شب معراج ایک بہانہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت پر بلانا تھا

لاکھوں درود و سلام ہمارے پیارے نبی کریم محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر

“بے شک اللہ اور اسکے فرشتے نبی کرم (محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والوں تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو“

وہ سرور کشور رسالت، جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں، عرب کے مہمان کے لیے تھے

اللہ رب العزت اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جسمانی معراج کا زکر کرتے ہوئے سورت النجم میں فرماتا ہے:

ترجمہ:
“جو حسن مطلق ہے، پھر اس (جلوہ حسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا “

ترجمہ:
“اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج عالم مکاں کے ) سب سے اونچے کنارے پر تھے“

یعنی آقائے دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کے بلند کناروں سے ہوتے ہوئے عرش بریں پر جلوہ گر ہوئے کہ جبرائیل امین سدرتہ المتہٰی پر رک گئے مگر حضور پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھ گئے۔

ترجمہ:
“پھر وہ (رب العزت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا “

(نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور الہٰی کے قریب ہوئے یا نور کبریا حضور پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا)

بڑھ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریں ہو
احمد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قریب آسرور ممجد
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی، یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

ترجمہ:
“پھر جلوہ حق اور حبیب مکرم محمد صلی اللہ علیہ وآئہ وسلم میں صرف دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا ( یا انتئائے قرب میں) اس سے بھی کم ہو گیا“

اس آیت کریمہ میں حبیب کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نور رب العالمین میں انتہائی قرب بتانا مقصود ہے۔ اہل عرب انتہائی نزدیکی بیان کرتے ہیں تو یہ ہی کہا کرتے ہیں کہ دو کمانوں یا دو ہاتھوں تک پہنچ گیا

صوفیا فرماتے ہیں کہ جب کسی کو آغوش محبت میں لینا ہوتا ہے تو دونوں ہاتھوں کی کمانیں ملا کر دائرہ بنا لیتے ہیں اور بیچ میں محبوب کو لے کر گلے لگا لیتے ہیں۔ یعنی رحمت الہٰی نے اپنے کو اپنی آغوش میں لے کر ایسا گلے لگایا جیسے پیارا، پیارے سے گلے ملتا ہے یا جیسے دائرہ مرکز کو اپنے میں لے لیتا ہے۔ خیال رہے کہ دو کمانوں کے ملنے سے دائرہ بن جاتا ہے۔ اس وقت نظارہ یہ تھا کہ چہار طرف رحمت خدا اور نور خدا، درمیان میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔

ترجمہ :
پس (اس خاص مقام قرب و وصال پر) اس نےاپنے عبد (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی“

یعنی معراج کی رات اس قرب خاص میں جبرائیل امین کے واسطے کے بغیر رب تعالٰی نے اپنے حبیب مکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ خاص باتیں کیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں۔

صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرب خاص میں اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارے علوم غیبیہ بخشے، اس کی تائید حدیث شریف سے ہوتی ہے

ترجمہ : (ان کے ) دل نے اس کے خلاف نہیں جانا جو (ان کی ) آنکھوں نے دیکھا“

آقائے دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ نے رب کا جمال دیکھا اور دل نے تصدیق کردی کہ واقعی صحیح دیکھا، کوئی غلطی نہ ہوئی۔ اگر حضور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط دل سے دیکھا ہوتا تو دل اس کا مصدق نہ ہوتا کیونکہ دیکھنے والا اور ہوتا ہے اور تصدیق کرنے والا دوسرا ہوتا ہے۔ نیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی نہ آئی بلکہ آنکھوں سے ٹکٹکی باندھ کر دیدار کیا۔ ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے کلام الہٰی سمجھتا رہا اور آنکھ تصدیق کرتا رہا۔

اور کوئی غیب کیا نہاں ہو گا بھلا تجھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے
جب خدا ہی نہ چھپا، تم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کروڑوں سلام

ترجمہ:
“کیا تم ان سے اس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا“

اس آیت مبارکہ میں مشرکین اور منکرین حق سے خطاب ہے کہ تم نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جسمانی معراج اور دیدار الہٰی کا انکار کیوں کرتے ہو۔ رب دے اور بندہ ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) لے تم جلنے والے کون ہو۔ یہ تو قادر مطلق کی قدرت ہے۔ یہ پاک رب کی شان بے نیازی ہے۔

تبارک اللہ شان تیری، تجھی کو زیبا ہے بے نیازی!
کہیں تو وہ جوش لن ترانی، کہیں تقاضے وصال کے تھے۔

(بحوالہ : تفسیر نور العرفان)۔

اللہ سے دعا ہے کہ اس شوق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو بھی کمی بیش ہو گئی ہو اللہ عزوجل اس کو درگزر فرمائے اور ہمارے ایمان میں اور ہمارے اعمال میں برکتیں عطا فرمائے کہ کل جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوجائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دیکھ کر چہرہ مبارک نہ پھیر بیٹھیں اور کاش اللہ ہمارے اعمال بد کا پردہ فرمائے تاکہ ہمارے نبی کریم ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم عاصی و گناہ گاروں کی وجہ سے زرا بھی دلی تکلیف نہ ہو۔ یہ نیا پار لگانا صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اللہ بے شک جانتا ہے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتنی محبت کرتے ہیں اور کاش ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے بن جائیں کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد کا خاتمہ ہو اور اسلام پر زندگی نصیب ہو اور خاتمہ بھی ایمان پر ہو اے کاش آمین یا رب العالمین آمین
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533399 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.