جہاد کے لغوی معنی جدوجہد کرنا کوشش کرنا - جہاد حصہ ١

بسمہ اللہ الرحٰمن الرحیم۔

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


اَلۡحَمدُ لِلہِ الّذِیۡ ھَدَانَا لِھَذَا وَ ماَ کُنِّا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہُ
والصَلٰوۃ وَ السلام علی من ارسلہ با الھُدایٰ ودِینَ الۡحَق۔

ہمارے ایک محترم جناب سلیم اللہ شیخ صاحب جن سے ہمارے مکالمے چلتے رہتے ہیں اور جو بظاہر کافی جھگڑالو قسم کے واقع ہوتے ہیں مگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ان موضوعات میں سے کچھ مواد اور کچھھ باتیں ایسی ہوتیں ہیں جن سے عقل و شعور کے در وا ہوتے ہیں اور حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے۔

چنانچہ بھائی محترم کی ہدایات کی روشنی میں اللہ عزوجل نے توفیق بخشی کہ اسلام کے انتہائی اہم رکن یعنی جہاد کے موضوع پر بھی کچھ فکری اور علمی محنت کی جاسکے۔ (اللہ مجھے بھی جھاد بالنفس، جہاد فی السبیل اللہ اور جہاد بالسنان ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے) اور اللہ ہماری کاوشوں کو قبول و منظور اور ہماری کوتاہیوں اور نادانیوں کو درگزر فرمائے۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ جو میں نے جہاد کے موضوع پر مختلف تحریروں کو پڑھا ان میں سے چند ایک میں سے چیدہ چیدہ باتیں پیش خدمت ہیں اور باقی بھی جن بھائی کو معلومات مہیا ہوں وہ بھی ہمارے ساتھ شیئر کرتا چلے تاکہ کلی طور پر کوئی بات تشنہ نا رہ جائے۔ باقی اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے اعمال صالحہ میں ان چند کوششوں کو شامل کرکے ہمارے شکستہ نامہ اعمال کا وزن اپنی شان کے طفیل و صدقے میں بڑھا دے کہ اس سے بڑھ کر ہمارے لیے کیا باقی رہ جائے گا کہ ہمارے نامہ اعمال میں مطلقا اللہ عزوجل کی مہربانی سے کچھ وزن پڑ جائے وگرنہ ہمارے اعمال کی جو حقیقت ہے وہ ہمارے پیش نظر ہے اور ہمارے اعمال کا پردہ اللہ ہی رکھے تو بہتر ہے وگرنہ میں کیا اور میری اوقات کیا۔

جہاد

جہاد اسلام کے فرائض میں نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ کی طرح اسلام کا پانچواں فرض ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ الجہاد ماض الی یوم القیامۃ یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک۔

قرآن و سنّت کی بے شمار نصوص اور اجماع امت جہاد کی فرضیت کا اعلان کر رہے ہیں۔

جہاد کے معنی و مفہوم
جہاد کے معنی لغت میں کسی کام کے لیے اپنی پوری کوشش اور توانائی خرچ کرنے کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور دشمن کی مدافعت کرنے میں جان، مال، زبان، قلم کی پوری طاقت خرچ کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے۔ (جو کہ جدوجہد سے نکلا ہے)۔

امامِ راغب اصفہانی نے لفظِ جہاد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جہاد کی تین قسمیں ہیں

ایک کھلے دشمن کا مقابلہ
دوسرے شیطان اوراس کے پیدا کیے ہوئے خیالات کا مقابلہ
تیسرے خود اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ

مطلب یہ ہے کہ جو چیز بھی اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے راستہ میں رکاوٹ ہے، اس کی مدافعت جہاد ہے اور یہ رکاوٹ عادتاً انہیں تین طرفوں سے ہوتی ہے۔ اس لیے جہاد کی تین قسمیں ہوگئیں۔

امامِ راغب نے یہ تین قسمیں بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ارشادِ قرآنی ہے۔

وَ جاَھِدُوۡفیِ اللہِ حَقَّ جِہَادِہ (یعنی جہاد کرو اللہ کی راہ میں پورا جہاد)۔

یہ جہاد کی تینوں قسموں کو شامل ہے ۔

بعض روایات حدیث میں نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ اسی لیے جہاد قرار دیا ہے۔

قرآنِ کریم کی کئی آیتوں میں جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد فرمایا ہے

۔وَتجاھِدُوۡنَ فیِۡ سبیلِ اللہِ بِاَموَالِکمُ ۡ وَاَنفسکم کا بھی یہی مطلب ہے

اور رسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمّ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غازی کو سامانِ جہاد دے دیا اس نے بھی جہاد کرلیا۔

اور ایک حدیث میں زبان کے جہاد کو بھی جہاد قرار دیا ہے۔ اور قلم چونکہ ادائے مضمون میں زبان ہی کے حکم میں ہے، اس لیے قلمی دفاع کو علماء اُمّت نے جہاد میں شامل فرمایا ہے۔

مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ لفظِ جہاد اصطلاحِ شرع میں اللہ کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کے مقابلہ اور مدافعت کے لیے عام معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر ( روایتاً ) عرفِ عام میں جب لفظِ جہاد بولا جاتا ہے توعموماً اس کے معنی دشمنانِ دین کے مقابلہ میں جنگ ہی سمجھ لیے جاتے ہیں ( حالانکہ ) جس کے لیے قرآنِ کریم نے لفظِ قتال یا مقاتلہ استعمال فرمایا ہے ۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.