اسلام اور جدت پسندی

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور تمام انسانیت کو سلامتی، عروج، امن و عالمی بھائی چارہ کی کھلی دعوت دیتا ہے۔ یہ خود سند و حجت ہے، جبکہ نا تو کسی مخصوص مکتبہ فکر اور مخصوص شعبہ زندگی کا مرہون منت ہے کہ اس کے پیمانے پہ پورا اترے اور نا ہی اسے ہم اپنی کم علمی اور محدود سوچ کا پابند کر سکتے ہیں۔ تمام الہامی ذرائع ایک اٹل حقیقت بیان کر گئے ہیں جو تبدیل نہیں ہو سکتی مگر انسان ابھی شعوری بالیدگی کے عمل سے گزر رہا ہے اور عقلِ کل نہیں بنا، لہٰذا جب انسانی ذہن اپنی خود ساختہ حد بندیاں توڑ کر آگے کی طرف بڑھتا ہے تو اسے روشنی کی نئی دنیائیں اور سوچوں کے نئے زاویے اور رابطے (Angles & Channels) دریافت ہوتے ہیں جبکہ الہامی باتیں ازل سے انتہا تک کی خبر دیتی ہیں۔ کچھ لوگ جو فقط علمی اور فلسفیانہ جھمیلوں میں پڑے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ الہامی اور مذہبی علم کے آگے عقل کو استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ دھوکا کھا جاتی ہے۔ انکی خدمت میں عرض ہے کہ علم کسی بھی لمحے کے لیے محدود نہیں کردیا گیا، بلکہ ابھی تک کن فیکون کی صدا آ رہی ہے اور کائنات جو کہ مسلسل پھیل رہی ہے اور اپنے مرکز ( Zero Point ) سے دور ہوتی جارہی ہے جبکہ ہر لمحہ ہم ایک نئی جگہ پہ دریافت ہوتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں عقل جیسے انعام سے نوازا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ حقیقت سے کروا دیتا ہے، لہذا علم کے باعث عقل کو وہ ترو تازگی حاصل ہوتی ہے جو کہ کائنات کے اس پھیلاﺅ سے ہم آہنگی اور سنت خداوندی سے روشناس کرواتی ہے اور ایک محدود ذہن کو وسعت دیتی ہے۔ اگر ایک لمحہ کیلئے مان لیا جائے کہ جدت سے ہماری درشتگی اپنی جگہ پہ درست ہے اور عقل کو پس پشت ڈال دیں ، تو پھر ہم بلب، ٹیوب لائٹ، فریج، ایرکنڈیشن، گاڑی، الیکٹرانکس آلات، ہوائی جہاز، سمندری جہاز، ٹیلی فون، موبائل، کمپیوٹر وغیرہ وغیرہ جو کہ بنی نوع انسانیت کیلئے ناگزیر ہو چکے ہیں ان کو اپنی زندگی میں شامل کیوں کرتے ہیں؟

ع ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے؛ ”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ( ہر حال میں ) اللہ کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ( اور کہتے ) ہیں کہ اے پرور د گار تو نے اِس( مخلوق ) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ تُو پاک ہے، تو ( قیامت کے دن ) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو“ ( آل عمران آیت:190-191 )

”اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے اور ہر طرح کے میوں کی دو دو قسمیں بنائیں وہ رات کو دن کا لباس پہناتا ہے۔ غور کرنے والوں کیلئے ان میں بہت سی نشانیاں ہیں“ (سورت الرعد آیت:3)

” وہ جس کو چاہتا ہے، دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑ ی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں“ (سورت البقرہ آیت: 2 69 )

