اسلام کا اخلاقی نظام - آخری حصہ

اسلام کا نظریہ زندگی واخلاق:
اسلام کا جواب ہے کہ اس کائنات کا خدا ہے اور وہ ایک ہی خدا ہے۔ اسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اس کا لا شریک مالک، حاکم اور پروردگار ہے۔ اور اسی کی اطاعت پر یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ وہ حکیم ہے، قادر مطلق ہے، کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے، سبوح و قدوس ہے (یعنی عیب، خطا، کمزوری اور نقص سے پاک ہے) اور اس کی خدائی ایسے طریقے پر قائم ہے جس میں لاگ لپٹ اور ٹیڑھ نہیں ہے۔ انسان اس کا پیدائشی بندہ ہے، اس کا کام یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت کرے۔ اس کی زندگی کے لیے کوئی صورت بجز اس کے صحیح نہیں ہے کہ وہ سراسر خدا کی بندگی ہو۔ اس بندگی کا طریقہ تجویز کرنا انسان کا اپنا کام نہیں ہے بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کا وہ بندہ ہے۔ خدا نے اس کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے ہیں اور کتابیں نازل کی ہیں۔ انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کا نظام اسی سرچشمہ ہدایت سے اخذ کرے۔ انسان اپنی زندگی کے پورے کارنامے کے لیے خدا کے سامنے جوابدہ ہے اور یہ جوابدہی اسے اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کرنی ہے۔ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی مہلت ہے اور یہاں انسان کی تمام سعی و کوشش اس مقصد پر مرکوز ہونی چاہیے کہ وہ آخرت کی جواب دہی میں اپنے خدا کے حضور کامیاب ہو۔ اس امتحان میں انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ شریک ہے۔ اس کی تمام قوتوں اور قابلیتوں کا امتحان ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کا امتحان ہے، پوری کائنات میں جس جس چیز سے جیسا کچھ بھی اس کو سابقہ پیش آتا ہے اس کی بے لاگ جانچ ہونی ہے کہ انسان نے اس کے ساتھ کیسا معاملہ کیا اور یہ جانچ وہ ہستی کرنے والی ہے جس نے زمین کے ذروں پر، ہوا پر اور پانی پر، کائناتی لہروں پر اور خود انسان کے اپنے دل و دماغ اور دست و پا پر اس کی حرکات وسکنات ہی کا نہیں، اس کے خیالات اور ارادوں تک کو ٹھیک ٹھیک ریکارڈ کر رکھا ہے۔

اخلاقی جدوجہد کا مقصود:
یہ ہے وہ جواب جو اسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔ یہ تصور کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو متعین کردیتا ہے جس کو پہچاننا انسانی سعی وعمل کا مقصود ہونا چاہیے اور وہ ہے خدا کی رضا! یہی وہ معیار ہے جس پر اسلام کے اخلاقی نظام میں کسی طرزعمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ خیر ہے یا شر۔ اس کے تعین سے اخلاق کو وہ محور مل جاتا ہے جس کے گرد پوری اخلاقی زندگی گھومتی ہے، اور اس کی حالت بے لنگر کے جہاز کی سی نہیں رہتی کہ ہوا کے جھونکے اور موجوں کے تھپیڑے اسے ہر طرف دوڑاتے پھریں۔ یہ تعین ایک مرکزی مقصد سامنے رکھ دیتا ہے جس کے لحاظ سے زندگی میں تمام اخلاقی صفات کی مناسب حدیں، مناسب جگہیں اور مناسب عملی صورتیں مقرر ہوجاتی ہیں اور ہمیں وہ مستقل اخلاقی قدریں ہاتھ لگ جاتی ہیں جو تمام بدلتے ہوئے حالات میں اپنے جگہ ثابت و قائم رہ سکیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے مقصود قرار پا جانے سے اخلاق کو ایک بلند ترین غایت مل جاتی ہے جس کی بدولت اخلاقی ارتقا کے امکانات لامتناعی ہوسکتے ہیں اور کسی مرحلہ پر بھی اغراض پرستیوں کی آلائشیں اس کو ملوث نہیں کرسکتیں۔

