قیام انبیاء علیہم السلام کے بعد قیام امام حسین نے
کائنات کو سمجھا دیا کہ نظام حق کون سا ہے اور نظام باطل کون سا ہے امام
عالی مقام نے یہ بات سمجھانے کے لیے دیکھا کہ خون پیش کرنے اور اولاد، مال
اور جان کی قربانی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے کہ بنی امیہ کی
جاہلیت کی گہرائیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ فقط تقریر اور خط لکھ کر اس مطلب
کو حل کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ واضح سی بات ہے کہ جب مطلب بہت ہی ضروری اور
عمیق ہو تو شہادت کے استقبال کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اسی وجہ سے امام
حسین نے رسول گرامی اسلام کی مقدس ذات سے یہ لائحہ عمل دریافت کیا کہ
موجودہ شرائط میں قید و بند اور شہادتوں کے سلسلہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ
دین جو فراموش کیا جا رہا ہے اس کا احیاء کیا جاسکے۔ امام عالی مقام نے
ایسے حالات میں قیام کیا۔
حضرت امام حسین مناسب مواقع پر آیات قرآنی پڑھتے رہے اور ان آیات کی تلاوت
کا مقصد ایک تو یہ تھا کہ دوسروں کے خلاف احتجاج کیا جائے اور دوسرا اپنے
ساتھیوں کے لیے اپنے موقف کو واضح کرنا تھا یا دوسرے لفظوں میں تلاوت آیات
کے ذریعے دشمنوں کے خلاف احتجاج اور ظلم و بربریت پر مشتمل نظام کے خلاف
ایک واضح حجت اور دلیل قائم کرنا مقصود تھا اور اپنے اصحاب کے لیے مقصد
قیام کو بہترین انداز میں بیان کرنا پیش نظر تھا۔ امام قرآن کو واضح اور
روشن کرنے والے اور اس کے بہترین مفسر ہونے کے ساتھ ساتھ آیت {وجا دلہم
بالتی ہی أحسن ترجمہ:اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔ کی روشنی میں اپنے
مخالف کے خلاف احتجاج و استدلال کرتے تھے۔
امام عالی مقام کبھی اس آیت کی تلاوت کرتے تھے: وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ
كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لأنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي
لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ} ترجمہ: اور کافر
لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے
ہم تو انہیں صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنے گناہوں میں اور
اضافہ کرلیں، آخرکار ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔ اسی آیت کو حضرت
زینب کبریٰ نے بھی کوفہ کے دربار میں اور شام کے بازار میں تلاوت کیا اور
اس کےذریعے احتجاج و استدلال فرمایا۔ مزید آپ نے اس آیت کی تلاوت
فرمائی:مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ
عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِترجمہ: اللہ مومنوں کو
اس حال میں رہنے نہیں دے گا جس حالت میں اب تم لوگ ہو جب تک پاک لوگوں کو
ناپاک لوگوں سے الگ نہ کردے۔
یعنی صلح و آشتی اور سکون و آرام کے وقت تو پاکیزہ اور غیر پاکیزہ اکھٹے
ہوتے ہیں اور باہم زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں لیکن جنگ کے وقت پاکیزہ اور
غیر پاکیزہ جدا جدا ہوجاتے ہیں۔ امام حسین نے فرمایا: میں نے قیام کیا تاکہ
پاکیزہ لوگ غیر پاکیزہ سے جدا ہوجائیں اس لیے کہ جب تک آزمائش نہ ہوجائے تو
آزاد و غیر آزاد، اعلی و ادنی اکٹھے ہوتے ہیں یہ امتحان کی خصوصیت ہے کہ جو
پاکیزہ کو غیر پاکیزہ سے اور حق کو باطل سے جدا کردیتا ہے۔ پس امام عالی
مقام کی ذات خداوند متعال کے امتحان کا ذریعہ ہے۔ خدا ان کے ذریعے پاکیزہ
کو غیر پاکیزہ سے جدا کرتا ہے اس لیے کہ امام کی ذات، میزان الاعمال، شجرہ
طوبیٰ اور حق ہے۔ عقائد ، اوصاف اور اعمال کا حق کے ساتھ موازنہ کرنا چاہیے
یعنی امام کا عقیدہ جو کہ حق ہے دوسروں کے عقائد کو تولنے کا میزان ہے اسی
طرح امام کے اوصاف اور اعمال کو تولنے کا میزان ہیں۔
قیامت کے حتمی اور یقینی امور میں سے ایک عقائد، اخلاق ، اعمال اور اقوال
چاہے انفرادی ہوں، چاہے اجتماعی ہوں سب کا تولا جانا ہے۔ وزن کرنے کے لیے
تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے اگرچہ بعض کا آپس میں متحد ہوجانا قابل قبول
امر ہے۔ ۱۔ وزن، ۲۔ موزون (تلنے والی چیز) ۳۔ میزان یعنی ایسا ترازو کہ جس
کے ایک پلڑے میں وزن کو رکھا جاتا ہے اور دوسرے پلڑے میں جس چیز کو تولنا
مقصود ہوتا ہے اسے رکھا جاتا ہے اس طرح وزن اور موزون کو اس ترازو کے پرکھا
جاتا ہے۔
روز قیامت ترازو کے ایک پلڑے پر جو وزن رکھا جائے گا اس کا نام حق ہے یعنی
عقائد، اخلاق، اعمال اور اقوال کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور
دوسرے پلڑے میں حق کو رکھا جائے گا پھر ان کا وزن کیا جائے گا۔
قرآن کریم میں آیا ہے: الوزن یموئذٍ الحق ترجمہ: اور اس دن (اعمال کا)
تولنا برحق ہوگا۔
قرآن میں اس طرح نہیں آیا "و الوزن یومئذ حق" یعنی خدا نے نہیں کہا کہ
قیامت میں ایک وزن ہے بلکہ کہا ہے: قیامت کے دن وزن، حق ہوگا۔ عقیدہ وہ چیز
ہے جسے تولا جانا ہے اسے وزن جو کہ حق ہے کے ساتھ تولا جائے گا۔
عقیدہ آٹے کی طرح نہیں کہ جس کا تولوں کے ساتھ وزن کیا جائے اور نہ ہی
عقیدہ کپڑے کی طرح ہے جس کا میٹر سے ناپ تول کیا جائے، عقیدہ نہ ہی حرارت
بدن کی طرح ہے کہ جس کا درجہ حرارت کے آلے کے ذریعے وزن کیا جائے ، نہ ہی
پانی و ہوا کے دباؤ کی طرح ہے کہ جس کا دباؤ کے آلے کے ذریعے دباؤ کا درجہ
معلوم کیا جائے اور نہ ہی شعر کی طرح ہے کہ جس کا عروض اور قافیہ کے ذریعے
وزن معلوم کیا جائے اسی وجہ سے خداوند متعال نے فرمایا: {والوزن یومئذ الحق}
ترجمہ: قیامت کے دن وزن حق ہے۔ عقیدہ، اخلاق اور گفتار و رفتار وہ چیزیں
ہین جن کو تولا جائے گا۔ ۔ |