دل کی چوٹ کسی کو نہ لگے

دل کی چوٹ ہارٹ اٹیک سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے ہارٹ اٹیک شدید ہونے کی صورت میں مرجانے کے بعد انسان کا دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اور بچ جانے کی صورت میں ادویات کی مدد سے تکلیف کو ختم کر دیا جاتا ہے لیکن دل کو غم اور صدمے کی لگنے والی چوٹ کا کوئی حل نہیں ہوتا،بظاہر سامنے نظر آنے والا انسان اگرچہ تندرست ہو گا لیکن دل کی چوٹ سے متاثرہ شخص ہر روز مرتا ہے اور زندہ ہوتا ہے دنیا میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے مگر انسان کی بدقسمتی کے غم کی بیماری کا علاج انسان آج تک دریافت نہیں کر سکا ۔یہی وہ غم ہے جو انسان کو امیر سے فقیر بنا دیتا ہے ذپنی طور پر تندرست انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے خوش لباس انسان بے لباس کر دیتا ہے ایسے انسان بکھرے ہوئے بالوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی غم انسان کو بڑے محل سے اٹھا کر فٹ پاتھ پرلے آتا ہے یہی وہ غم ہے جو انسان کو اگر لگ جائے تو بڑے محلوں میں بھی اس کو کوئی نہیں ملتا یہی وہ غم ہے جو آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان کو سکون کیلئے نیندکی گولیاں کھانے پر مجبور کر دیتا ہے غم زدہ انسان کی کوئی زندگی نہیں ہوتی جس کیلئے یہ زندہ ہوتا ہے اس کے جانے کے بعد عملی طور پریہ بھی مرجاتا کے فرق صرف کھلی ہوئی آنکھ کا ہوتا ہے بظاہر کھلی ہوئیں آنکھیں زندہ انسان کی علامت ہیں عام طور پر انسان کے اندر والے انسان کو ضمیر کہا جاتا ہے ضمیر کے مردہ ہونے کی اصطلا ح اندر کا انسان مرنا ہے لیکن اہل فکر لوگوں کی نظر میں غم ایسی بیماری ہے جو انسانی جسم کو انسانی ڈھانچے میں بدل دیتی ہے انسان کو دنیا کے اندر بہت سارے غموں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور بے شک غم کا مقابلہ کرنے کی طاقت دنیا کی فیکٹریوں کے پاس نہیں یہ طاقت صرف خدا ہی دے سکتا ہے اولاد کا غم والدین کیلئے ساری زندگی کاروگ ہے والدین کے مرنے سے بچوں کو خدا صبر دے دیتا ہے لیکن بچوں کو کچھ ہو جاے تووالدین زندہ ہونے کے باوجود اندرسے مر جاتے ہیں تقریباً05روز قبل چکسواری پنیام کا رہائشی واجد اپنے بچوں اور بیوی کے ہمراہ اپنے ذاتی گاڑی پر کھاڑک سسرال ملنے کیلئے جارہا تھا کھاڑ ک ڈائک پر گاڑی چلتے چلتے بند ہو گئی گاڑی چونکہ چڑائی پر بند ہوئی تو بدقسمت والد نے سوچاکہ گاڑی کو ریورس اسٹارٹ کر لیا جائے ۔کیا تھا جب گاڑی ریورس ہوئی تو گاڑی پر قابو نہ رہا اور گاڑی بدقسمت والد اس کے دو معصوم بچوں اور بیوی سمیت ڈیم میں جا گری تاہم قریب کھڑے نوجوانوں کی بروقت مدد سے گاڑی کو باہر نکال لیاگیا اور والدین کو سلامت نکال لیا گیا اتنے میں ماں کی مامتا بے ساختہ ہو کر بولی میرے دو بچے ،میرے دو بچے ۔۔۔۔ مدد کرنے والوں نے بچوں کی بھی تلاش کرناشروع کر دی اس وقت ماں کی ماتا، اور والد کا خالص پیار بے قابو ہو کر ماتم کرنے لگا جب ان کی اپنے دو معصوم پانچ سالہ بچوں جو کہ جوڑواں تھے زندہ ملنے کی بجائے ان کی نعشیں ملی ، معصوم پھولوں کی لاشیں۔۔۔۔۔ ان معصو موں اور ننے ننے پھولوں کا اچانک مرنا والدین کیلئے قیامت تھی ڈیم کی گہرائی سے بھی زیادہ گہری چوٹ والدین کو لگ گئی۔۔۔۔۔۔ ان کے آنکھوں سے نکلنے والے بے ساختہ آنسو وں میں موجود غم ڈیم میں موجود پانی سے زیادہ تھا بے بسی کی حالت میں اپنے ہاتھوں سے والدین اپنے بچوں کی لاشیں لیکر گھر چلے گئے والد ہ تو بار بار اپنے بچوں کے چہروں ،ان کی شرارتوں، ان کی مسکراہٹوں کو یاد کرتی ہو گی اس وقت اس کے دل کی کیفیت کیا ہو گی والدہ سے بہتر کون جانتا ہے ماں کی مامتا جو اپنے بچے کی زندگی پر ہرچیز ٹھکرا دیتی ہے پرواہ نہیں کرتی،مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہو گئی دن میں کئی مرتبہ آنسو نکلتے ہونگے اور والد کے کانوں میں وہ آواز جب وہ گھر آتا تھا" ابو جی آگئے" سننے کیلئے تڑپ رہا ہو گا میں خود اس صدمے کو سمجھتا ہوں کیونکہ مری صالح بھی جو صرف پانچ سال کی تھی میرے ہاتھوں میں جان دیکر ہمیشہ کیلئے چلی گئی ہے میری بے بسی کہ میں اس کو بچا نہیں سکا۔۔۔۔۔۔۔
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 34323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.