حضرت امام حسین رض کے خطوط اور
خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ہدف اور مقصد فقط اور فقط احیائے دین تھا
اور احیاء دین، معاشرے میں اسلامی حکومت کے قیام کے راستے سے ہی ممکن ہے
اور اسلامی حکومت کا قیام فقط جان و مال کی قربانی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور
اس ہدف اور راستے کو نیز ان جہادی ذمہ دارویوں کو جو گروہ اپنے کندھوں پر
لے سکتا ہے وہ مردان الٰہی ہیں کہ جنہیں خداوند متعال نے قرآن میں ان الفاظ
میں یاد کیا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ
فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا
بَدَّلُوا تَبْدِيلا
ترجمہ: مؤمنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو
سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا اور ان میں سے
بعض انتظار کر رہے ہیں اور وہ ذرا بھی نہیں بدلے۔
کہا جاسکتا ہے کہ قیام امام حسین میں بنیادی اور محوری چار عناصر، ہدف، راہ،
وسیلہ اور راستے کو طے کرنے والی اور وسیلہ سے مسلح اور متلاشی ہدف ذات ،
معین اور معلوم تھی۔
حضرت امام حسین رض نے اپنے باقاعدہ وصیت نامہ میں یوں مرقوم فرمایا: میری
سیرت میرے نانا اوربابا کی سیرت ہے اور آپ کے والد گرامی کی سیرت وہی آپ کے
نانا کی سیرت ہے کیونکہ علی ابن ابی طالب نفس رسول اللہ ہیں اور سیرت نبی
اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم وہی قرآن ہے اس لیے کہ حضرت رسول اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کے علمی اور عملی مفسر ہیں۔
پس امام حسین رض کے قیام کا دستور العمل فقط قرآن مجید اور رسول اکرم کی
سنت نے مرتب و منظم اور مدوّن کیا ہے چنانچہ اس قیام کے راستے کو فقط قرآن
نے پیش کیا ہے یعنی اگر قرآن نے مسئلہ حج کو ذکر کیا تو ضروری ہے پہلے کوئی
صحیح حج کو انجام دے اور بعد میں دوسرے سے کہے: خذوا عنّی مناسککم؛ ترجمہ
اپنے مناسک حج کو مجھ سے لو۔
نبی مکرم اسلام کی طرح کہ جو پہلے بذات خود مکہ مکرمہ حج کے لیے تشریف لے
گئے اور مناسک حج کو انجام دیا پھر بیت اللہ کے زائرین سے فرمایا: اپنے
مناسک حج کو مجھ سے لو۔ مسئلہ نماز بھی اسی طرح ہے اگرچہ کلی طور پر حکم
نماز قرآن میں آیا ہے لیکن ضروری ہے کہ نماز اپنی تمام حدود وقیود اور
أجزاء و شرائط کے ساتھ بجالائی جائے تاکہ دوسرے دیکھیں اور اسے سیکھیں۔ نبی
مکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اسلام کی طرح کہ آپ نے فرمایا: صلّوا کما
رأیتمونی أصلّی؛ جس طرح تم نے دیکھا ہے کہ میں نے نماز پڑھی ہے تم بھی اسی
طرح نماز پڑھو۔
اسی بنیاد پر مسئلہ جہاد کے لیے بھی عملی مثال کی ضرورت ہے تاکہ جو جہاد کو
عملی جامہ پہنا چکا ہے دوسروں کو کہے: جہاد کو مجھ سے سیکھو جس طرح نماز
اور حج کو انجام دیا گیا لوگوں نے دیکھا اور اسے اپنایا اور پیروی کی بالکل
اسی طرح جہاد اور مقدس دفاع کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ لوگ اسے
دیکھیں اور میدان کارزار میں موجود انتھک مجاہدین کی اقتداء اور پیروی کریں
اور حضرت امام حسین رض کا خالص جہاد نبوی اور علوی خالص جہاد کے ہم پلہ تھا
کہ جس کا تجربہ اس دور کے معاشرے نے کیا تھا۔
جہاد میں ایک چیز معتبر ہے جو دوسرے مسائل میں نہیں ہے مثلاً نماز اور روزہ
میں چھوٹی چھوٹی مشکلات کو برداشت کرنا ضروری ہے اور اس قسم کی چھوٹی چھوٹی
مشکلات کو سہنا لوگوں کے لیے مقدور اور قابل برداشت ہے۔ ایسی عبادت کو
انجام دینے والے کو دیکھ کر لوگ ورطہ حیرت میں نہیں ڈوبتے۔
بلکہ اس کی طرح عمل کرتے ہیں۔ نیز زکوۃ اور دیگر مالی معاملات میں مال سے
صرف نظر کرنا ضروری ہے اور لوگ ایسے شخص کو بھی مردان الٰہی میں شمار کرتے
ہیں جیسا کہ ارشاد ربّ العزت ہوتا ہے:
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
ترجمہ: اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج
ہوں۔
ایسے لوگوں کی بھی اقتداء کی گئی۔
لیکن جہاں تک مقدس دفاع کا تعلق ہے تو اس میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ انسان
خدا کے دین کو اپنی جان سے افضل اور اپنی جان سے بڑھ کر اس سے محبت رکھے
اور دین کی حیات کو اپنی دنیاوی حیات سے زیادہ محبوب رکھے اس حد تک معرفت
اور عمل کوئی آسان کام نہیں ہے۔
خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا: تم لوگ اگر خدا اور رسول سے بڑھ کر اپنے
آپ ، اولاد، قبیلہ، خاندان، بھائی اور باپ اور ۔۔۔ کو محبوب رکھتے ہو تو
خدا کے مر کے آنے کے منتظر رہو۔ فتربصوا حتی یأتی اللہ بأمرہ؛ ترجمہ: تم
ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔
یعنی جہاد کا أساسی رکن یہ ہے کہ دین خدا تمہارے نزدیک دنیاوی زندگی سے بڑھ
کر محبوب ہو اور دین خدا کی حفاظت اپنے خانہ و کاشانہ کی حفاظت سے بڑھ کر
تمہیں عزیز ہو۔
خداوند متعال نے أصل مطلب کو اولاٍ ایک قاعدہ کلیہ کے قالب میں بیان کیا
اور ثانیاً جو لوگ اس قاعدہ کلیہ کے معتقد اور اس وصف سے متفق ہیں، کو حزب
اللہ سے یاد کرتا ہے۔ |