یعنی قرآن پکار پکار کر عقل استعمال کرنے کو کہہ رہا ہے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور فکر کی کھلی دعوت دے رہا ہے۔ اور اسی کے باعث زندگی میں تسلسل، اور عروج حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ انسان کی ترقی کے مدارج بھی یہی ہیں اور انہیں اعمال کے باعث انسان دائمی سکون، خوشی اور صحت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ قدرت نے کائنات کی ہر شے انسان کے لیے تخلیق کی ہے جس طرف بھی نظر دوڑائیں کائنات کی ہر شے آپکے اپنے لیے نظر آئے گی اور اپنے وجود کے ہونے کا مقصد کو پورا کر رہی ہوگی۔ پھولوں میں خوشبو ہمارے لیے ہے اور پھلوں میں رس ہمارے لیے ہے، آبشاروں کے گیت ہمارے لیے ہیں، سرسبز و شاداب پہاڑوں کی بلند چوٹیاں جو دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی سب مخلوق (Creature) ہمارے لیے مسخر کر دی گئی ہے۔ ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے، انسانیت کیلئے فائدہ مند کیسے ہونا ہے، اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے اکیلے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سب کے ساتھ اِن روابط سے رہنا ہے جن کے باعث ایک صحت مند معاشرہ جنم لے اور زندگی کے ثمرات بحیثیت مجموعی حاصل کرنے ہیں ورنہ ایک شخص کی زندگی کے ثمرات اُس کیلئے بے معنی ہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو اِس میں شامل نہ کرے۔

بے شک تجسس انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس کے بل بوتے پر انسانی ذہن نے مختلف ادوار میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور اسی باعث امکانات کے اسرار کھلتے ہیں اور انسانی سوچ کو بلند فضاؤں میں پرواز کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ شعوری بالیدگی کا دور دورہ ہے اور نئے نئے انکشافات نے پرانے اور دقیانوسی تصورات کی جگہ لے لی ہے دور حاضر کے مسلسل سائنسی انکشافات نے حقائق بیان کر کے شعوری پستی کی آنکھیں چکا چوند کر دی ہیں۔ اگر پچھلی ابتدائی صدیوں کے انسان کو آج کے دور کے سلسلہ زندگی کو دیکھنے کا موقعہ ملے تو وہ سو فیصد غیر یقینی حالت میں چلا جائے گا کیونکہ پرانے وقتوں میں ایک انسان کیلئے ہوا میں اڑنا، سمندر کے پانی میں سفر کرنا دور دراز کے فاصلے گھنٹوں میں طے کرنا یا پھر لاکھوں کلو میٹر دور بیٹھے شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ صرف دیکھنا بلکہ بات بھی کر لینا یا پھر زمین کے کسی بھی کونے سے دوسرے کونے میں پلک جھپکتے میں بات کر لینا یا پھر اسے پیغام بجھوا دینا کسی حیرت انگیز بات سے کم نہیں۔ مگر آج کے انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ زمین ساری کی ساری اس کی دسترس میں آ گئی ہے اور یہ دنیا اب ایک چھوٹے سے بچے کے آگے صرف Mouse کی ایک Click کے فاصلے پہ ہے۔ جبکہ فاصلے سمٹ چکے ہیں اور دنیا ایک Global Village کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کے ایک کونے میں سرکنے والے پتھر کی بازگشت دوسرے کونے میں سنائی دیتی ہے۔ مگر ہمارے دنیا کو ماپنے اور جاننے کے پیمانے وہی صدیوں پرانے ہیں؟

اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگوں کا چند ایک سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیوں مر جاتے ہیں؟ آیا ان سب معاملات کے پس پردہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے۔ ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش و خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلوں کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے ۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) اکثر اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خودبخود ہی مسئلہ کو آسان بنا دیتی ہے۔ لہٰذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے۔ یہ جاننے کیلئے کہ اس کائنات کا خالق کون ہے لوگوں نے اس کائنات (آفاق) کی تخلیق سے متعلق تحقیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کیلئے مختلف روش اختیار کی گیں۔

لوگوں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مرکز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کیلئے اسکا ظاہری مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قدرت کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا ایک ڈھیر لگا دیا۔ ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اور زیستی (Biological) قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جدید دور ان لوگوں کی مستقل تحقیقات اور جدو جہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔ یہ تحقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازوں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے ۔

