عشق و مستی کے دو عجب نظارے؟

یو ں تو سیدالعالمین ﷺ کے پروانوں کی جاں نثاری اور عشق و مستی میں سرشاری کے واقعات کا احاطہ فی الحقیقت ممکن ہی نہیں۔ مشت از خروارے کی مثل خامہ فرسائی کی جرات تو کررہا ہوں ۔ زہے عزو شرف کہ خالق و مالک کائنات اور مالک روز جزا نے سعادت سے نوازا کہ مجھ جیسے سراپا معصیت کو وجہ قرار عالمین ﷺ کے کچھ شہ پارے لکھوں اہل ایمان کے دلوں کو سرور حاصل ہو۔ پھر عرض کروں کہ جو کچھ تحریر کررہاہوں ایسے واقعات سے تاریخ عالم بھری پڑی ہے۔ ہاں یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ سرور عالمین ﷺ ہی کی یہ خصوصیت ہے جہاں عشق و مستی کے بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہونے والوں کا شمار صرف اﷲ ہی کرسکتا ہے۔ انبیاء سابقین علیہھم الصلوۃ والسلام کے جو حالات میں نے مطالعہ کیئے کسی ایک ہستی کے بارے ایسی کوئی مثال نہ پائی کہ ان پر ایمان لانے والوں نے عشق و مستی کی کوئی قابل ذکر مثال پیش کی ہو۔ تو اس لحاظ سے محبوب پاک ﷺ کی امت بھی عشق ومستی اور جان نثاری میں وحدت کی مظہر ہے۔ سبحان اﷲ۔ اﷲ غلاموں کے عشق و سرور میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ابورافع سلام بن ابی الحقیق عبداﷲ یہودی سردار تھا۔ اس خبیث نے غزوہ خندق میں کفار کی مدد کی اور لشکر اکٹھا کرنے میں مددکی ۔کعب بن اشرف یہودی خبیث کے بعد یہ بڑا دشمن رسول خدا تھا۔خیبر میں جاکر اس نے اپنے ابلیسی کام کو مزید تیز کردیا۔ حضور سیدالعالمین ﷺ کی شان پاک میں بکواس کرتا تھا اور آپ کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔ ابن سعد کی روائت کے مطابق حضور سیدالعالمین ﷺ سے ماہ ذی الحجہ سن پانچ ہجری میں اس خبیث کی سرکوبی کے لیئے قبیلہ خزرج کے حضرت عبد اﷲ عتیک، حضرت عبداﷲ بن انیس، حضرت ابوقتادہ بن ربعی ، حضرت مسعود بن سنان اور حضرت خزاعی بن اسود اسلمی رضی اﷲ عنھم نے اجازت مانگی اور آپ ﷺ نے انہیں اجازت فرمائی۔ ابورافع خبیث اپنے قلعہ نمامحل میں رہتا تھااور رات دیر تک قصہ گو اس کے پاس رہتے تھے۔ جب وہ اٹھ جاتے تو خبیث اپنے بالاخانے پر چلا جاتا۔ سید نا عبد اﷲ بن عتیک رضی اﷲ عنہ یہودیوں کی زبان جانتے تھے۔اندھیرا چھارہاتھا اور آپ رضی اﷲ عنہ اپنے ساتھیوں کوقلعہ سے کچھ فاصلے پر بٹھا کر قلعے میں داخلے ہوئے۔ یہ ایک انتہائی درجہ کی خطرناک صورت حال تھی آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر شاتم رسول کو واصل جہنم کرنے کا عزم صمیم کر رکھا تھا۔ اﷲ نے آپ کی مدد فرمائی۔ چوکیدار صدر دروازے کو تالالگا کر چابیاں مخصوص مقام پر لٹکا کر چلا گیا اور دیگر محافظین بھی چلے گئے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے چابیاں لے کرتالا کھو لدیا اور خود بالاخانے چلے گئے۔ آپ کسی طریقہ سے ابو رافع تک پہنچ گئے مگر اندھیرے میں پہلا وار خالی گیا دوبارہ اسکی آواز سے اندازہ لگا اسکے اوپر سوار ہوگئے اور تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر پیٹھ تک پہنچا دی۔ اس کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ بالا خانے سے اترے مگر آخری سیڑھی پر گرگئے اور پنڈلی ٹوٹ گئی۔ عشق رسول کی مستی میں تکلیف محسوس نہ کی اور اپنی دستار مبارک سے پنڈلی کو باندھ اپنے ساتھیوں تک پہنچ گئے۔ سارا ماجرا انہیں سنایا۔ سحری تک انتظار کی کہ خبیث کے واصل جہنم ہونے کااعلان ہوگیا اور اپنے ساتھیوں سمیت آقا کریم ﷺ کے حضور حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلادو۔ انہوں نے پاؤں پھیلادیا تو رسول اکرم ﷺ نے ٹوٹی پنڈلی پر دست مبارک پھیراتو حضرت عبداﷲ بن عتیک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جانا کہ میری ٹانگ میں کبھی کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ سیدالعالمین ﷺ کے دست مبارک میں اﷲ تعالیٰ نے لامحدود اقسام کے اوصاف رکھے ہیں کہ کئی غزوات کے دوران اپنے پروانوں کے کٹے اعضاء فقط دست مبارک سے جوڑ دیئے ۔ یا کہیں اپنے لعاب دہن سے آنکھوں کو شفا دی، یا کہیں کڑوے پانی میٹھے کیئے۔ آیئے اب ایک دوسرا نظارہ دیکھیئے ؛ کہ غزوہ احد کے بعد قبیلہ عضل کے لوگ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ہم لوگوں میں اسلام ہے اور آپ ﷺ اپنے اصحاب میں سے چند آدمی ہمارے ساتھ بھیجیئے تاکہ وہ ہمیں دین کے احکام سکھائیں۔ حضور اکرم ﷺ نے چھ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو بھیجا لیکن انہوں نے راستے میں وعدہ خلافی کرتے ہوئے ان کو گھیر لیا۔ جب ان صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو آمادہ قتال دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ لوگوں کو قتل نہیں کرنا

چاہتے بلکہ ہم تو کفار مکہ سے تمہارے بدلے مالی نفع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عاصم رضی عنہ اور دو ساتھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے باقی تین کو کفار پکڑ لے گئے اور مشرکین مکہ کے ہاتھ فروخت کردیا۔ اس موقع پر حضرت عاصم رضی عنہ نے اﷲ تعالیٰ سے دعاکی کہ اے اﷲ !ہماری خبراپنے رسول مقبول ﷺ کو پہنچا دے۔تو اسی وقت نبی کریم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے اس وقعہ سے آگاہ فرمادیا اور آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو مطلع فرمادیا۔ انہیں میں حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ اور حضرت زید بن وثنہ رضی اﷲ عنہ کو کفار نے مشرکین مکہ کے ہاتھ فروخت کردیا۔ حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کو حارث بن عامر نے خریدا۔ آپ کے قتل پر اہل مکہ نے اتفاق کرلیا۔ اسی دوران آپ رضی اﷲ عنہ حارث کے گھر میں تھے کہ اس کا چھوٹا بیٹا آپ کے پاس آگیا اور آپ رضی اﷲ عنہ نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔ بچے کی ماں کو خوفزدہ دیکھ کر آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ میں ایسا نہیں ہوں کہ بے وفائی کروں۔ اسی عورت کا بیان ہے کہ حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اوربلا موسم کے انکے ہاتھ میں انگوروں کے خوشے تھے۔ وہ رزق اﷲ تعالیٰ نے انہیں نصیب فرمایا تھا۔حضور ﷺ کے برحق رسول ہونے کی یہ بہت بڑی دلیل تھی۔ لیکن ان روشن دلائل کو دیکھنے کے باوجود مشرکین مکہ پر کوئی اثر نہ ہوا اور اب حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کو شہید کرنے کے لیئے حرم پاک سے نکالا اور حل کی طرف لے گئے۔ مقام تنعیم پرجاکر آپ رضی اﷲ عنہ نے کفار سے کہا کہ مجھے چھوڑدو تاکہ دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ آپ نے جس جگہ نماز ادا فرمائی وہاں اب مسجد تنعیم ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے نماز کے بعد دعا فرمائی : اے میرے رب ان کو اس طرح ہلاک فرما کہ ان کی گنتی سے کوئی باقی نہ رہے اور ان میں سے کسی کو باقی نہ رکھ اور انہیں متفرق قتل کر۔ سال نہیں پلٹا کہ ان میں سے کوئی زندہ رہا ہو، سب ہلاک ہوگئے۔ پھر آپ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ اے میرے اﷲ میں اس شخص کو نہیں پاتا کہ تیرے رسول کو میرا سلام پہنچا دے۔ اسی وقت جبریل علیہ السلام حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کے واقعہ سے مطلع کیا۔اسکے بعد حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ نے استقلال اور قوت ایمانی سے کچھ اشعار پڑھے جنکا مطلب یہ ہے کہ میں پرواہ نہیں کرتا کہ جس وقت قتل کیا جاؤں ایسے حال میں کہ مسلمان ہوں اور کسی پہلو پر اﷲ تعالیٰ کے لیئے میرے پچھڑنے کی جگہ ہو اور میرا یہ قتل اﷲ کی رضا چاہنے کے لیئے اور ثواب کے لیئے ہے۔ اور اﷲ چاہے تو جسم کے ٹکڑوں میں برکت دے۔ (مواھب لدنیہ) اس وقت مکہ کے کفار کے تمام گروہ اور قبیلے جمع تھے۔ خدا جانے محبت کے یہ کیا اسرار ہوتے ہیں ۔ جو سر سجدوں میں جھکتے ہیں وہ زیب دار ہوتے ہیں (حضرت حفیظ)حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہی حضرت زید رضی اﷲ عنہ کو بھی لایا گیا۔ ابوسفیان نے دونوں کو ترک اسلام اور کفر کے اختیار کرنے کے بڑے جتن کیئے،مال و دولت کا لالچ دیا، اذیت ناک موت اور سولی سے ڈرایا مگر حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کا جواب ملا او ابو سفیان تو کیا جانے شان مصطفےٰ کریم ﷺ ۔ نہ چھوڑوں گا کبھی میں احمد مختار کا دامن ۔ کہ دو جگ کا سہارا ہے خیال یار کا دامن (حضرت حفیظ)حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کو دار پر چڑھایا گیا اور مشرکین مکہ اپنااپنا بدلہ لینے کے لیئے ان پر تیروں ، تلواروں اور برچھیوں سے وار کر رہے تھے۔ مگر انکے چہرے پر مسکراہت اور اطمینا ن دیکھ کر کفار ہیبت زدہ ہورہے تھے۔ اب حضرت زید رضی اﷲ عنہ کی باری آئی۔ ابو سفیان نے انہیں کہا ؛ تری نیت بدل جائے جو یہ منظر نظر میں ہو ۔محمد ہوں یہاں تیری جگہ تو اپنے گھر میں ہو مگر آپ رضی اﷲ عنہ نے جوابدیا ؛ کہا او بیوقوف اور لذت ایماں سے بیگانے ۔ محمد اور محمد کی محبت کو تو کیا جانے ، کہاں برداشت دیکھی تو نے شیدائے محمد کی ۔ خلش برداشت کرسکتا نہیں پائے محمد کی ۔ لب مقتول پر اس شان سے اﷲ اکبر تھا۔ زمین بیتاب و مضطر تھی، فلک حیراں و ششدر تھا۔(حضرت حفیظ) آج بھی غلامانِ نبی ﷺ جان دینے سے نہیں ڈرتے۔ اپنے آقا کریم ﷺ سے محبت میں دیوانے آپ ﷺ کی شان میں ذرا سی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے، ابھی 31 اکتوبر یوم غازی علم الدین شہید رحمۃ اﷲ علیہ گذرا اور غازی ممتاز حسین قادری عاشق رسول مسلمان ملک کی جیل میں ہے۔ کیا حکمران بھی رسول اﷲ ﷺ کے غلام ہیں؟کوئی عاشق رسول کسی عاشق 0رسول کو پس زنداں دیکھ سکتا ہے؟ اس کا جواب ارباب عقد کشاد کے پاس ہے؟
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140632 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More