پیر کے دن، سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بظاہر سناٹا
اور ایک سکوت دیکھنے میں آیا۔ اس کی وجہ سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے کیا
جانے والا وہ اعلان تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مملکت میں غیرقانونی طور کام
کرنے والے غیر ملکی کارکنوں کے خلاف کارروائی اور پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی
ہے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق سعودی حکومت نے چھ ماہ پہلے لاکھوں غیرملکی ورکرز
کوملک میں قیام کے لئے مطلوبہ ضروری دستاویزات۔۔۔ یعنی اقامہ سے متعلق
کاغذات ۔۔درست کرانے کے لئے 3 نومبر تک کی مہلت دی تھی جو اتوار کو ختم
ہوگئی جس کے بعد حکام اور سیکورٹی اہلکاروں نے ملک بھر میں کارخانوں ،
مارکیٹوں اور دکانوں پر چھاپے مارنے شروع کرد دیئے ہیں۔
|
|
چھاپوں سے بچنے کی خاطر غیرملکی ورکرز کی بڑی تعداد نے اپنے کام پر جانے کے
بجائے گھروں پر رہنے کو ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ پرہجوم مارکیٹس اور بزنس
سینٹرز میں سناٹا چھایا رہا۔
ریاض کے انڈسٹریل زون کی زیادہ تر دکانیں جہاں غیرملکی ورکروں کی بڑی تعداد
کام کرتی ہے بند رہیں۔برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے بات چیت میں ایک
عینی شاہد کا کہنا تھا کہ اس نے پولیس کی گاڑیوں میں لگے سائرن پر درجنوں
افراد کو ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔
انڈسٹریل زون میں واقع پارٹس کی دکان کے مالک ابو صفات نے بتایا ” صبح سے
کوئی گاہک کچھ خریدنے نہیں آیا ۔ یہ انتہائی بری صورتحال ہے۔“
سعودی حکومت کی طرف سے ویزا قوانین میں سختی کا مقصد کم اجرت پر غیرملکی
ورکرز کی ملک میں آمد کو روکنا اور پرائیوٹ سیکٹر میں سعودی شہریوں کے لئے
روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔
اتوار کو سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصورالترکی نے ایک پریس
کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وزارت محنت کے تعاون سے غیر قانونی طور پر
مقیم غیر ملکی ورکرز کے خلاف جاری مہم ملک کے تمام شہروں، قصبوں اور
دیہاتوں میں چلائی جائے گی۔
|
|
سعودی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق مملکت میں بے
روزگاری کی شرح 12فیصد سے بڑھ گئی ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد نوکری نہ
ملنے کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر میں روزگار کے مواقع بڑھانا
اور غیرملکی ورکرز کی بھرتیاں سعودی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہیں۔
سعودی عرب میں تقریبا نوے لاکھ غیر ہنرمند غیر ملکی مزدور یا گھریلو
ملازمین مقیم ہیں جبکہ سعودی شہریوں کی تعداد 18ملین ہے۔ ان ورکرز کی
اکثریت پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، یمن، فلپائن،انڈونیشیا، مصر اور
ایتھوپیا سے تعلق رکھتی ہے اور جو رقم یہ اپنے ملکوں کو بھیجتے ہیں وہ ان
ملکوں کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لیبر بلیک مارکیٹ
سعودی حکومت گزشتہ کئی عشروں سے ویزوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کو نظر انداز
کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بظاہر غیرملکی ورکرز کی بلیک
مارکیٹ وجود میں آ گئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں بہت سے ورکرز ویزے کی مدت
کے بعد بھی سعودی عرب میں رہائش پذیر رہے ۔ بعض نے غیرقانونی طور پر بزنس
کرلئے جبکہ بعض کم تنخواہوں پر کام کرنے پر راضی ہوگئے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی
بے روزگاری کو دیکھتے ہوئے سعودی حکومت نے پکڑ دھکڑ کا فیصلہ کیا تاکہ
مقامی افراد کو بہتر تنخواہوں پر ملازمتیں مل سکیں۔اب ایسی کمپنیوں پر بھی
جرمانے کئے جائیں گے جہاں سعودی شہریوں سے زیادہ غیرملکی ملازم ہوں گے۔
مارچ میں وزارت محنت اور داخلہ نے دفاتر اور مارکیٹوں پر چھاپے مارے ۔
اپریل میں غیرملکی کارکنوں کو کاغذات درست کرانے کے لئے نومبر تک مہلت دینے
کا اعلان کیا گیا۔
تین نومبر کو ڈیڈ لائن کے ختم ہونے سے پہلے بھی حکومت نے وارننگ جاری کی جس
میں کاغذات درست نہ کرانے والوں کو خبردار کیا گیا کہ انہیں قید، جرمانے
اور ڈی پورٹ کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایسی کمپنیوں پر جو ویزے کے مکمل کاغذات نہ رکھنے والوں کو ملازم رکھیں گی،
جرمانہ کیا جائے گا۔ڈپٹی وزیر محنت مفرج الحق بانی کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے
ہیں کہ غیر ملکی کارکن قانونی طریقے سے سعودی عرب میں رہیں۔
مہلت کے خاتمے سے قبل ویزا دفاتر کے باہر لوگ لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر
اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔ خلیج اور جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے
یہ وہ لوگ تھے جو ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی سعودی عرب میں قیام پذیر
تھے اور بغیر جرمانہ دئیے واپس جانا چاہتے تھے۔ |