رات 8بجے کا وقت تھا بچے اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنے سکول
کا کام کر رہے تھے اور کچھ اپنے سکول میں ہونے والے تقریری مقابلے کی تیاری
میں مصروف تھے کہ اچانک بجلی بند ہو گئی، کچھ دیر تو یہ سوچ کر برداشت کیا
گیا کہ یہ روٹین کی بندش ہے ،کچھ وقت کے بعد آجائے گی بچوں نے بھی یہی سوچا
کہ ایک دو گھنٹے بعد آئے گی تو بقیہ کام کیا جائے گا مگر بجلی گئی ایسی گئی
کہ پھر نہ آئی ایک رات گزر گئی دن بیت گیا پھر رات ہو گئی منٹ گھنٹوں میں
اور گھنٹے دنوں میں بدل گئے مگر بجلی نے آنے کا نام نہ لیا۔کسی ایک محلے یا
گاؤں کی نہیں بلکہ اندروٹ،ریڑبن،بیرپانی،سدھن گلی،اور اس سے ملحقہ بہت سے
گاؤں اندھیرے میں گم ہوگئے،یہاں پر سینکڑوں دیہاتوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں
لوگ جن کو اﷲ تعالیٰ نے انسانی شکل و صورت سے نوازہ ہے وہ بجلی کی وجہ سے
بہت سے کاموں سے محروم ہو گئے۔تین دن پھر چار دن گزر گئے آزادکشمیر کے ضلع
باغ کے نواحی گاؤں چھتر نمبر1،بنی منہاساں، سڑول، بیرپانی، چیڑان، دھوندار،
کاچہ، سیری پیراں،ریڑبن،اندروٹ، بجلی کی فراہمی سے محروم اس دوران تمام
متعلقہ افراد سے رابطہ کیا جو جو اس علاقے کے لائن مین تھے، سینئر اہلکاروں
سے فون پر رابطے کے باوجود بھی کوئی ریسپانس نہیں ملا۔ بجلی کا یہ طویل
بلیک اوٹ کیوں تھا اس کی کوئی بڑی وجہ نہیں تھی اور نہ کوئی ایسا طوفان یا
کوئی ایسی آفت تھی جس کی وجہ سے تین دن سے زائد ان علاقوں میں بجلی بند رہی
وہ وجہ صرف لائن میں معمو لی فالٹ تھا ۔ بے بس عوام کا تو یہ کہنا تھا کہ
کچھ کام کرنے کے لئے بجلی کو بند کیا گیا مگر پھر سے اس کو بحال کرنا بھول
گئے۔آزاد کشمیر بھر میں اور خصوصی طور پر ضلع باغ کے علاقے بیر پانی،
اندروٹ، ریڑبن اور اس کے ملحقہ چھوٹے موٹے گاؤں میں بجلی ایک بار بند ہو
جائے تو پھر قسمت سے ہی آتی ہے،یہاں پر کسی قسم کا کوئی نظام نہیں اور نہ
کوئی محکمے کی طرف سے ایسا اہلکار تعینات نہیں جو اپنے فرائض دیانت داری سے
سرانجام دے عوام کی مشکلات کو سمجھ سکے،ان بچوں کا احساس کر سکے جو دن بھر
کام کرتے ہیں اور راتوں کو پڑھتے ہیں ان بزرگوں کا خیال کریں جو بیماری کی
حالت میں ہوتے ہیں مگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ دوھرے عذاب میں مبتلا
ہوتے ہیں۔ان ہزاروں گھروں میں جلنے والی بجلی مفت کی نہیں بلکہ جب ان کے
بھاری بھر کم بل ادا کیے جاتے ہیں۔جو جب آتے ہیں تو وہ عام آدمی کے ہوش اڑا
دیتے ہیں عوام کا کہنا ہے کہ بل تو آئے روز اضافے کے ساتھ دیے جاتے ہیں مگر
بجلی چوبیس گھنٹوں میں سے صرف چند گھنٹے بھی نہیں آتی۔یہاں پر ایک خاص بات
یہ بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ ان تمام علاقوں میں بجلی روزانہ رات کے نو بجے
جاتی ہے تو صبح آٹھ بجے آتی ہے اور پھر دس بجے جاتی ہے تو پورا دن نہیں
ہوتی اس دوران سمجھ نہیں آتی کہ کس سے بات کی جائے اور کس سے پوچھا جائے کہ
یہ مصنوعی عذاب کب ختم ہوگا۔یہاں پر سب بادشاہ ہیں جس کو دیکھو وہی گردن
میں سریا ڈال کے بیٹھا ہوتا ہے وہ ادھر ادھر دیکھنے کی صلاحیت نہیں
رکھتا۔یہ ایشو اپنی جگہ کہ، ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے مگر اس کا
کوئی نہ کوئی ٹائم ہوتا ہے ۔باغ کے ان لاوارث اور یتیم گاؤں میں نہ تو کوئی
وقت ہے اور نہ ہی کوئی اصول،جب دل کیا بجلی بند کر دی اور جب کبھی یاد آئی
تو اس کو آن کر دیا۔ یہاں یہ سوال کرنا کہ ہمارے باپ داد نے کب بجلی