اخلاق کی پشت پر قوتِ نافذہ:
پھر اسلام کے اسی تصور کائنات و انسان میں وہ قوت نافذہ بھی موجود ہے جس کا قانون اخلاق کی پشت پر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے خدا کا خوف، آخرت کی باز پرس کا اندیشہ اور ابدی مستقبل کی خرابی کا خطرہ۔ اگرچہ اسلام ایک ایسی طاقتور رائےعامہ بھی تیار کرنا چاہتا ہے جو اجتماعی زندگی میں اشخاص اور گروہوں کو اصولِ اخلاق کی پابندی پر مجبور کرنے والی ہو۔ اور ایک ایسا سیاسی نظام بھی بنانا چاہتا ہے جس کا اقتدار اخلاقی قانون کو بزور نافذ کرے لیکن اس کا اصل اعتماد اس خارجی دباؤ پر نہیں ہے بلکہ اس اندرونی دباؤ پر ہے جو خدا اور آخرت کے عقیدے میں مضمر ہے۔ اخلاقی احکام دینے سے پہلے اسلام آدمی کے دل میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ تیرا معاملہ دراصل اس خدا کے ساتھ ہے جو ہر وقت ہر جگہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو دنیا بھر سے چھپ سکتا ہے مگر اس کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ دنیا محض تیرے ظاہر کو دیکھتی ہے مگر وہ تیری نیتوں اور ارادوں تک کو دیکھ لیتا ہے۔ دنیا کی تھوڑی سی زندگی میں تو چاہے جو کچھ کرے، بہرحال ایک دن تجھے مرنا ہے اور اس عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں وکالت، رشوت، سفارش، جھوٹی شہادت، دھوکا اور فریب کچھ نہ چل سکے گا، اور تیرے مستقبل کا بے لاگ فیصلہ ہوجائے گا۔ یہ عقیدہ بٹھا کر اسلام گویا ہر آدمی کے دل میں پولیس کی ایک چوکی بٹھا دیتا ہے جو اندر سے اس کو حکم کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے، خواہ باہر ان احکام کی پابندی کرانے والی کوئی پولیس، عدالت اور جیل موجود ہو یا نہ ہو۔ اسلام کے قانونِ اخلاق کی پشت پر اصل زور یہی ہے جو اسے نافذ کراتا ہے۔ رائے عامہ اور حکومت کی طاقت اس کی تائید میں موجود ہو تو نورعلی نور، ورنہ تنہا یہی ایمان مسلمان افراد، اور مسلمان قوم کو سیدھا چلا سکتا ہے، بشرطیکہ واقعی ایمان دلوں میں جاگزیں ہو۔

اسلام کا یہ تصور کائنات انسان کو وہ محرکات بھی فراہم کرتا ہے جو انسان کو قانونِ اخلاق کے مطابق عمل کرنے کےلیے ابھارتے ہیں۔ انسان کا اس بات پر راضی ہوجانا کہ وہ خدا کو اپنا خدا مانے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنائے اور اس کی رضا کو اپنا مقصد زندگی ٹھہرائے، یہ اس بات کے لیے کافی محرک ہے کہ جو شخص احکام الٰہی کی اطاعت کرے گا اس کے لیے ابدی زندگی میں ایک شاندار مستقبل یقینی ہے۔ خواہ دنیا کی اس عارضی زندگی میں اسے کتنی ہی مشکلات، نقصانات اور تکلیفوں سے دوچار ہونا پڑے۔ اور اس کے برعکس جو یہاں سے خدا کی نافرمانیاں کرتا ہوا جائے گا اسے ابدی سزا بھگتنی پڑے گی، چاہے دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ کیسے ہی مزے لوٹ لے۔ یہ امید اور یہ خوف کسی کے دل میں جاگزیں ہو تو اس کے دل میں اتنی زبردست قوت محرکہ موجود ہے کہ وہ اسے ایسے مواقع پر بھی نیکی پر ابھار سکتی ہے جہاں نیکی کا نتیجہ دنیا مییں سخت نقصان دہ نکلتا نظر آتا ہو اور ان مواقع پر بھی بدی سے دور رکھ سکتی ہے جہاں بدی نہایت پرلطف اور نفع بخش ہو۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام اپنا تصور کائنات، اپنا معیارِ خیر و شر، اپنا ماخذ علم اخلاق، اپنی قوتِ نافذہ اور اپنی قوتِ محرکہ الگ رکھتا ہے اور انھی چیزوں کے ذریعہ سے معروف اخلاقیات کے مواد کو اپنی قدروں کے مطابق ترتیب دے کر زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کرتا ہے۔ اسی بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اسلام اپنا ایک مکمل اور مستقل بالذات اخلاقی نظام رکھتا ہے۔

