کربلا اور ہم

دنیا میں بسنے والے ہر رنگ و نسل اور مذہب و عقیدہ سے تعلق رکھنے والے ذی شعور انسان شہادتِ حسینؐ کو تاریخِ انسانی کی عظیم ترین شہادت سمجھتے ہیں ۔

راہِ حق میں صبر و استقامت اور شکرِ خداوندی کے ساتھ نا صرف اپنی جان نچھاور کرنے بلکہ پورے خاندان کی قربانی دینے کی مثال میدانِِِِِ کربلا میں نظر آئی وہ تاریخکے کسی اور صفحہ پر نہیں ملتی۔

سیدناامام علی مقام نے لازوال قربانی پیش کر کے حق کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے نانا کے دین کو بقا بخشی کربلا میں آلِ بیت کے صبر واستقامت عاجزی اور توکل اللّہ نے ایسی تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک ہر انسان خصوصاََ ہر مسلمان کیلئے قرآن کے سبق کے مطابق عین عملی نمونہ ہے ۔

یہ نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسینؐ کا صبر یہی تو تھا کہ علی اکبر اور قاسم کے جوان لاشوں کو اٹْھایا یہ میرے پیارے نبیﷺ کے پیارے نواسے کا ضبط ہی تو تھا کہ جس بھائی حضرت عباسؐ کو سپہ سالار بناتے ہوئے اسکے ہاتھ میں پرچم تھمایا اس ہی بھائی کے کٹے ہوئے شانے دیکھ کر بھی حق کی راہ نہ چھوڑی حضرت حسینؐ کی استقامت کا کیا کہنا کہ ۶ ماہ کے علی اصغرؐ کے گلے میں تیر لگا تو اس پر بھی اپنے رب کا شکر ادا کیا ۔حسینؐ نے باطل کے ہاتھ پر بیت کرنے کے بجائے خاندان کے ایک ایک فرد کی قربانی قبول کی مگر حق پر باطل کو غالب نہ آنے دیا۔امامِِِِ عالی مقام کا یہ طرز عمل آٓئندہ آنے والی ہر نسلِ راہ کیلئے مشلِ راہ ہے ۔

آج کا وہ انسان جو انفرادی فائدے اور مفاد کا سوچتے ہوئے باطل کے خوف سے کلمہ حق کہنے اور حق پرصبر و استقامت کے قائم رہنے سے ڈرتا ہے اْسے میدانِ کربلامیں بلکتے سسکتے بچوں، بوڑھوں،عورتوں اور جوانوں سے سبق سیکھنا چاہئے کہ کس طرح باطل لشکری قوتوں کے مقابلے 72 حق کے پیر وکاروں اورحق پرستوں نے ظالم کے سامنے حق کو بلند رکھا اور بل آخر باطل کو شکست سے دوچار کر کے اسکا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔کسی طرح آلِِِِِِ محمدﷺنے اپنی زندگیوں کے چراغ گلْ کروا کر دینِِ محمدﷺکو جلا بخشی۔

بیشک خداوندِکریم قرآن میں فرماتا ہے کہ حق پرستوں کے ساتھ اﷲّ کی رحمت ہے اور جو لوگ صبروشکر اور حق راہ میں استقامت کے ساتھ چلتے رہیں اور یہاں تک کے راہِ حق میں قتل کر دئیے جائیں تو وہ شہید ہیں اور خدا کے بے شمار انعام و اکرام کے حق دار ہیں بلا شبہ ایک عام انسان شہیدوں کے مرتبہ اور زندگی کے بارے میں شعور نہیں رکھتا۔

برداشت کا عنصر واقعہِ کربلاکا ایک اھم درس ہے کہ جب حضرت حسینؑ اپنی گود میں تڑپتے ہوئے 6 ماہ کے علی اصغر ؐ کے گلے میں پیوستہ تیر کو دیکھ کر اﷲّ کی رضا میں شکر و عاجزی کے ساتھ برداشت کا دامن تھامے ہوئے ہیں ۔

افسوس آج واقعہ کربلا صرف جلوس وتعزیہ نزرونیاز کی حد تک رہ گیا ہے کتنی آسانی سے آج کا مسلمان درسِِ امام حسینؐ اور واقعہ کربلا کی روشن مثال کو فراموش کرتے ہوئے صرف امنے ہم مسلک مسلمانوں کو ہی مسلمان سمجھتا ہے مسالک کی اختلافی بنیاد پر قتلِ عام کی بڑھتی ہوئی روایت جسطرح دین اور مسلک کی محبت کی بنیاد پر خون کی ہولی کا سبب بن رھی ہیں اس سے محبت صحابہ کرام میں اضافہ تو درکنار صحابہ کرام کرام کی محنت‘اخوت و محبت اور یکجھتی سے قائم کردہ اسلامی معاشرہ کی بنیادیں کھوکھلی ہو رھی ہیں ۔

مسلمانوں کے خون کو بھی شیعہ خون اور سُنی خون میں بانٹ کر مسلمانوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے جنازہ چاہے کسی مسجد سے اُٹھے یا پھر کسی امام بارگاہ سے غیر مسلم طاغوتی قوتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی طاقت میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

ملکِ پاکستان میں پارا چنار ، گلگت، کراچی ،راولپنڈی میں ہونے والے دھماکے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے نتیجے میں شہید ہونے والے سنی مسلمانوں اور شیعہ مسلمانوں کا خون تمام مکتبہ فکرِ اور مسالک کے مسلمانوں عالموں اور عام مسلمانوں سے پُکار پُکار کے سوال کر رھا ہے؟ ُُُّّ’’کہ کیوں آج کا ظالم کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر ظلم کو روکنے سے ڈرتا ہے؟کیوں آج ہم میں ظالم کو ظالم کہنے اور مظلوم کی مدد کرنے کی جرأت پیدا نہیں ہوتی ۔کب کوئی چاہنے والا امام حسینؑ کا کوئی عمر فاروقؐ کا متوالہ یا حضرت ابو بکر صدیقؐ کا جانثار وقت کے یذیدوں کا ھا تھ روکے گا؟کب کوئی حق پرستی کی بجھتی ہوئی شمع کو اپنے خون سے روشنی فراھم کریگا؟ کب ہماری مسجدیں ،ہماری امام بارگاہیں ،ہمارے جشِِن عید میلادِالنبیؐ کے جلوس اور محرم کی عزا داریاں دہشت گردی سے محفوظ رہ سکیں گیں ؟

حظرت امام حسینؐاور دیگر صحابہ کرامؐ سے سچی محّبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے دینِ اسلام کی بقاء کے لئے ان عظیم شخصیات کی قربانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے حق پرستی کی راہ پر ثابت قدمی سے قائم رہا جائے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بحثیت اُمتیِ رسولؐقیامِ امن کیلئے درسِ کربلا کو یاد رکھتے ہوئے اپنے انفرادی مفادات کو اجتمائی مفادات پر قربان کرتے ہوئے فَرقہ وارانہ سوچ کی نفی کرتے ہوئے ظالم کے سامنے کلمہِ حق بُلند کیا جائے ۔ملک و مسلم اُمہ کی خیر خواہی اور سلامتی کیلئے مذہبی ہم آہنگی اور یکجہتی کی پُر امن فضا کو فروغ دیا جائے تا کہ ملک ِ پاکستان تمام مزاہب اور مسالک کے ماننے والوں کیلئے امن کا گہوارہ ہو اور اسلام کا قلعہ بن سکے انشاء اﷲَ۔

Rao Mansoor
About the Author: Rao Mansoor Read More Articles by Rao Mansoor: 3 Articles with 4295 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.