پاکستان کی پولٹری انڈسٹری کے سلگتے مسائل

پاکستان کی پولٹری انڈسٹری کے سلگتے مسائل ۔ جو پولٹری کے صنعتکار خود حل کر سکتے ہیں

پاکستان میں پولٹری کی پھیلتی ہوئی صنعت اب اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا جائزہ بھی بار بار لیا جائے۔ صنعت کے پھیلاؤ سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان پر بات کی جائے اور بحث و مباحثہ کے ذریعے ان کا حل تلاش کیا جائے۔ پولٹری کے کاروبار میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے اور نہ ہی کسی کاروبار کے سارے سیکٹرز( شعبہ جات) ایک ہی وقت میں منافع بخش ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس نکتے کو سمجھ کر پولٹری میں صنعت کاروں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ اب پولٹری کا پھیلاؤ کارپوریٹ سیکٹر میں بہتری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مثلاً کوئی بڑا گروپ صادق ، صابرز،ہائی ٹیک، نیشنل، اسلام آباد، کے اینڈ اینز، ایشیاء، جدید سب کے سب اس اصول پر متفق ہیں کہ پولٹری میں کاروبار کیلئے گرینڈپیرنٹ، پیرنٹ سٹاک،کمرشل برائلرو لیئر، فیڈ ملز، میڈیسن، پراسیسنگ اور دیگر شعبہ جات بھی بہت ضروری ہیں۔ ان شعبوں کو متحرک کر کے ہی پولٹری کے کاروبار میں ترقی کی جا سکتی ہے ورنہ کوئی بھی ایک شعبہ پولٹری کے کاروبار کو مستحکم نہیں رکھ سکتا!

اس سوچ اور عمل نے چھوٹے سرمایہ کاروں کو میدان سے آؤٹ کر دیا ہے (یا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے)۔ پولٹری کی صنعت میں بنیادی پیداواری یونٹ کمرشل برائلر فارمنگ، لیئر فارمنگ کا ہے یہ نہایت حساس شعبہ ہے اور سب سے زیادہ رسک بھی اس شعبے میں ہے۔ لمبا منافع یا لمبا نقصان۔

اس نکتہ کے پیش نظر اب بڑے گروپوں نے اپنے کمرشل پیداواری یونٹ تیزی سے آگے بڑھائے ہیں برائلر اور لیئر فارمنگ کے کام میں بڑے گروپوں نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے مثلاً صادق گروپ نے لیئر فارمنگ کا سب سے بڑا یونٹ قائم کیا ہے اور کے اینڈ اینز، صابرز گروپ ،نیشنل ، بگ برڈ اوردیگرنے کمرشل برائلر فارمنگ کے بڑے یونٹ قائم کر رکھے ہیں۔ کے اینڈ اینز گروپ کو پولٹری کے سرمایہ کاروں پر جدت اختیار کرنے کے حوالے سے برتری حاصل ہے اس وقت یہ گروپ پولٹری کے کاروبار میں سب سے بڑے تجریہ کار کھلاڑی کی حیثیت سے کھیل رہاہے۔ نیشنل گروپ نے بھی پچھلے چند سالوں سے پراسیسنگ میں قدم رکھا ہوا ہے۔ صابرز والے بھی صبر کے ساتھ اس میدان میں میں کودنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

صابرز کے علاوہ دیگر گروپوں نے بھی یہی پلاننگ کی ہے پاکستان میں بین الاقوامیCP گروپ نے پولٹری کے میدان میں قدم رکھ دیا ہے۔ مستقبل میںCP والے اچھی اور صحت مند مسابقت قائم کرنے میں کردار ادا کریں گے! اگلے چند سالوں میں پولٹری کے شعبہ میں بریڈنگ کا بزنس آزادانہ طور پر پھیلتا ہوا نظر نہیں آ رہا یہ شعبہ اس وقت شدیددباؤ Strees میں ہے بلکہ کئی ایک میڈیم سائز کے سرمایہ کار جگہ خالی کر چکے ہیں۔

کمرشل برائلر فارمنگ/ لیئر فارمنگ میں ترقی ہوگی اور اس شعبہ کا آزادانہ طور پر پھیلاؤ جاری رہے گا۔ لیکن اس شعبہ کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ جو مسائل تیزی سے پیدا ہو رہے ہیں ان میں کنٹرول شیڈز کا آپس میں مناسب فاصلے کے قانون کا ابھی تک لاگو نہ ہونا ہے جس سے بیماریوں کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں مناسب فاصلے کے قانون کے عدم نفاذ نے کنٹرول شیڈز کے شعبے کو برُی طرح متاثر کیا اور بیماری آنے پر بے تحاشہ اموات ہوئیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ فارم سے فارم تک کے فاصلے کو فوری طور پرقانون سازی کی شکل دے کر اس پرلازمی طور پر عمل کروایا جائے اس پر جتنی سُستی اور دیر اختیار کی جائے گی اتنا ہی رسک بڑھے گا۔ اوکاڑہ میں ماضی میں گمبورو کے مرض کا ڈرون حملہ اس کی واضح مثال ہے کہ جب بیماری آئی تو اس نے شیڈوں کا صفایا کر دیا! کبھی آپ اوکاڑہ میں گمبورو روڈ کا وزٹ کر کے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بیماری کس طرح تیزی کے ساتھ حرکت کرتی ہوگی۔

