تاریخ میں ایسی بہت ساری جنگیں ملتی ہیں جن میں غیر
معمولی حد تک قتل وغارت کا بازار گرم ہوا۔ ان میں سے بعض واقعات واقعہ
کربلا سے کہیں بڑھ کر ہولناک تر اور وسعت کے لحاظ سے بڑے تھے ان واقعات میں
شہدائے کربلا سے کئی گنا زیادہ افراد کو خون میں نہلایا گیا۔
جناب "ابن ابی الحدید" اپنی شرح میں چنگیزیوں اور تاتاریوں کے قتل و غارت
کے بارے میں لکھتے ہیں "میں مغلوں کے دور میں موجود تھا اور میں نے ان کے
مظالم کو قریب سے دیکھا ہے قدس اور فلسطین میں بُختُ النصر کے مظالم کے
بارے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خونخوار مغلوں کے قتل و غارت اور ان کے مظالم
کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں"۔ تاریخ جھانگشای جوینی میں ہے کہ"بعض جنگوں
میں جب ایک گروہ دوسرے گروہ پر کامیابی حاصل کرتا تھا تو اپنی فتح کے اعلان
کے لئے مغلوب گروہ کے رہبروں کے بدن کو تمثیل کرتا تھا یعنی ان کے جسموں کو
ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا تھا۔
سر کو جدا کرکے تبریز، ہاتھوں کو اصفہان اور پاؤں کو شیراز لے جاتے تھے اور
طنزاً کہتے تھے۔ "فی الجملہ ایک ہفتہ میں ہم دنیا کے مالک بن گئے" بعض
اوقات قتل ہونے والوں کے سر کو بدن سے جدا کرکے سر کی کھال اتار کر اس میں
کانا پھوس بھر دیتے تھے اور سر کو نیزے پر چڑھا کر گلی کوچوں میں پھراتے
تھے۔ اصفہان میں دو مذہبی فرقوں کے گروہوں میں اختلاف کی وجہ سے جنگ چھڑ
گئی ان متحارب گروہوں کی لڑائی کے وقت مغل اصفہان کے قریب پہنچ چکے تھے
لیکن شہر کا دروازہ بند تھا اور شہر میں داخل ہونا ممکن نہیں تھا۔
متحارب گروہوں میں سے ایک گروہ نے مغلوں کے ساتھ صلح کرلی تاکہ ان کے ساتھ
مل کر دوسرے گروہ کو مزا چکھا سکیں لیکن جب مغلوں کے لئے شہر کا دروازہ
کھولا گیا تو مغلوں نے دونوں گروہوں میں سے کسی ایک گروہ پر بھی رحم نہ کیا
اور سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ غرض یہ کہ غیر معمولی قتل و غارت وقوع
پذیر ہوئی ہے جو تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے لیکن یہ تمام جنگیں اور مظالم
کی داستانیں تاریخ کی کتابوں میں دفن ہوکر رہ گئی ہیں۔ محققین کا فرض ہے کہ
وہ نبش تاریخ کریں تاکہ ان جنگوں کے تاریک پہلو واضح ہوسکیں اور یہ جانا
جاسکے کہ گزشتہ صدیوں میں اس زمین پر کیا کیا گزرا۔
مقتول افراد کا صرف مظلوم ہونا انہیں ہمیشہ کے لئے یادوں میں محفوظ رکھنے
کا باعث نہیں بنتا تاریخ کے بہت سارے مظلوم اور ستم دیدہ افراد فراموش کئے
جاچکے ہیں۔
اور اب ان میں سے کسی ایک کا بھی نام باقی نہیں ہے جو کوئی بھی صرف اپنی
سرحدوں کو وسعت دینے اور غیر خدائی اہداف کے لئے لڑتا ہے وہ تاریخ میں دفن
ہوجاتا ہے۔ صرف ایک ایسا واقعہ جو انگوٹھی میں نگینے کی طرح تاریخ کے ماتھے
پر چمک رہا ہے اور جو جہاد و اجتہاد اور قیام و اقدام کے آسمان کی حیثیت
رکھتا ہے وہ صرف واقعہ عاشورہ ہی ہے۔ اس لئے کہ سید الشہداء نے دین خدا کے
لئے قیام کیا اور دین "حی لا یموت ہے" دین کو زندہ کرنے والا نیز کبھی بھی
نہیں مرتا اور اس کا نام ہمیشہ کے لئے دنیا کے نقشے پر رقم ہے۔ واقعہ کربلا
یعنی امام حسین رض اور آپ کے اصحاب کی شہادت کے بعد اموی یہ سوچ رہے تھے کہ
اب اسلام نابود ہوگیا ہے اور اب اسلام کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ یزید نے
اپنی اس خام سوچ پر خوش ہوتے ہوئے دین کی نابودی پر اس طرح اظہار کیا:
لعبت ہاشم بالملک فلا
خبر جاء ولا وحی نزل
یعنی دین اور حکومت بنی ہاشم کا رچایا ہوا ڈھونگ تھا اور اب ایک افسانہ سے
بڑھ کر اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ نہ وحی نازل ہوئی اور نہ کوئی خبر آئی
لیکن حضرت سجاد اور حضرتب بی بی زینب کبریٰ کے انقلابی خطبات کے بعد بنی
امیہ کی بیہودہ سوچ دفن ہوگئی اور دین کو حیات جاوید مل گئی۔
بی بی زینب کبریٰ دربار شام میں بنی امیہ سے یوں مخاطب ہوئیں: "اللہ کی
قسم! ہر حیلہ حربہ آزمالو لیکن تم ہماری یاد اور نام کو نہیں مٹا سکتے"۔ یہ
بات اس وقت کہی گئی جب بنی امیہ کے اقتدار کا طوطی بول رہا تھا۔ اس دور میں
مڈل ایشیا کے اکثر علاقوں کے علاوہ یورپ کے کچھ علاقے بنی امیہ کی حکومت کے
زیر تسلط تھے اور یہ تمام علاقے یزید کو ٹیکس ادا کرتے تھے۔ دو بڑی قوتیں
ایران اور روم زوال کا شکار ہوکر مسلمانوں کے زیر تسلط آئی ہوئی تھیں۔ بنی
امیہ اکیلے پوری دنیا کے حاکم تھے۔ بی بی زینب نے اس طرح کی طاقت کے سامنے
اس انداز میں بات کی: "فکد کیدک و أسع سعیک و ناصب جھدک فو اللہ لا تمحو
ذکرنا ولا تمیت وحینا۔
جس وقت اسیران کربلا شام کے مرکزی دروازے پر پہنچے تو ایک شخص نے حضرت سجاد
سے پوچھا: کربلا کی جنگ میں کون جیتا؟ اس بلند ہمت امام نے جواب میں
فرمایا: اس چیز کے بارے میں جاننے کے لئے اذان و اقامت کے وقت دیکھنا کہ کس
کا نام لیتے ہو۔ "اذ اردت أن تعلم من غلب و دخل وقت الصلوۃ فأذّن ثمّ أقم۔"
جب تک روئے زمین پر تکبیر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی تب تک امام عالی
مقام کا نام بھی بلند رہے گااس لیے کہ آپ نے اللہ کی راہ میں اپنی جان
نچھاور کی اور اللہ کے دین کو زندہ کیا اللہ کے دین کو زندہ کرنے والا کبھی
بھی نہیں مرتا۔ |