جمعیت طلبہ عربیہ کی 39سالہ لازوال جدوجہد پر ایک نظر

جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے دینی مدارس کی حالت قابل رشک نہ تھی ہر طرف اجنبیت کا ماحول تھا عامۃ المسلمین فرقہ وارایت کے زیر اثر تھے لسانی اور علاقائی تعصبات کا دور دورہ تھافرقہ بندی اور گرہ بندی طلبہ کے مزاج میں سرای تکر چکی تھی اپنے مسلک کی خدمت کرنے کی یہی شکل رواج پا چکی تھی کہ دوسرے مسلک والوں پر طعن وتشنیع کی جائے الزام تراشیاں اور بہتان بازی ایک عادت بن چکی تھی ایک طرف تو یہ حالت تھی اور دوسری طرف کا عالم یہ تھا کہ دینی مدارس کے اندر کوئی ایک بھی ایسا منظم گروہ اور جتھہ موجود نہ تھا جو ان خرابیوں کاسد باب کرتا ،اگر کہیں کوئی ایک آدھ تنظیم موجود تھی تو وہ بھی انہیں خرابیوں کی شکار تھی پھر وارثان انبیائ اپنی اصل ذمہ داریوں سے بھی کافی حدتک غافل ہو چکے تھے اور ان کی قوت دشمنان اسلام کے مقابلے میں صر ف ہونے کی بجائے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مقابلے میں ضائع ہو رہی تھی اور و ہ وقت قریب تھا کہ انہی طلبہ کے ہاتھوں یہ امت مزید انحطاط میں مبتلا ہو جائے ان حالات میں اللہ تعالی کا کرم ہو ا کہ 10محرم الحرام 1395ھ بمطابق 13جنوری 1975ئ کو جمعیت طلبہ عربیہ کے نام سے ایک ایسی تنظیم وجود میں آئی جس نے تفرقوں ،تعصبات،فرقہ بندیوں اور گروہ بندیوں کے ماحول میں محبت ،اخوت اور ہمدردی کا پیغام اپنایا ،انما المومنون اخوہ کو اپن اشعار ابنا کر مظبوط عزم سے اس ماحول کامقابلہ شروع کیا اور طلبہ کو ان کا اصل مقام یا د دلایا۔

قیام جمعیت:
قیام جمعیت ،مدارس عربیہ کے ماحول میں بجائے خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔کیونکہ جمعیت ہی کوسب سے پہلے یہ اعزازحاصل ہوا ہے کہ اس نے تمام مکاتب فکر کے طلبہ اور علمائ کرام کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے کہ جس پہ سب اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے ایک اعلیٰ اور عظیم نصب العین،اتحاد المسلمین،نظام ِ مصطفیٰ کے مکمل نفاذ،جذبہ جہاد کی بیداری اور عملی تدابیر کے ذریعے امت مسلمہ کو اپنے منصب جلیل پر فائز بھی کر سکتے ہیں اور عالم اسلام کے مشترکہ مسائل کا حل بھی تلاش کر سکتے ہیں۔یوں جمعیت نے طلبہ کو بامقصد جدوجہد کے لئے موقع فراہم کر دیا ہے۔مدارس کے بکھرے ہوئے سسٹم میں منظم جدو جہد کا تصور کرنا محال ہے لیکن جمعیت نے باضابطہ نصب العین،طریقہ کار دستور کے ذریعے طلبہ میںتنظیم پیدا کی اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جمعیت نے مدارس عربیہ کے طلبہ کو تنظیم اور اجتماعیت کا احساس اور شعور دلایا۔

اتحاد امت:
جمعیت طلبہ عربیہ نے الحمدا للہ ایسا ماحول فراہم کیا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے طلبہ اور علمائے کرام ایک دوسرے کو برداشت کرنے لگے گئے ہیں۔اپنے اصل دشمن کو پہچان کرا س کے مقابلے کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔اختلافی مسائل اور باہمی الجھنوں کو بھلا کر وحدت اور یکجہتی کی لڑی میں پروئے جا چکے ہیں۔