پرانے وقتوں میں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صر ف چار عناصر سے ملکر بنی ہے۔ زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات 108 عناصر سے ملکر بنی تھی ۔پھر ان 108 عناصر کی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM) سے مل کر بنے ہیں اور ان عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔

اسکے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم ہی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔ یہ معاملہ سائنسدانوں کیلئے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں۔ لہٰذا ایک نئی اختراع سامنے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھرا جو کہ لہر کے ذرات اور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا۔ مگر جب اس الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ الیکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle) ہے اور یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو کہ اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئینسٹاین کی مساوات ۲ E= MC بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے عمل کہ تقویت دیتی ہے۔ سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے میں یقینی طور پہ کامیاب ہوئی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر اس کائنات میں جاری و ساری ہے جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

یہ تو بات ہو رہی تھی ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے مسلسل آفاق کی تحقیق سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں لاکھڑا کیا۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ اگر اس ظاہری کائنات کا کوئی خالق ہے تو انکے وجود ( جسم ) کا بھی کوئی خالق ہو گا ؟

لہٰذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہیں، انہوں نے اپنی توجہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د ( نفس ) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کے مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تاکہ اپنے اندر کے رازِ حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی کے سلسلے نے وجود پکڑا یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی ذہن (MIND ) پہ کئے گئے نہ کہ جسم پہ۔ لہٰذا انہوں نے نفس کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم و ذات پر یہ تحقیق شروع کر دی اور اپنی توجہ اپنے اندر مرکوز کر دی جسکے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے طریقہ کار دریافت کیے تاکہ اپنے اندر کا سفر کر کے اس اکائی (جز) کو تلاش کیا جا سکے جو کہ انکو اس کائناتی حقیقت سے مربوط کرتا ہے۔ اس کوشش نے علم نورانی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقویت دی۔ تمام طریقہ کار جو کہ مختلف طرح سے مراقبہ کے عمل میں نظر آتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم و بیش ہر مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع و اقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے نفس کو تحقیق کیلئے چنا۔ ان تحقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور منسلکہ رشتہ ہے ۔

مراقبہ کی گہری حالتوں میں اب ہر فرد واحد کا واسطہ ایک اہم گہرا احساس دلانے والے وجود یعنی خودی ( میں،SELF) سے پڑا اور یہ اخذ کیا گیا کہ یہ جو سلسلہ کائنات میں توانائی کا عمل دخل نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک اعلیٰ حس آگاہی (Supreme Consciousness) ہے جس کا اس کائنات میں نفوذ ہے ۔ اب ان تحقیقات مراقبہ اور سائنس میں کبھی کبھی ہم آہنگی ہونے کے ممکنات موجود ہیں ۔ اس فطرت کی ہر شے کچھ نہیں سوائے ایک مطلق حس آگاہی کے ۔یہ ایک اعلی مطلق خبر آگاہی جسکا ہر طرف نفوذ ہے اور یہی وہ اللہ ہے جو کائنات میں ہمیں اپنی ذات کے اندر اور باہر محسوس ہوتا ہے
" اللہ نور السمٰوات ولارض"
"ھو اول و آخر ظاہر و باطن"
کبھی اپنی ذات (خودی) سے تعلق ہمیں ایک رابطہ ملتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کو جانیں
"من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ"
جدت پسندی (Modernism) ، جدیدت ( Modernity) اور کلیسائی جدیدت (Modernism -Roman Catholicism) کے مثلث (Triangle) کے فرق کو سمجھتے ہوئے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جدت پسندی ایک فطری عمل ہے اور انسانی زندگی کے ارتقائی عمل کا جمود توڑنے کا باعث بھی ہے۔ جبکہ جدیدیت اور کلیسائی جدیدیت کو اس فطری عمل سے مدغم نہیں کرنا چاہئے ۔
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 175939 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.