بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
ہمارا وطن سے اور وطن کا ہم سے وہی تعلق ہے جو گُل کا گُلستاں سے اور
گُلستاں کا گُل سے ہے۔اگر گُل سے خالی گُلستان جنگل جھاڑی کے مترادف ہے تو
بغیر گُلستان کے گُلوں کو بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایک کو دوسرے سے عزّت
اور رونق حاصل ہے۔اسی طرح ہم اور ہمارا وطنِ عزیز لازم و ملزوم ہیں۔ہم ہیں
تو وطن سے اور وطن ہے تو ہمارا وجود با قی ہے۔
آزادی کے وقت جو مُلک علم سے تشنہ تھا آج وہاں پر علم کے سمندر نظر آرہے
ہیں۔ تعلیم گاوں گاوں اور گھر گھر تک پہنچ گئی ہے ۔تعلیم کا حق Right To
Education Billکو بھی منظوری مل گئی ہے جس کے تحت پڑھنا لکھنا ہر بچّے کا
حق ہے اورسرکاری اسکولوں میں تعلیم مُفت دی جارہی ہے اور بچّوں کے اندر
دلچسپی پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کی اسکیموں کو چلایا جارہا ہے جس میں Mid
Day Meal وغیرہ شامل ہیں۔
پتھر کی مورتی کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
ہم ہندی ہیں اورہندوستان ہمارا وطنِ عزیز ہے۔ جس طرح اپنا گھرخواہ کیسا ہی
کیوں نہ ہومگر پیارا ہوتا ہے اُسی طرح اپنا وطن بھی دل وجان سے زیادہ پیارا
ہوتا ہے۔اس کی اچھائیاں ہماری اچھا ئیوں کو بتلاتی ہیں اور اس کی برائیاں
ہماری برائیوں کو۔ ہمارا وطن سے اور وطن کا ہم سے وہی تعلق ہے جو گُل کا
گُلستاں سے اور گُلستاں کا گُل سے ہے۔اگر گُل سے خالی گُلستان جنگل جھاڑی
کے مترادف ہے تو بغیر گُلستان کے گُلوں کو بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایک کو
دوسرے سے عزّت اور رونق حاصل ہے۔اسی طرح ہم اور ہمارا وطنِ عزیز لازم و
ملزوم ہیں۔ہم ہیں تو وطن سے اور وطن ہے تو ہمارا وجود با قی ہے۔
وطنِ عزیز سے محبت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وطن کے لئے ہم پر کچھ
ذمہ داریاں اور کچھ فرائض ہیں۔ افراد کے مجموعے کا نام قوم ہے۔ جس مُلک کے
افراد تہذیب یافتہ اور محنتی ہوتے ہیں اُس مُلک کی قومی طاقت اور معاشی
حالت بے مثال ہوتی ہے۔ قوم کی خوشحالی مُلک کی خوشحالی ہے اور قوم کی پستی
مُلک کی پستی ہے۔اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم
سب سے پہلے اپنے مُلک سے محبت رکھیں اور اچھے شہری بننے کی ہر ممکن کوشش
کریں۔عمر اور طاقت کے اعتبار سے جو بھی فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں انھیں
ایمانداری سے پورا کریں۔امیر و غریب اور ہر مذہب و ملّت کا احترام کریں ان
کے ساتھ مل جُل کر رہیں اُن کے سُکھ دُکھ میں برابر شریک رہیں یہی جذبہ
ہمیں ہمارے مُلک کا وفادار اور اچھا شہری بننے میں مدد کرے گا۔
آزادی ملنے کے بعد ہمارے مُلک کے رہنماوں نے مُلک کی ترقی کے لئے بہت سارے
منصوبے بنائے اور اُن میں کامیابی بھی حاصل کی۔اُسوقت جو مشکلیں تھی اُن
میں خوراک کی قِلّت ، ذرائع آمد و رفت ، نا خواندگی ، صنعت و حرفت اور آباد
کاری اہم تھی۔ان میں سے بہت ساری مشکلوں کو ہمار ے قومی رہنما وں نے بہت