جمعیت نے اتحاد امت کی نہ صرف دعوت دی بلکہ اس کا عملی مظہر بھی پیش کیا۔طلبہ اور علمائ اپنے اختلافات کو بھلا کر مشترکہ مقاصد خاطر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے لگے۔ ’’اتحاد امت‘‘ کبھی ایک قابل مذمت اورنا مانوس بات ہوا کرتی تھی،اب ہر ایک عالم دین اور طالب علم کی زبان پر جاری ہو چکا ہے اور سب اس کی شدت سے ضرورت محسوس کرتے ہیں۔یہ جمعیت کا کارنامہ ہے کہ مسلسل ایسا ماحول فراہم کیا جس کے نتیجے میں رنجشیں ختم ہو گئیں ایک دوسرے کے خلاف اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے اپنے اصل دشمن کے خلاف صلاحیتیں صرف کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔اتنی وسعت ظرفی پیدا ہو گئی کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی پڑھنا شروع کر دی ہے۔ وحدت ملی کے ایسے مناظر اور مظاہرے جس کو ملت مسلم ترستی تھی آج ہر جگہ اس کے جلوے دکھائی دے رہے ہیں۔جس کی عملی شکل متحدہ مجلس عمل کی صورت میں آج بھی اپنے پورے قد کے ساتھ موجود ہے۔

اقامت دین کا جذبہ اور لادین عنا صر کی روک تھام:
تاریخ جمعیت کے بغوور مطالعے و مشاہدے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جمعیت نے ہردور میں پاکستان میں اقامت دین کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ مدارس عربیہ کے طلبہ ایک بار امام ابو حنیفہ (رح) کی داستان عزیمت کو دہرائیں گے ، امام احمد حنبل (رح)کی طرح بے مثال قربانیوں کا اعادہ کریں گے۔جمعیت طلبہ کے پرچم تلے طلبہ نے قصہ پارینہ کو قصہ جاوداں بنا دیا تاریخی افسانوں کو حقیقت کا روپ دیا۔ جمعیت کا یہ کارنامہ کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

تعمیری ادب کا فروغ
مدارس کے طلبہ میں تعمیری ادب کے مطالعے اور اس کی روشنی میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا مادہ کم ہی پایا جاتا ہے، چھو ٹے اور کم عمر بچو ں میں اس کا تصور بھی محال ہے۔جمعیت نے اپنے ترجمان ’’مجلہ المصباح ‘‘ کے ذریعے ہر سال مختلف علمی ، ادبی اور انقلابی موضوعات پر کل پاکستان تحریری مقابلوں کے ذریعے تحقیق و تربیتی ورکشاپس میں محققانہ مقالہ جات کے ذریعے مدارس کے طلبہ کو اس جانب متوجہ کیا ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا ہے۔ بچوں میں ’’ بزم قرآن ‘‘ تنظیم اور مجلہ ’’ بزم قرآن ‘‘ جیسے کام کرکے بچوں کو فضول اور لغو ادب سے با مقصد ادب کی جانب متوجہ کرنا اور پگر انہی کم عمر نوجوان طلبہ کا خود ہی سے رضاکارانہ طور پر ’’ مجلہ المصباح ‘‘ مجلہ بزم قرآن ‘‘ ہر ماہ شائع کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

جمعیت کا جہادی کردار:
جہاد کے نتیجے میں اسلام کو سر بلندی نصیب ہوتی ہے ۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ جہاد افغانستان کا آغاز پاکستان میں تنظیمی طور پر سب سے پہلے جمعیت طلبہ عربیہ نے جہاد افغانستان میں عملی شرکت کا اعلان کیا ۔

مرکزی شوریٰ نے ﴿1980ئ ﴾میں جہاد افغانستان میں عملاًحصہ لیا ۔ اسی طرح پاکستان سے سب سے پہلی شہادت کا اعزاز 1981ئ میں احمد سعید شہید (رح) نے حاصل کیا جو جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان کے رکن تھے ۔ جس سے واضح ہوا کہ جمعیت طلبہ عربیہ کا جہاد افغانستان کے آغاز میں بہت اہم رول رہا ہے ابھی جمعیت کو بنے صرف چار سال کا عرصہ گزرا تھا لیکن کارکنان اور وسائل کی کمی کے باوجود جمعیت نے اپنی پوری قوت کو جہاد افغانستان میں جھونک دیا۔