پولٹری کے سرمایہ کاروں کوبھی اس بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کرنا چاہئے کہ اگرفارموں کا آپس میں مناسب فاصلہ نہ ہو توان فارموں کے مالکان کے ساتھ کاروبار کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے لیکن یہ عملی طورپر پولٹری کے سرمایہ کاروں کے جیتے جی ممکن نظر نہیں آتا۔ ان لوگوں کوچوزے اور فیڈز کی سپلائی نہیں دینا چاہئے۔

ان فارموں پر بائیو سکیورٹی کا سخت کنٹرول اور قانون نافذ ہوناچاہئے۔ مردہ پرندوں کی تلفی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ ماحول کو آلودہ کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ رہائشی آبادیوں کے نزدیک فارموں کے قیام سے سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پولیس نے گوجرہ میں کارروائی کرکے ایک کنٹرول شیڈ کے مالکان پر پرچہ درج کرکے ان کو اندر کیا کیونکہ اس فارم کی بدبو نے رہائشی بستی کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ جس پر رہائشی بستی کے مکینوں نے مظاہرہ کیا اور احتجاج کیا اس پرمجبوراً پولیس کو کارروائی کرنا پڑی۔(کیونکہ کنٹرول شیڈ کے ایگزاسٹ فین شیڈ کی گندی ہوا رہائشی بستی کی طرف پھیلانے کا سبب بن رہے تھے) ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس شخص نے یہ فارم قائم کیا اس کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ فارم پر ایکوپمنٹ لگانے والوں چوزہ اورفیڈ دینے والے اداروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے تھی۔ آخر یہ بھی تو اس جرام میں برابر کے شریک ہیں جو ایسے کاروبار میں مدد فراہم کرتے ہیں جس سے انسانی سماج متاثر ہوتا اور ماحول آلودہ ہوتا ہے۔ پولٹری انڈسٹری کو چیک اینڈ بیلنس کا نظام خود قائم کرناہے ورنہ قانون فطرت تو سب پرلاگو ہوتا ہے۔

اس طرح فارموں پر مرنے والے بیمار پرندوں کو نزدیک آبادیوں اور نہروں اور تالابوں میں پھیکنے اور بہانے والے لوگ ماحول کو آلودہ کرنے کے قومی مجرم ہیں اور پھر ان پرندوں کو خرید کر اینیمل پروٹین کے نام سے دوباہ استعمال کرنے والے بھی پولٹری کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ پولٹری کی صنعت کو خود چیک کرنا چاہئے ورنہ نظر انداز کرنے کا یہ رویہ آگے چل کر بڑے بڑے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

پولٹری کے پھیلاؤ کے باعث اب گلی محلوں میں مرغی فروخت کرنے والوں کے اڈے (چکن شاپس)قائم ہو گئی ہیں جو ماحول کو آلودہ کرتے ہیں اور صحت مند ماحول کو ختم کرنے کا باعث بن رہے ہیں پولٹری والوں کو آگے بڑھ کر اس مسئلہ پر توجہ دینا چاہئے ورنہ مستقبل قریب میں یہ غیر صحت مند کاروبار اور رویہ ان کو لے ڈوبے گا۔

صاف ستھری اور معیاری چکن شاپ ہی اس مسئلے سے نمٹنے کا واحد حل ہے اور اس میں سرمایہ کاری کے وسیع تر امکانات ہیں ہم سب کو اس شعبے کو معیاری بنانے کی طرف توجہ دینا چاہئے!

درجہ بالا نکات غوروفکر کے متقاضی ہیں۔ بعض بریڈر کمپنیاں اپنے غیرذرخیز ( ہیچریوں سے ناکارہ) انڈے بھی مارکیٹ میں فروخت کر دیتی ہے جو بیکری انڈسٹری میں استعمال ہوتے ہیں یہ انڈے غیرصحت مند اور غیر معیاری ہیں اور دوسری طرف کمرشل انڈے کی مارکیٹ کو بھی متاثر کرتے ہیں ان کو ضائع کرنا ضروری ہے معمولی منافع کی خاطران کو Table ایگ کے طور پر مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے ۔ جس سے پولٹری کی مارکیٹ عدم توازن کا شکار ہو کر مسائل پیدا کرتی ہے۔ جب کبھی اخبارات میں مُردہ مرغیوں کی فروخت کی خبریں شائع ہوتی ہیں توان پر ناک منہ چڑانے کی بجائے تحقیق کی جائے اور ایسا کرنے والوں کو چیک کیا جائے ورنہ عوام میں مرغی کے خلاف پراپیگنڈہ پھیل کر پولٹری کی صنعت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ہے کوئی غوروفکر کرنے والا!

ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں

Dr Khalid Mehmood
About the Author: Dr Khalid Mehmood Read More Articles by Dr Khalid Mehmood: 11 Articles with 12160 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.