تیزی سے حل کیا۔چونکہ ہمارا مُلک بہت بڑا ہے اس لئے اسکے مسائل بھی بڑے ہیں
جن کی طرف ہماری چُنندہ حکومتوں نے خاص توجہ دی اور موجودہ حکومت بھی اسی
کام کو آگے بڑھا رہی ہے۔بنیادی طور پر ہندوستان ایک زراعتی مُلک ہے اس کی
تین چوتھائی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔زراعتی ترقی کے لئے ہماری حکومت نئی
نئی اسکیموں کو کسانوں تک پہنچاتی ہے اور اُنہیں ہر طرح سے امداد فراہم
کرتی ہے اور اس کا عملی ثبوت بھی ہمیں دکھنے لگا ہے آزادی کے وقت جو مُلک
خوراک کی قِلّت سے دو چار ہو رہا تھا وہ مُلک آج خوراک کے معاملے میں خود
کفیل ہو گیا ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے ہندوستانی پارلیمنٹ میں Food Security
Bill کو لایا گیا جس کے ذریعہ کروڑوں ہندوستانیوں کو فائدہ ملے گا۔اس کے
علاوہ اسکول ، کارخانے ، سڑکیں ، نہریں ، بجلی گھر وغیرہ بہت بڑی تعداد میں
ہر سال بڑھوتری کے ساتھ تیار کئے جارہے ہیں۔ آج ہمارے مُلک میں ہوائی جہاز
، سمندری جہاز اور ریل کے انجن بنائے جارہے ہیں۔ سڑکوں اور ریلوں کا جال
بچھا ہوا ہے۔ بنجر اور ریتیلی زمین سر سبز و شاداب نظر آتی ہیں۔ آزادی کے
وقت جو مُلک علم سے تشنہ تھا آج وہاں پر علم کے سمندر نظر آرہے ہیں۔ تعلیم
گاوں گاوں اور گھر گھر تک پہنچ گئی ہے ۔تعلیم کا حق Right To Education
Billکو بھی منظوری مل گئی ہے جس کے تحت پڑھنا لکھنا ہر بچّے کا حق ہے
اورسرکاری اسکولوں میں تعلیم مُفت دی جارہی ہے اور بچّوں کے اندر دلچسپی
پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کی اسکیموں کو چلایا جارہا ہے جس میں Mid Day
Meal وغیرہ شامل ہیں۔
اقلیت ، اچھوت اور پسماندہ طبقوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لئے کثیر
رقم خرچ کی جارہی ہے۔ اُنہیں ملازمت میں Reservation دیا جاتا ہے تاکہ مُلک
کی ترقی میں اُن کا بھی حصّہ ہو۔ سا ئنس او ر ٹیکنا لوجی کے میدان میں
ہندوستان ترقی یافتہ مما لک کے ہم قدم ہے۔ Indian Space Research
Organisation کے کارناموں کو پوری دُنیا حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی
ہے۔آج دُنیا کا ہر مُلک ہندوستان سے جُڑنا چاہتا ہے۔اس کے علاوہ اگر ہم بین
الاقوامی سطح پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہمارے تعلقات دُنیا کے
دوسرے ممالک کے ساتھ بہتر ہوئے ہیں۔ہندوستان کی امن پسندی اور غیر جانب
دارانہ پالیسی کو دُنیا میں عزّت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ہمارے فوجی
جوان مُلک کی حفاظت کے لئے برفیلے پہاڑوں ، تپتے ہوئے ریگستانوں اور خوفنا
ک جنگلوں میں ہر وقت مستعد ہیں۔بہرِ کیف اتنے ترقیاتی کاموں کے ساتھ اگر
کچھ مسئلے ہیں تو کیا ہوا ہم مایوس نہیں ہیں بلکہ ہم اردو کے
مشہور شاعر فیض احمد فیضؔ کے اُس شعر پر یقین رکھتے ہیں جو اُنہوں نے یوں
کہا تھا۔۔۔
جو تجھ سے عہدوفا اُستوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں |