(۳)ادبِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم (اسوۂ صحابہ کا درخشاں باب)۔

گزشتہ سے پیوستہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دن صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے حلقہ میں رونق افروز تھے کسی ضرورت سے اٹھے تو پلٹنے میں دیر ہوگئی صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم گھبرا گئے کہ خدانخواستہ دشمنوں کی طرف سے کوئی چشم زخم تو نہیں پہنچا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ اسی پریشانی کی حالت میں گھبراکر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی جستجو میں انصار کے ایک باغ میں پہنچے۔ دروازہ ڈھونڈا، تو نہیں ملا، دیوار میں پانی کی ایک نالی نظر آئی اس میں گھس کرآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچے اور صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی پریشانیوں کی داستان سنائی۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب دلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا، الحدیث:۳۱،ص۳۷)

غزوات میں یہ خطرات اور بھی بڑھتے جاتے تھے، اس لئے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی جاں نثاری میں اور بھی ترقی ہوتی جاتی تھی۔

غزوہ ذات الرقاع میں ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے ایک مشرک کی بیوی کو گرفتار کیا۔ اس نے انتقام لینے کے لئے قسم کھالی کہ جب تک اصحاب محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں سے کسی صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خون سے زمین کو رنگین نہ کرلوں گا، چین نہ لوں گا، اس لئے جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم واپس ہوئے، اس نے تعاقب کیا ۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منزل پرفروکش ہوئے تو دریافت فرمایا کہ کون میری حراست کی ذمہ داری اپنے سر لے گا۔ مہاجرین وانصار دونوں میں سے ایک ایک بہادر اس شرف کو حاصل کرنے کے لئے اٹھے ، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا کہ گھاٹی کے دہانے پر جاکر متمکن ہوجائیں ( کہ وہی کفار کی کمین گاہ ہوسکتا تھا) دونوں بزرگ وہاں پہنچے تو مہاجر بزرگ سوگئے اور انصاری نے نماز پڑھنا شروع کی مشرک آیا ، اور فوراً تاڑ گیا کہ یہ محافظ اور نگہبان ہیں، تین تیر مارے اور تینوں کے تینوں ان کے جسم میں ترازو ہوگئے۔
(سنن ابی داود، کتاب الطہارۃ ، باب الوضوء من الدم، الحدیث:۱۹۸،ج۱، ص۹۹)

لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم غزوہ حنین کے لئے نکلے تو ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شام کے وقت خبر دی کہ میں نے آگے جاکر پہاڑ کے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ ہوازن کے زن و مرد چو پایوں اور مویشیوں کو لیکر امنڈ آئے ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم مسکرائے ، اور فرمایا:کہ اﷲ عزوجل نے چاہا توکل یہ مسلمانوں کے لیے غنیمت ہوگا، اور فرمایا : آج میری پاسبانی کون کرے گا؟ حضرت انس بن ابی مرثد غنوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، میں! یارسول اﷲ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم، ارشادہوا کہ سوار ہوجاؤ، وہ اپنے گھوڑے پر سوارہوکر آئے تو فرمایا کہ اس گھاٹی کے اوپر چڑھ جاؤ۔

آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمنماز فجر کے لئے اٹھے، تو صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ تمہیں اپنے شہ سوار کی بھی خبر ہے۔ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کی ہمیں تو کچھ خبر نہیں، جماعت قائم ہوئی، تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز پڑھاتے جاتے تھے اور مڑ مڑ کے گھاٹی کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔ نماز ادا کرچکے تو فرمایا : لو مبارک ہو تمہارا شہ سوار آگیا ۔ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے گھاٹی کے درختوں کے درمیان سے دیکھا تو وہ آ پہنچے اور خدمت مبارک میں حاضر ہوکر سلام کیا اور فرمایا کہ میں گھاٹی کے بلند ترین حصے پر جہاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے مامور فرمایا تھا،چڑھ گیا صبح کو دونوں گھاٹیاں بھی دیکھیں تو ایک جاندار بھی نظر نہ آیا ۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کبھی نیچے بھی اترے تھے، بولے صرف نماز اور قضائے حاجت کے لئے ،ارشاد ہوا: تم کو جنت مل چکی، اس کے بعد اگر کوئی عمل نہ کرو تو کوئی حرج نہیں۔
(سنن ابی داود،کتاب الجھاد،باب فی فضل الحرس فی سبیل اﷲ عزوجل، الحدیث:۲۵۰۱،ج۳،ص۱۴)

ایک غزوہ میں صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ایک ٹیلے پر قیام فرمایا۔ اس شدت سے سردی پڑی کہ بعض لوگوں نے زمین میں گڑھا کھودا اور اس کے اندر گھس کر اوپر سے ڈھال ڈال دی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ حالت دیکھی تو فرمایا: کہ آج کی شب میری حفاظت کون کرے گا؟ میں اسکو دعادوں گا، ایک انصاری نے عرض کیا کہ میں !یارسول اﷲ! عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم، آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے قریب بلاکر ان کا نام پوچھا اور دیر تک دعا دیتے رہے، حضرت ابو ریحانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا سنی تو عرض گزار ہوئے کہ میں دوسرا نگہبان بنوں گا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے قریب بلاکر نام پوچھا اور ان کو بھی دعا دی ۔
(المسندلامام احمد بن حنبل،حدیث أبی ریحانۃ،الحدیث:۱۷۲۱۳،ج۶،ص ۹۹)
آیت کریمہ :
وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط
(پ۶،المائدۃ:۶۷)