جمعیت نے جہاد کے آفاقی تصور کواجاگر کیا ، طلبہ اور ملک بھر کے عوام الناس کو کشمیر فلسطین بوسنیا ، کوسووا ، اراکان وغیرہ جیسے مظلوم خطوں کی بازیابی کے لیے پاکستان میں ہر سال جہاد مہم چلائی، ہر سطح پر جہاد کانفرنسیں منعقدکیں، خطبات جمعہ ،درس قرآن و حدیث کے ذریعے جہاد کے آفاقی تصور کو اجاگر کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اراکان﴿برما﴾میںجاری جدوجہد آزادی کا آغاز جمعیت طلبہ عربیہ سے وابستہ برمی احباب نے کیا اور پاکستان میں مسلسل آواز بلند کرکے جہاد اراکان کو گوشہ گمنامی سے نکالا۔

جب افغانستان میں مجاہدین کی باہمی نوراکشتی کا آغاز ہو ا تو جمعیت کی مرکزی شوریٰ نے اس سے لا تعلقی کا اعلان کرکے اپنی افرادی قوت کو جہاد کشمیر کی جانب متوجہ کر دیا۔ جہاد کشمیر میں بھی جمعیت طلبہ عربیہ کا کردار افغانستان کی طرح ہمہ پہلو رہا۔

ہر سال مرکزی شوریٰ نے وفد کی شکل میں تمام جہادی تنظیموں کے کیمپس کا دورہ کیا اور مجاہدین کی صفوں میں وحدت و یگانگت کو عام کرنے کی کوشش کی ۔ ہر سال بیسیوں کارکنا ن جمعیت نے مقبوضہ وادی میں خون کا نذرانہ پیش کیا ، جن میں مرکزی ناظم امور جہاد کمانڈر مولانا عبد اللہ اور نائب کمانڈر مقصود عباس بھٹی سر فہرست ہیں ۔

مجاہدین کی ذہنی و فکری ، نظریاتی و عملی تربیت کے لیے بیسیوں کارکنان کو وقف کیا ۔

اعلان لاہور ہو یا معاہدہ واشنگٹن ہر موقع پر حکومت پاکستان کے سامنے کارکنا ن جمعیت سراپا احتجاج بن گئے۔ چونکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر عالم کفرسازشوں میں مصروف ہے اور ہمارے حکمران ان کے آلہ کاربنے ہوئے ہیں اس کے خلاف آواز بلند نہ کرنا جہاد کشمیر سے غداری کے مترادف ہے۔واجپائی کی لاہور یاترا کے موقع پر جمعیت نے احتجاج کیا اور منتظم اعلیٰ و منتظم صوبہ سمیت سینکڑوں کارکنان پابند سلاسل کر دیئے گئے ۔

واضح ہو کہ جمعیت نے جہاد کے میدانوں میں اپنی عمر اور قد و کاٹھ کی نسبت زیادہ کردار ادا کیا جو کارکنان جمعیت کے بے مثال تربیت کا مظہر ہے۔

ہمہ پہلو و ہمہ جہت کردار اور مستقبل کے امکانات:
الغرض بہت کم عرصے میںعددی محدودیت کے باوجود جمعیت نے بڑا وسیع کردار ادا کیا ہے جو جمعیت کے تابناک مستقبل کی روشن دلیل ہے۔ لادین عناصر کی روک تھام کے لیے بیش بہا قربانیوں کی لا زوال داستانیں رقم کی ہیں۔

پاکستان میںنظام شریعت کے نفاذکی تحریک میں بھر پور حصہ لیا ۔ منتظم اعلیٰ قاری منہاج الدین انور سمیت سینکڑوں کارکنان گرفتار وزخمی ہوئے،1977ئ شاہ ایران کے ظلم و تشدد کی مذمت میں احتجاج 1979ئ اخوان المسلمون پر ہونے والے مظالم رکوانے کیلئے شامی سفیر کو یاداشت بھجوائی گئی1980ئ طلبہ تنظیموں پر نا جائز پابندی کے خاتمے کیلئے پر زور مطالبہ دینی مدارس کے طلبہ کومساوی حقوق دینے کا مطالبہ کیا، 1984ئ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر زبردست احتجاجی مظاہرے کیے گئے، انسداد فحاشی و عریانی مہم اور حکومت کو یاد داشتیں، مغرب زدہ خواتین کی اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کے خلاف مظاہرے1986ئ الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی کامیابی پر مارشل لائ لگانے کے خلاف مظاہرے ، فلسطین کی تحریک حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہائی کے لئے اقوام عالم سے مطالبہ کیا،1991ئ بابری مسجد کی شہادت پر ملک گیر مظاہرے 1991ئ مصر مین اخوان المسلمون کے قائدین کی گرفتاریوں پر احجاج ، نیو ائیر نائٹ کے موقع پر محافل رقص و سرور کے خلاف نائٹ مارچ درجنوں کارکنان گرفتار ، سینکڑوں زخمی ہوئے ۔

