مسجد الحرام جزیرہ نما عرب کے
شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے جو سطح سمندر سے 330 میٹر کی بلندی پر واقع ہے،
مسجد حرام کی تعمیری تاریخ عہد حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام سے
تعلق رکھتی ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ واقع ہے جس کی طرف رخ کر
کے دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ نماز ادا کرتے ہیں۔ بیرونی و اندرونی
مقام عبادات کو ملا کر مسجد حرام کا کل رقبہ 3 لاکھ 56 ہزار 800 مربع میٹر
ہے۔
اہمیت
دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ مسجد الحرام میں قائم خانہ کعبہ کی جانب
رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں جبکہ یہ دنیا کا واحد مقام ہے جس کا حج کیا
جاتا ہے۔ یہ زمین پر قائم ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو
ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےحدیث مروی ہے کہ : ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوچھا کہ
زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : مسجد الحرام، میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سی؟ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد اقصیٰ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فرق ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : چالیس برس
تعمیری تاریخ
کعبہ جو کہ مشرق و مغرب میں سب مسلمانوں کا قبلہ ہے مسجد الحرام کے تقریباً
وسط میں قائم ہے جس کی بلندی تقریباً 15 میٹر ہے اور وہ ایک چوکور حجرہ کی
شکل میں بنایا گیا ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے
بنایا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
اور جبکہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس
شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع
کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا ( الحج آیت 26 ) ۔ وہب بن منبہ رحمت اللہ
تعالیٰ کا کہنا ہے: کعبہ کو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا پھر ان کے
بعد عمالقہ نے اور پھر جرہم اور ان کے بعد قصی بن کلاب نے بنایا، اور پھر
قریش کی تعمیر تو معروف ہی ہے۔ قریش کعبہ کی تعمیر وادی کے پتھروں سے کرنے
کے لئے ان پتھروں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے اور بیت اللہ کی بلندی 20
ہاتھ رکھی، کعبہ کی تعمیر اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے نزول
کا درمیانی وقفہ 5 برس اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے نکل کر
مدینہ جانے اور کعبہ کی تعمیر کی درمیانی مدت 15 برس تھی۔
جب قریشی قبائل اس کی بنیادیں اٹھا کر حجر اسود تک پہنچے تو ان میں اختلاف
پیدا ہوگیا کہ اسے کون اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھے گا حتیٰ کہ لڑائی تک جا
پہنچے تو وہ کہنے لگےکہ چلو ہم اپنا منصف اسے بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ صبح
جو سب سے پہلے یہاں داخل ہوگا وہ حجر اسود نصب کرے گا۔ اس پر سب کا اتفاق
ہوگیا۔
سب سے پہلے مسجد میں داخل ہونے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے جو
کہ اس وقت نوجوان تھے اور انہوں نے اپنے کندھوں پر دھاری دار چادر ڈال رکھی
تھی تو قریش نے انہیں اپنا فیصل مان لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے کپڑا منگوا کر حجر اسود اس میں رکھا اور ہر قبیلے کے سردار کو چادر
کے کونے پکڑ کر اٹھانے کا حکم دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر
اسود کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کردیا ۔
مسجد الحرام کی پہلی چار دیواری حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے639ء میں
بنائی تھی جبکہ 777ء میں مہدی کے دور میں مسجد کی تاریخ کی اس وقت کی سب سے
بڑی توسیع ہوئی تھی جس کے گرد 1576ء میں عثمانی ترکوں نے سفید گنبدوں والے
برآمدے بنائے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔ یہ چاردیواری بنانے کا سبب یہ تھا
کہ لوگوں نے مکانات بنا کر بیت اللہ کو تنگ کردیا اور اپنے گھروں کو اس کے
بالکل قریب کردیا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے: بلاشبہ
کعبہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور پھر گھر کے لئے صحن کا ہونا ضروری ہے تو
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان گھروں کو خرید کر منہدم کر کے اسے
بیت اللہ میں شامل کردیا۔ تو اس طرح مسجد کے اردگرد قد سے چھوٹی دیوار بنا
دی گئی جس پر چراغ رکھے جاتے تھے، اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے بھی کچھ اور گھر خریدے جس کی قیمت بھی بہت زیاد ادا کی، اور یہ بھی
کہا جاتا ہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسجد
کی توسیع کرتے وقت ایک ستون والے مکان بنائے۔ حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے مسجد کی توسیع نہیں بلکہ اس کی مرمت وغیرہ کروائی اور اس میں دروازے
زیادہ کیے اور پتھر کے ستون بنائے اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عبدالملک بن
مروان نے مسجد کی چاردیواری اونچی کروائی اور سمندر کے راستے مصر سے ستون
جدہ بھیجے اور جدہ سے اسے گاڑی پر رکھ کر مکہ مکرمہ پہنچایا اور حجاج بن