ترجمہ کنزالایمان:اور اﷲ تمہاری نگہبانی کرے گالوگوں سے۔

نازل ہونے کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے لئے پاسبان مقرر کرنا بند کردیا۔

غزوہ بدر میں جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے کفار کے مقابلے کے لئے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو طلب کیا تو حضرت مقدادرضی اﷲ تعالیٰ عنہ بولے، ہم وہ نہیں ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح کہدیں۔تم اور تمہارا خدا دونوں جاؤ اور لڑو۔ بلکہ ہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے دائیں سے بائیں سے آگے سے پیچھے سے لڑیں گے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ جاں نثارانہ فقرے سنے تو چہرہ مبارک فرط مسرت سے چمک اٹھا۔
(صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب قول اﷲ تعالٰی،الحدیث:۳۹۵۲،ج۳، ص۵)

صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے جا ں نثارانہ جذبات کا ظہور سب سے زیادہ غزوہ احد میں ہوا، چنانچہ اس غزوہ میں کسی مقام پر رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ صرف نو صحابہ (جن میں سات انصاری اور دوقریشی یعنی حضرت طلحہ اور حضرت سعدرضی اﷲ تعالیٰ عنہما) رہ گئے۔ اس حالت میں کفار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمپر دفعۃً ٹوٹ پڑے، تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان جاں نثاروں کی طرف خطاب کرکے فرمایا: کہ جو ان اشقیاء کو میرے پاس سے ہٹائے گا اس کے لئے جنت ہے۔ ایک انصاری فوراً آگے بڑھے اور لڑ کر آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان ہوگئے۔ اسی طرح کفار برابر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمپر حملہ کرتے جاتے اور آپ بار بار پکارتے جاتے تھے، اور ایک ایک انصاری بڑھ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمپر اپنی جان قربان کرتا جاتا تھا، یہاں تک کہ ساتوں بزرگ شہید ہوگئے۔
(صحیح مسلم، کتاب الجھادوالسیر،باب غزوۃ احد،الحدیث:۱۷۸۹، ص۹۸۹)

حضرت ابوطلحہ اور حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی جاں نثاری کا وقت آیا، تو حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے آپ نے اپنا ترکش بکھیردیا،اور فرمایا کہ تیر پھینکو ، میرے ما ں باپ تم پر قربان۔ (صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب اذھمت طائفتان منکم أن تفشلاواﷲ ولیھما.....الخ،الحدیث:۴۰۵۵،ج۳،ص۳۷)

حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سپر لے کر آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تیر چلانے لگے، اور اس شدت سے تیر اندازی کی کہ دو تین کمانیں ٹوٹ گئیں، اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمگردن اٹھاکر کفار کی طرف دیکھتے تھے تو وہ کہتے تھے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں گردن اٹھاکر نہ دیکھیں ، مبادا کوئی تیر لگ جائے میرا سینہ آپ کے سینہ کے سامنے ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب اذھمت طائفتان منکم أن تفشلاواﷲ ولیھما.....الخ،الحدیث:۴۰۶۴،ج۳،ص۳۸)

اس غزوہ میں حضرت شماس بن عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم دائیں بائیں جس طر ف نگاہ اٹھاکر دیکھتے تھے ان کی تلوار چمکتی ہوئی نظر آتی تھی، انہوں نے اپنے آپ کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سپر بنالیا، یہاں تک کہ اسی حالت میں شہید ہوئے۔
(الطبقات الکبری،تذکرۃ شماس بن عثمان رضی اﷲ عنہ،ج۳، ص۱۸۶)

اسی غزوہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمنے ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلاش میں روانہ فرمایا، وہ لاشوں کے درمیان ان کو ڈھونڈھنے لگے، تو حضرت سعد بن ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خود بول اٹھے، کیا کام ہے؟ جواب دیا کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے تمہارا ہی پتا لگانے کے لئے بھیجا ہے، بولے جاؤ، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمکی خدمت میں میرا سلام عرض کردو، اور کہہ دو کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں، اور اپنے قبیلہ میں اعلان کردو کہ اگر رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہوگئے اور ان میں کا ایک متنفس بھی زندہ رہا تو خداعزوجل کے نزدیک ان کا کوئی عذر قابل سماعت نہ ہوگا۔
(الموطالامام مالک، کتاب الجھاد،باب الترغیب فی الجھاد،الحدیث:۱۰۳۵، ج۲،ص۲۴)

نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی جاں نثاری کی آرزو رکھتی تھیں، حضرت طلیب بن عمیررضی اﷲ عنہ اسلام لائے اور اپنی ماں ارویٰ بنت عبدالمطلب کو اسکی خبردی تو بولیں کہ تم نے جس شخص کی مدد کی وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق تھا، اگر مردوں کی طرح ہم بھی استطاعت رکھتیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمکی حفاظت کرتیں اور آپ کی طرف سے لڑتیں۔
(الاستیعاب، تذکرۃ طلیب بن عمیر،ج۲،ص۳۲۳)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371058 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.