1994ئ میں مدارس عربیہ کے خلاف حکمت کی مذموم پالیسی کی زبردست مذمت ہیپی نیو ایئر نائٹ کے خلاف احتجاج اور گرفتاریاں سانحہ چرار شریف پر زبردست مظاہرے ہوئے ، 1995 ئ کشمیر میں نام نہاد انتخابات کے خلاف عظیم الشان جلوس ، ظالم نسوانی حکومت کی ایما پر مرکزی دفتر پر چھاپہ امین عام سمیت دیگر مرکزی ذمہ داران کی گرفتاری ، ظالمانہ حکومت کے خلاف بھر پور مظاہرے احتجاجی تحریک حکومتی تشدد کے نتیجے میں سینکڑوں کارکنان گرفتار و زخمی حافظ قیصر انور علی شیر اور حافظ محمد یوسف کی شہید ہوئے۔

1996ئ مدارس کے خلاف حکوتی پالیسیوں کی مذمت ، ملک گیر مظاہروں کے ساتھ ساتھ مدعی نبوت
 
یوسف کذاب کے خلاف مظاہرے1997ئ
ملک گیر انسداد فحاشی و عریانی مہم اور ملک بھر میں مظاہرے، امریکہ کے سوڈان اور افغانستان پر میزائل حملوں کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے، نفاذ شریعت کے لیے مظاہرے اور ریلیاںنکالی گئیں ۔

ویسے تو اس جدو جہد پر سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے لیکن نمونے کے طور پر چند ایک واقعات ذکر کرنے کی کوشش کی ہے جس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمعیت نے مدارس عربیہ کے طلبہ میں پائے جانیوالے جمود کو توڑنے کی کوشش کی ہے ۔ مدارس کے طلبہ کو عام طور پر کنویں کے مینڈک کہا جاتا ہے جس میں کل طور نہ سہی کسی حد تک صداقت ضرور پائی جاتی ہے۔ طلبہ کے مزاج میں یہ بات شامل ہے کہ انہیں اپنے اسباق، درس ، خوردونوش ، نشست و برخاست کے علاوہ باہر کے ماحول اور ملکی وبین الاقوامی حالات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی ۔ جمعیت نے طلبہ اور علمائ میں اقامت دین کا جذبہ بیدار کیا انہیںپاکستان اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونیوالی سازشوں کا ادراک کرایا اور اس کے تدارک کے لیے منظم جدو جہد پر آمادہ کیا۔

اہم قومی و بین الاقوامی ایشوز پر جمعیت نے ہمیشہ سب سے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کسی قسم کی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا ۔ ملک میں ہو نے والی اسلام و پاکستان دشمن سرگرمیوںکے خلاف مرکزی قائدین و کارکنان پابند سلاسل کئے گئے، ریاستی تشدد کے نتیجے میں سینکڑوں زخمی ہوتے رہے۔ اور اسی پربس نہیں سا لمیت پاکستان کے خلاف اٹھنے والے ناپاک حکومتی قدم روکنے کے لیے کارکنان جمعیت نے اسلام آباد ، مردان اور لاہور کی سر زمین پر اپنا مقدس اور پاکیزہ لہو بہانے سے دریغ نہیں کیا۔ کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ ان تمام باتوںکا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ کارکنان جمعیت اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ جمعیت ہی سب کچھ ہے۔ ہمیں اپنے نصب العین اور طریق کار پر نظر رکھنی ہے ، اپنے اندر موجود کمزوریوں اور خامیوں کا جائزہ لینا ہے اور شامدار ماضی کی طرح تابناک مستقبل کے لئے کوشاں رہنا ہے۔
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے!!!!!
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
Naveed Zuberi
About the Author: Naveed Zuberi Read More Articles by Naveed Zuberi: 8 Articles with 13201 views i am student
m.phil
islamic studies
.. View More