اگر ہم واقعی نواسہ رسول حضرت حسینؓ کی تحریک کے اسباب
معلوم کرنا چاہیں تو ہمیں اس کی ابتداء معلوم کرنے کے لیے کم از کم تیس سال
پہلے کی تاریخ کی طرف رجوع کرنا ہوگا کیونکہ تیس سال پہلے ایسے اسباب پیدا
ہوچکے تھے جس کی وجہ سے حضرت حسینؓ کی تحریک کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی
اسلامی حکومت نے ملوکیت کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیئے تھے جس کی وجہ سے
بعض لوگوں نے بیت المال کو لوٹنا اور لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ جمانا
شروع کردیا تھا، خلفائے راشدین کے زرین عہد میں بیت المال کی آمد و خرچ میں
بہت احتیاط برتی جاتی تھی اور مال غنیمت صرف مسلمانوں کے عمومی مصالح میں
خرچ کیا جاتا تھا۔ خلافت و ملوکیت کے برزخی عہد میں شروع ہونے والی بے
ضابطگیوں کی وجہ سے ایک خونی انقلاب کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی اور کیوں
نہ ہوتی کیونکہ آخری خلیفہ راشد حضرت علیؓ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو
انہوں نے صرف سات سو درہم ترکہ چھوڑا جبکہ کچھ افراد کی حالت یہ ہوچکی تھی
(جیساکہ امام مسعودی نے مروج الذہب میں تحریر کیا ہے) کہ کسی نے نے دس لاکھ
درہم ترکہ چھوڑا، کسی کے صرف غلاموں اور کنیزوں کی تعداد ہزاروں میں تھی ،
کچھ ایسے بھی تھے جن کے اونٹ اور بھیڑ بکریوں کی تعداد ہزاروں میں تھی یا
ان کے ترکہ میں موجود سونے کو ہتھوڑوں سے توڑ کر وارثوں میں تقسیم کیا
گیا!اب اگر ان حالات کا تقابلی جائزخلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے عہد سے کیا
جائے جہاں انہوں نے نظام مملکت کو ایسی بنیادوں پر استوار کیا تھا کہ کسی
کو دولت جمع کرنے کا موقعہ ہی نہ مل سکے۔
حضرت حسینؓ کے عہد کے مسلم معاشرے کی ایک تصویر یقینا اب آپ کے سامنے آچکی
ہوگی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں دولت کی ریل پیل ہو وہاں کچھ مشکلات جنم لیتی
ہیں سب سے پہلی مشکل یہ ہے کہ وہ معاشرہ اپنے اصولوں سے ہٹ کر ایک آرام دہ
زندگی کا خوگر ہوجاتا ہے اور اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں رہتا کہ جن
بنیادوں پر قدم رکھ کر وہ آج دولت سے کھیل رہا ہے وہ کیا ہے اسی حقیقت کی
طرف علامہ ابن خلدونؒ نے بھی اپنے مقدمہ میں اشارہ کیا ہے۔ دولت مند سماج
کی دوسری مشکل یہ ہوتی کہ وہاں نفسا نفسی بڑھنے کے علاوہ لوگوں کو دوسروں
سے کوئی لینا دینا نہیں رہتا ہر شخص اپنی دنیا میں مگن ہوجاتا ہے اگر کوئی
گناہوں کی دلدل میں دھنس رہا ہو تو کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
حضرت حسینؓ کے عہد کا مسلم معاشرہ انہیں دو مشکلات کا شکار تھایعنی امت میں
نئے نئے فتنے جنم لے رہے تھے، اسلامی احکام کی اہمیت ختم ہوتی چلی جارہی
تھی اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ ایک والی نے نشے کی حالت میں صبح کی
نماز دو کے بجائے چار رکعت پڑھادی تھی دوسری اہم مشکل حضرت حسینؓ کے عہد کی
یہ ہوچکی تھی کہ کوئی کسی کو غلط کام کرنے سے منع نہیں کرتا تھا ۔ اسلام
میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایک اہم رکن ہے لیکن دولت مند
سماج کی یہ خصوصیت مسلم معاشرے میں بہت جلد درآئی جس کی وجہ سے حضور کریمؑ
کی سنت میں تبدیلی کی جانے پر بھی لوگ خاموش رہتے اور کوئی بھی برائی سے
روکنے کے لیے قدم آگے نہیں بڑھاتا تھا۔
اسلامی دنیا کی اس خطرناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے نواسہ رسول حضرت حسینؓ نے
ایک ابدی تحریک کا آغاز کیا اور اس سلسلہ میں انہوں نے سب اہم نعرہ یہ
لگایا کہ میں زمین میں ظلم و فساد برپا کرنےکے لیے نہیں اٹھا ہوں بلکہ میں
چاہتا ہوں کہ اپنے حضور کریمؑ کی امت کی اصلاح کروں ، امربالمعروف و نہی عن
المنکر کے فریضہ کو اسلامی معاشرے میں زندہ کروں اور خود بھی اپنے نانا اور
باپ کی سیرت پر قدم بڑھاوَں۔
یہاں رک کر ایک سوال خود سے ضرور پوچھئے گا کہ کیا موجودہ اسلامی معاشرے کی
حالت کیا ہے اور کیا ہم حضرت حسینؓ کے پیغام کو پہنچانا تو دور کی بات ،
سمجھ پائے ہیں؟! |