استعمال کی یا چند سال پہلے تو بجلی نہیں ہوتی تھی اس وقت بھی تو زندگی
گزرتی تھی،یہی سوال میں ان تمام لوگوں سے کروں گا ان اہلکاروں سے جو یہ
سوچتے ہوں کہ آج ا گر بجلی بند ہوگئی تو کیا ہوگیا ، جو یہ سوال کرتے ہیں
ان سے سوال ہے کہ کیا وہ خود بھی اب بجلی کے بغیر راہ سکتے ہیں ؟،کیا اب
بجلی ان کی ضرورت نہیں بن گئی ؟،کیا بجلی اب ان کی زندگی کی اہم ضرورت نہیں؟
اگر ہے تو پھر وہ کسی اور سے یہ سوال کیسے کر سکتے ہیں؟ اور اگر کوئی ڈیٹھ
پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مان بھی رہا ہے کہ ایسا نہیں ہم اس کے بغیر بھی
راہ سکتے ہیں تو وہ پھر یہ بتائے کہ یہ جو بل دیے جاتے ہیں کس مد میں دیے
جاتے ہیں یہاں پر تو ایک یونٹ جلے یا بیس کم سے کم بل پچاس یونٹ کا دیا
جاتا ہے اور پھر اسی طرح اگے بھی تھوک میں بل دیا جاتا ہے جس کا یونٹ سے
کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اسی حوالے سے میری ایک اہلکار سے بات ہوئی تو اس نے
بتایا کہ اندر کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے ضلعی میٹر کی یونٹ کو برابر کرنا
ہوتا ہے وہ کالونیاں جو بجلی والوں کے زیر استعمال ہیں ان میں بجلی دن رات
جلتی ہے مگر بل نہیں دیا جاتا ،اسی طرح اور بھی بہت سے ایسے محکمے ہیں جو
بل سے مستثنیٰ ہیں ان کا بل اور خسارہ بھی عوام کی کھال اتار کر پورا کیا
جاتا ہے۔یہاں پر اگر جعلی بجلی کے استعمال کی بات کی جائے تو عوام میں اس
کا استعمال صفر کے برابر ہے جب کہ خود محکمے کے اہلکار اور بہت سی اعلیٰ
افیسروں کی کالونیوں میں جعلی بجلی زیادہ جلتی ہے مگر ان سے بل نہیں لیا
جاتا بلکہ ان کے بارے میں جانتے ہوئے بھی ان جان بننے ہوتے ہیں جان بوجھ کر
آنکھیں چوراتے ہیں تاکہ ہم پر کوئی بات نہ آئے مگر جب عوام میں سے کسی کے
جعلی کنکشن کا پتہ چلتا ہے تو ہم دھاوا ،بول دیتے ہیں اور اس سے اگلی پچھلی
سب نسلوں کا حساب لیتے ہیں۔کیونکہ وہاں پر ہم بادشاہ ہوتے ہیں ہم جو چائیں
الزامات لگا کر یا عرصہ لکھ کر اس کو زندگی بھر کا سبق سیکھاتے ہیں ۔لیکن
ایسی ہی کوئی حرکت سینئر اہلکار یا واپڈا کالونی کا رہائشی ،یا کسی وی ائی
پی کالونی کا شہزادہ کر لے تو ہم بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں
کہ ہم کمزور ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اگر اس پر کسی قسم کا کوئی
ایکشن کرے گے تو نوکری سے جائیں گے۔یہ تو خیر اس معاشرے کا اور اس ملک کا
وطیرہ ہے کہ کون یہاں پر کیا ہے،بات ہو رہی تھی بجلی کی طویل اور بے جا
لوڈشیڈنگ کی جس نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے ،محکمے کے اعلیٰ افیسران
کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے اور رات ،رات بھر بجلی بند ہونے کا بھی نوٹس
لے۔عوام علاقہ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اس دفعہ بل آئیں گے تو ان کو جمع
کروانے کے بجائے انتظامیہ کو دیکھائیں جائیں گے تاکہ محکمے کے سوئے ہوئے
بادشاوں کو یہ تو پتہ چلے کہ دور دراز کے علاقوں میں عوام کے ساتھ کیا ہوتا
ہے اور بجلی جو صرف شہر میں دیکھی جاتی ہے باقی تمام علاقوں میں برائے نام
کام ہو رہا ہے۔باغ کی سینئر انتظامیہ عوام کو اس مشکل سے چھٹکارہ دلائے ،
علانیہ لوڈشیڈنگ کرے اور اپنے کمروں سے باہر نکل کر بھی ایک بار دیکھ
لیں۔یہ عوام پر احسان نہیں بلکہ ان کی زمہ داری میں اور فرائض میں شامل
ہے۔یہ من مانی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بند نہ ہوا تو عوام کو روکنا مشکل ہو جائے
گا۔ |