اس نظام کی امتیازی خصوصیات یوں تو بہت سی ہیں مگر ان میں تین سب سے نمایاں ہیں جنھیں اس کا خاص عطیہ کہا جاسکتا ہے۔

پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر اخلاق کے لیے ایک ایسا بلند معیار فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی ارتقاء کے امکانات کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ایک ماخذ علم مقرر کر کے اخلاق کو وہ پائیداری اور استقلال بخشتا ہے جس میں ترقی کی گنجائش تو ہے مگر تلون اور نیرنگی کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام خوفِ خدا کے ذریعہ سے اخلاق کو وہ قوتِ نافذہ دیتا ہے جو خارجی دباؤ کے بغیر انسان کے اندر خود بخود قانون اخلاق پر عمل کرنے کی رغبت اور آمادگی پیدا کرتی ہے۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کی اُپج سے کام لے کر کچھ نرالے اخلاقیات نہیں پیش کرتا اور نہ انسان کے معروف اخلاقیات میں سے بعض کو گھٹانے اور بعض کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انہی اخلاقیات کو لیتا ہے جو معروف ہیں اور ان میں سے چند کو نہیں بلکہ سب کو لیتا ہے۔ پھر زندگی میں پورے توازن اور تناسب کے ساتھ ایک ایک کا محل، مقام اور مصرف تجویز کرتا ہے اور ان کے انطباق کو اتنی وسعت دیتا ہے کہ انفرادی کردار، خانگی معاشرت، شہری زندگی، ملک، سیاست، معاشی کاروبار، بازار، مدرسہ، عدالت، پولیس لائن، چھاؤنی، میدان جنگ، صلح کانفرس، غرض زندگی کا کوئی پہلو اور شعبہ ایسا نہیں رہ جاتا جو اخلاق کے ہمہ گیر اثر سے بچ جائے۔ ہر جگہ، ہر شعبہ زندگی میں وہ اخلاق کو حکمران بناتا ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ معاملات زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کے بجائے اخلاق کے ہاتھوں میں ہوں۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت سے ایک ایسے نظام زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو معروف پر قائم اور منکر سے پاک ہو۔ اس کی دعوت یہ ہے کہ جن بھلائیوں کو انسانیت کے ضمیر نے ہمیشہ بھلا جانا ہے، آؤ انہیں قائم کریں اور پروان چڑھائیں اور جن برائیوں کو انسانیت ہمیشہ سے برا سمجھتی چلی آئی ہے، آؤ انہیں دبائیں اور مٹائیں۔ اس دعوت پر جنہوں نے لبیک کہا انھی کو جمع کر کے اس نے ایک امت بنائی جس کا نام "مسلم" تھا۔ اور ان کے ایک امت بنانے سے اس کی واحد غرض یہی تھی کہ وہ معروف کو جاری و قائم کرنے اور منکر کو دبانے اور مٹانے کے لیے منظم سعی کرے۔ اب اگر اسی امت کے ہاتھوں معروف دبے اور منکر قائم ہونے لگے تو یہ ماتم کی جگہ ہے خود اس امت کے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521167 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More