکہ ایک مشہور ہر حکومت میں شامل مولوی صاحب کے سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ مجھے خدا اور رسول کا کوئی پتہ نہیں۔میں کافر ہوں۔

اب اس کا حل یہی کہ ہم لوگوں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ ہم لوگ جو اپنی ذات سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہ رہے ہمیں اپنی خواہشات کو تھوڑا سا دبا کے حقیقت کا ادراک کر کے اپنی شناخت الگ کرنی ہو گی۔ ہم جو دوسرے لوگوں اور دوسری قوموں کی نقالی میں مصروف ہیں ہمیں یہ سیکھنا اور اپنی نسل کو سکھانا پڑے گا کہ ان کی صرف اچھی چیزوں کی نقالی کرنا ہی کافی ہے۔ ہماری اپنی اقدار اپنا مذہب اپنے قوانین اتنے اچھے ہیں کہ دوسری قوموں کو ہماری نقالی کرنی چاہیے۔ ہمیں خود تو پاکستان پہ فخر کا دعویٰ ہے ہی مگر اب ہمیں خود کو بھی ایسا بنانے کی ضرورت ہے ک ملک و ملت و مذہب کو بھی ہم پہ فخر ہو۔ خدارا مثبت مکالمے کو فروغ دیں۔ آیئں ہم سب مل کے اپنے تصیح کریں۔ کسی سے بات کرتے وقت یہ بات نہ سوچیں کہ ہم بالکل سہی ہیں۔ دوسرے کی بات سنیں، ہر لحاظ سے پرکھیں اور پھر سب پہلوؤ پہ سوچنے کے بعد غلط یا سہی کہیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ وسلام

Tauseef Ahmad
About the Author: Tauseef Ahmad Read More Articles by Tauseef Ahmad: 10 Articles with 7336 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.