یوسف کو حکم دیا کہ وہ اسے وہاں لگائے۔ جب ولید بن عبدالملک مسند پر بیٹھا
تواس نے کعبہ کے تزئین میں اضافہ کیا اور پرنالہ اور چھت میں کچھ تبدیلی کی،
اور اسی طرح منصور اور اس کے بیٹے مہدی نے بھی مسجد کی تزئین آرائش کی۔
آجکل مسجد کے کل 112 چھوٹے بڑے دروازے ہیں جن میں سب سے پہلا اور مرکزی
دروازہ سعودی عرب کے پہلے فرمانروا شاہ عبدالعزیز کے نام پر موسوم ہے جس نے
تیل کی دولت دریافت ہونے کے بعد حاصل ہونے والی مالی آسودگی اور ذرائع
آمدرورفت مثلاً ہوائی جہازوں وغیرہ کی ایجاد سے ہونے والی آسانیوں سے
حاجیوں کی تعداد میں بےپناہ اضافے کے بعد مسجد حرام میں تعمیر و توسیع کا
ارادہ کیا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد شاہ سعود کے دور میں مسجد کی تاریخ کی
سب سے بڑی تعمیر شروع ہوئی اور سابق ترکی تعمیر کے برآمدوں کے پیچھے دو
منزلہ عمارت بنی۔ اس تعمیر میں مختلف دروازے بنائے گئے تو مسجد کے جنوب کی
طرف سے چار میں سے پہلا اور بڑا دروازہ بنایا گیا جس کا نام باب عبدالعزیز
رکھا گیا۔ دوسرا بڑا دروازہ باب الفتح ہے جو شمال مشرق میں مروہ کے قریب ہے
جہاں 12جنوری 630ء کو فتح مکہ کے دن اسلامی لشکر نبی پاک صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی زیر قیادت مسجد الحرام میں داخل ہوا۔ تیسرا بڑا دروازہ باب
العمرہ ہے جو شمال مغرب کی طرف ہے اور جہاں سے نبی پاک صلی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپریل 629ء میں عمرے کی سعادت حاصل کی تھی جبکہ چوتھا بڑا
دروازہ باب فہد ہے جو مغرب کی سمت ہے۔ ان کےعلاوہ مختلف واقعات اور مقامات
کی یاد میں مسجد کے دیگر دروازوں کے نام رکھے گئے ہیں۔ شاہ فہد بن
عبدالعزیز کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع 1993ء میں مکمل ہوئی ۔
مسجد الحرام میں کچھ دینی آثار بھی ہیں، جن میں مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس
پر ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر بیت اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے رہے،
اور اسی طرح مسجد میں زمزم کا کنواں بھی ہے جو ایسا چشمہ ہے جسےاللہ تعالیٰ
نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ہاجرہ کے لئے نکالا تھا۔ اور
اسی طرح یہ بھی نہیں بھولا جاسکتا کہ اس میں حجر اسود اور رکن یمانی بھی ہے
جو کہ جنت کے یاقوتوں میں سے دویاقوت ہیں جیسا کہ امام ترمذی اور امام احمد
رحمہ اللہ تعالیٰ نے حدیث بیان کی ہے: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے
ہوئے سنا : بلاشبہ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت
ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے نور اور روشنی کو ختم کردیا ہے اگر اللہ تعالیٰ
اس روشنی کو ختم نہ کرتا تو مشرق و مغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن
ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔
مسجد الحرام سے ملحق صفا اور مروہ کی پہاڑیاں بھی ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ
نےفرمایا : صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لئے بیت
اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں،
اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ قدر دان ہے اور انہیں خوب
جاننے والا ہے(البقرہ 158) ۔
اور مسجد الحرام کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے امن کا
گہوارہ بنایا ہے اور اس میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے، فرمان باری
تعالیٰ ہے: ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن و امان کی جگہ
بنائی، تم مقام ابراہیم کو جائےنماز مقرر کرلو، ہم نے ابراہیم اور اسماعیل
علیہما السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور رکوع
وسجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو (البقرہ 125 ) ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام
ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں
پر جو اس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیا ہے، اور جو کوئی
کفر کرے تو اللہ تعالیٰ ( اس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بےپرواہ ہے( آل عمران
97 )
اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسجد آج کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ عثمانی
دور میں مسجد تقریباً موجودہ صحن کے رقبے تک پھیل گئی۔ سب سےعظیم توسیع
سعودی دور حکومت میں ہوئی جس میں مسجد کو دور جدید کے معیارات کے مطابق
بنایا گیا اور ایئر کنڈیشنر اور برقی سیڑھیاں بھی نصب کی گئیں۔ اس وقت مسجد
کی تین منزلیں ہیں جن میں ہزاروں نمازی عبادت کرسکتے ہیں۔
امام
• سعود الشریم
• عبدالرحمن السدیس
مشہور دروازے
1- باب الملك عبد العزيز5- باب أجياد6- باب جلال9 - باب حنين 10- باب
إسماعيل
11- باب الصفا17- باب بني هاشم19- باب علي 20- باب العباس 22- باب النبي
24- باب الاسلام26- باب بني شيبه27- باب الحجون29- باب المعلاة 30- باب
المدعى
31- باب المروة37- باب المحصب38- باب عرفة39- باب منى 43- باب القرارة
45- باب الفتح49- باب عمر51- باب الندوة52- باب الشمامية55- باب القدس
56- باب المدينة58- باب الحديبية62- باب العمرة79- باب الملك فهد |