جہاد اخلاص کے ساتھ اور لوازمات - جہاد حصہ ٢

جہاد بھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے چنانچہ پیش نظر یہ رکھنا چاہیے کہ عبادات کا ثواب جب ہی کسی کو ملتا ہے جب کہ اس کی نیّت خالص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرماں برداری اور رضا جوئی کی ہو ۔ دنیا کا مال ومتاع یا جاہ و منصب مقصود نہ ہو، ورنہ اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ ریاء ہے جو بجائے ثواب کے گناہِ عظیم ہے۔

وہ عالم جو دنیا کی شہرت اور نام و نمود کے لیےعلمی خدمات انجام دیتا ہے یا وہ غازی جو جہاد میں شہرت و انعام کی خاطر جانبازی کرتا اور شہید ہو جاتا ہے۔ اور وہ شخص جو نام و نمود کے لیے دینی خدمات میں بڑی فیاضی سے مال خرچ کرتا ہے ۔

ان تینوں کے متعلق صحیح حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کو یہ کہہ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا کہ تو نے جس مقصد کے لیے علمِ دین کو استعمال کیا یا جس مقصد کے لیے جان دی، یا جس مقصد کےلیے مال خرچ کیا، وہ مقصد ہم نے تجھے دنیا میں عطا کر دیا کہ لوگوں میں تیرے عالم، ماہر ہونے کی شہرت ہوئی، یا تجھے غازی اور شہید کے نام سے پکارا گیا، یا مال خرچ کرنے کی بناء پر تجھے سخی اور فیاض کہا گیا۔ اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟العیاذبا للہ!

جہاد فی القتال کی میدان میں اُترنے والے حضرات کے لیے نہایت اہم ضرورت اس کی ہے کہ رسو لِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد ِِِِ مذکور کو ہر وقت سامنے رکھیں اور جہاد میں اخلاص کے ساتھ صرف یہ نیّت کریں کہ اللہ کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور دشمنانِِ دین کی مدافعت کرنا ہے۔ دنیا کے ثمرات و نتائج اور انعامات بھی اللہ تعالیٰ ان کو عطا فرمائیں گے۔ مگر جہاد کے وقت ان چیزں کو اپنے دل میں نہ آنے دیں ۔ وَاللہ الموفق وا لمعین

جہاد کے سامان میں صبر و تقویٰ کی اہمیت

اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ( .177بقرہ ع 22 )

ترجمہ :۔ نیکوکار وہ لوگ ہیں جو تنگ دستی اور بیماری میں اور دشمنوں سے جہاد کے وقت صبر کرنے والے یعنی ثابتِ قدم رہنے والے ہیں یہی لوگ صادقین ہیں اور یہی متقی ہیں

قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (250 بقرہ ع 33 )

ترجمہ :۔ ( جہاد میں نکلنے والوں نے کہا ) اے ہمارے پروردگار عطا کر دے ہم کو صبر اور ہمیں ثابتِ قدم رکھ اور کافروں کی قوم کے مقابلہ پر ہماری مدد فرما ۔

وَاِنۡ تصبرو او تتقو ا لا یضر کم کیدھم شیاً ،(آل عمران ع13)

ترجمہ:۔اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی کوئی جنگی تدبیر تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی۔

بلیٰ اِنۡ تصبرُوۡاوَتتقوۡاوَیاۡتوۡکمۡ منۡ فوۡرِھِمۡ ھذَایمدِدۡکمۡ رَبکمۡ بخمسۃِ اٰلاَفٍ منۡ الملئکۃُ مسوِّ مینَ،

ترجمہ:۔ بےشبہ اگر تم نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا اور دشمن فوراً ہی تم پر ہی ٹوٹ پڑے تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار نشانہ کرنیوالے فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔

وان تصبرو اوتتقو ا فاِ نَ ذٰ لک من عزم ا لا موۡرِ ، ( آل عمران ع 9 )

ترجمہ :۔ اور اگر تم نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا تو یہی ہمت کے کام ہیں ۔

یاایھا الذین اٰمنو ا اصبروا وصابروا ورابطو واتقو ا اللہ لعلکم تفلحون ( آل عمرن ختم )

ترجمہ:۔ اے ایمان والوں صبر کرو یعنی ثابت قدم رہو اور دوسروں کو بھی ثابت قدم رکھو اور دل لگائے رہو عبادت میں تاکہ تم فلاح و کامیابی حاصل کرو۔

وَقالَ موۡ سیٰ لقوۡمہ ا ستعینوۡ ا با للہِ وا صبرۡوۡا انَ الا رۡض للہ یورِۡ ثھا من یشاء من عبا د ہ والعاَ قبۃُ للمتقینَ،(اعراف،15)

ترجمہ:۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ سے مدد مانگو اور ثابت قدم رہو َ۔ بے شبہ زمین اللہ ہی کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہے اس کا مالک و وارث بنا دے اور انجام کار کامیابی تقویٰ شعار لوگوں کی ہی ہے۔

و تمت کلمۃ ر بک الحسنیٰ علےٰ بنیۡ اسرَ ا ئیلَ بما صبررُوۡ او دمر ناَ ماَ کاَنَ یصنعُ فرعونَ وَ قومہ وماَ کاَ نوُ ایعر شوۡنَ۔(اعراف ع16)

ترجمہ:۔ اور اپنے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پر واختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے، سب کو درہم برہم کر دیا ۔

اِنہ منۡ یتقِ وَ یصبرۡ فاِ نّ اللہَ لاَ یضیعُ اَجرَ المحسنینَ،

تر جمہ:۔ اس لیے کہ جو شخص صبر اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالٰی ایسے نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔

قرآن کر یم کی یہ دس آیتیں ہیں۔ ان کو پڑھیے اور بار بار پڑھیے۔ ان میں انسان کے تمام اہم مقاصد خصوصاً جہاد اور دشمنوں کے مقابلہ میں اللہ تعالٰی کی غیبی تائید اور نصرت و امداد حاصل کرنے کا نسخہ بتلایا گیا ہے۔ اس نسخہ کے دو تین اجزاء آپ کو ان سب آیات میں مشترک نظر آئیں گے ۔

صبر، تقویٰ، نماز۔

ان آیات میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ابتدائے آفر ینَش عالم سے اللہ تعالٰی کا یہی دستور رہا ہے کہ اس کی تائید ونصرت ان ہی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو ایمان کے ساتھ نماز اور صبر و تقویٰ کے پابند ہوں۔

نماز کا مفہوم اور اس کی اہمیت تو سب ہی مسلمان جانتے ہیں۔ صبر کا لفظ عربی زبان میں ہماری زبان کے عرفی معنی سے بہت عام معنی رکھتا ہے۔ عربی زبان میں صبر کے عام معنی روکنے کے ہیں۔ اور قرآن کی اصطلاح میں نفس کو اس کی بری خواہشات سے روکنے کے ہیں اور قابو میں رکھ کر ثابت قدم رہنے کے ہیں۔

اور تقویٰ کا ترجمہ پرہیزگاری کیا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت وفرماں برداری کا نام تقویٰ ہے ۔

اسلامی تاریخ کے قرن اوّل میں جو چیزیں مسلمانوں کا شعار اور طرہ امتیاز تھیں وہ یہی نماز اور صبر اور تقویٰ ہیں اسی کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی نے انہیں ہر میدان میں فتح مبین اور کامیابی عطا فرمائی ۔ آج بھی اگر ہم اس اصول پر کاربند ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں کی امداد ہم سے کچھ دور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ،

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533449 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.