عوام کی محافظ - پولیس کرپشن میں سہر فہرست

پاکستان کی صورتحال گزشتہ چند سالوں میں بین الاقوامی حالات اور اندرونی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بہت خراب ہو چکی ہے اور عوام کی حفاطت پر معمور ادارے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں جن میں پولیس کا محکمہ سہر فہرست ہے ۔ جہاں ان کے پاس جدید سازوسامان کی کمی ہے وہیں بہترین تنخواہوں کے فقدان کی وجہ سے وہ عمدہ کارگردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں اور اپنی توجہ عوام کو تحفظ مہیا کرنے کی بجائے رشوت ستانی جیسے برے فعل پر مرکوز رکھتے ہیں تاکہ انکا گزر بسر اچھا ہو سکے ۔ حکومت کی جانب سے صوبائی اور وقافی سطح پر اگرچہ انکی تنخواہوں میں تو اضافہ کیا گیا ہے لیکن روز بروز بڑھتی ہوئی منہگائی کی وجہ سے یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مانند حیثیت رکھتی ہے۔ حال ہی میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے نیشنل سروے ٢٠٠٩کے مطابق پاکستان میں گزشتہ تین سالوں کے دوران کرپشن مین چار سو فی صد اضافہ ہوا ہے اور ٢٠٠٩میں قوم کا ١٩٥ ارب روپیہ کرپشن کی نذر ہو چکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جس کی پوری دنیا میں تشہیر کی جاتی ہے۔ پولیس محکمے نے حسب معمول کرپشن میں پہلے نمبر پر آنے کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔ پاور کا دوسرا، صحت کا تیسرا اور تعلیم جیسا محکمہ جو آنے والے اور موجودہ نونہالوں کا روشن مستقبل اور بہترین کر دار سازی کا ضامن ہے وہ کرپشن کی اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔

پولیس کسی بھی ملک کا وہ ادارہ ہوتا ہے جس کی ذمہ داری لا اینڈ آرڈر کی حالت کو بہتر بنانا ہوتا ہے اس کے علاوہ عدالتی احکامات یعنی قانون کی علمداری بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اگر محکمہ میں ہی کرپشن جیسا گھناؤنا فعل اس حد تک سرایت کر جائے تو اس میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا خواب کس طرح سے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟ موجودہ دور میں جبکہ مرکزی کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جا چکا ہے جس سے اس ادارے میں کام کرنے والی فورس کے مسائل کو کم کرنے میں مدد ملی ہے لیکن پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آ رہے ہیں اور سرتاپا کرپشن جیسے ناسور میں ملوث نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک غیر ملکی ادارے کو بھی باقاعدہ تحقیق کر کے یہ اعداد و شمار مجبوراً دنیا کے سامنے لانے پڑے ہیں جو تو نہ اس ادارے کے لئے نیک نامی کا باعث ہے اور نہ ہی ارباب اختیار ان اعداد و شمار سے نظریں چرا سکتے ہیں۔ موجودہ نازک ملکی حالات سے بھی پولیس نے سبق نہیں سیکھا اور تھانوں میں مختلف مقدمات کے سلسلے میں ملوث افراد یا سٹرکوں پر ناکوں کی صورت میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے والے عوام سے ناجائز رقوم بٹورنے کا کام جاری و ساری رکھئے ہوئے ہیں نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور کون کب ان جرائم کا نوٹس لینا شروع کرے گا تاکہ پولیس کو کرپشن سے پاک محکمہ بنا کر ملک میں تبدیلی کا عمل شروع کیا جاسکے۔

ٹرانسپرنسی انٹرنشینل کی اس رپورٹ میں یہ خوش آئند بات بھی سامنے آئی ہے کہ عدلیہ کا ادارہ جو کرپشن میں پہلے تیسرے نمبر پر تھا ٢٠٠٩ میں اب یہ ساتویں درجے پر چلا گیا ہے اور یہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے کرپشن کے بارے میں سخت نوٹس لینے کی وجہ سے ہوا ہے ۔ کیونکہ چیف جسٹس صاحب نے چارج سنبھالتے ہی عدلیہ کو کرپشن سے پاک کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا اور انہی کے مثبت اقدامات کی وجہ سے ہی اس ادارے میں کرپشن کی شرح بہت کم رہ گئی ہے جو کہ معاشرے کی کامیابی کی جانب ایک مثبت قدم ہے اس طرح کے اقدامات باقی اداروں کے سرابراہان کو بھی کرنے چاہیے۔ حکومت کو سرکاری اداروں میں کرپشن کے واقعات کا نوٹس لینا چاہے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے اور ایسی سزائیں دیں کہ دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہو تاکہ معاشرے سے یہ لعنت ختم ہو سکتے۔ پنچاب کے صوبے میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے عمدہ اقدامات کی وجہ سے پولیس کا کسی حد تک راہ راست پر آئی ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور ناجائز اقدامات کے لئے روپے پیسے کی مدد سے پولیس کی مدد لینے سے گریز کرنا چاہیے۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522851 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More