قرآنی فریاد (قسط نمبر 1)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآنِ کریم ہر زمان ومکان میں مسلمانوں کے لئے ایک بہترین منہج اور ضابطہ ٔ حیات ہے،فرقانِ مجید شریعت ِ اسلامی کی مقدس اور لازوال کتابِ مطہر ہے، نبی آخر الزمان ﷺ کا تا ہوتی دنیا تلک باقی رہنے والا جاویداں معجزہ ہے، جس کی حفاظت وصیانت پاسبانی ونگہبانی کی ذمہ داری بھی خود باری تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: { اٖنا نحن نزلنا الذکر واٖنا لہ لحافظون} (الحجر:9) ہم نے خود اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اور یہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سینکڑوں سال بیت جانے کے باوجود اس کے ایک حرف بلکہ ایک حرکت میں بھی تحریف وتبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔

کتاب اللہ عزت وشرافت، وقعت ومنزلت کا منبع ومصدر ہے: {اٖنہ لقرآن کریم} (الواقعۃ:77) بے شک یہ قرآن بڑی عزت واکرام والا ہے۔جس کے بارے میں ہم سے ضرور پوچھا جائے گا: {واٖنہ لذکر لک ولقومک وسوف تسألون} (الزخرف:44) بے شک یہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت ہے اور تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

کلامِ الٰہی صراط مستقیم ہے لہذا عقائد، عبادات، اخلاقیات اور معاملات میں اس راہ پر چلنا ہر مسلمان پر واجب دینی ہے اور قرآن کریم وہ کتاب ہے جو لوگوں کو ان کے دینی ودنیاوی تمام امور سے روشناس کراتی ہے، قال تعالیٰ: {اٖن ہذا القرآن یھدی للتي ھي أقوم} (الاسراء:9)۔ اور یہ کتاب حق وباطل، سعادت وشقاوت، تاریکی وروشنی اور تارگی وتیرگی میں فرق کرنے کی کسوٹی اور معیار ہے۔

یہ کتاب سراسر نور ورحمت اور مشعل ِ راہ ہے جو انسانوں کو جہالت کی تاریکی سے علم کی روشنی، شکوک وشبہات سے یقین وطمانیت اور گمراہی وضلالت سے رشد وہدایت کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ اس کی عظمت ومنزلت کی معرفت اس آیتِ مبارکہ سے ہوتی ہے: {لو أنزلنا ھذا القرآن علی جبل لرأیتہ خاشعا متصدعا من خشیۃ اللہ} (الحشر:21) اگراس قرآن کو کسی پہاڑ پر اس میں انسانوں جیسے فہم وادراک کی صلاحیت پیدا کرکے اتارا جاتا تو اس میں موجود بلاغت وفصاحت، قوت واستدلال اور وعظ وتذکیر کے مختلف پہلوؤں کو سن کر اس کی اتنی سختی وصلابت، وسعت وبلندی کے باوجود بھی خوف وخشیت ِ الٰہی کے مارے ریزہ ریزہ اور چکناچور ہو جاتا۔ اس میں انسان کے لئے سبق آموز نصیحتیں ہیں کہ فہم وفراست، عقل وخرد کی صلاحیتوں کے باوجود بھی اگر قرآنی تاثیر اس کے دل میں پیدا نہ ہو توسمجھ لینا چاہئے کہ اس کا انجام برا ہو گا۔

قرآنِ حکیم ایک بہترین ضابطہ ٔ حیات، لائحہ عمل، قانونِ زندگی اور دستور ومنشورِ خلائق ہے، جس کو پڑھنا، یاد کرنا، دہرانا، سمجھنا، اور اس پر عمل پیرا ہونا ہر مسلمان مرد وزن پر فرض اور ضروری ہے۔ کیونکہ جو بھی قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہو جائے اور ان پر یقینِ کامل اور اعتقادِ لازم حاصل ہو جائے تو اسے دنیا کی بڑی سی بڑی طاقت بھی کوئی زک یا نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔

یہ وہ کتاب الٰہی ہے جس کے ذریعے رب کائنات نے پوری بشریت کو شرک والحاد، ضلالت وجہالت، نفرت وتنزلی کی تاریکیوں سے اسلام وایمان، ہدایت ومعرفت، الفت وترقی کی تارگیوں کی طرف لے آیا ہے۔ قرآن پاک کے حرف حرف میں حکمتوں کے جواہر وموتی پوشیدہ ہیں، یہ کتاب سائنس اور ٹیکنالوجی کا منبع ومصدر بھی ہے، اسی لئے ایک معروف سائنسدان نے کہا تھا کہ سائنس کی انتہا قرآن کی ابتدا ہے، جن فارمولوں اور علوم کو وہ اس دور میں اکتشاف کر رہے ہیں ان کے متعلق قرآن میں واضح بیان بھی موجود ہے، اسی وجہ سے کئی متبحر سائنسدان حلقہ بگوشِ اسلام بھی ہو چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جب مسلمان قرآن کو اپنا دستور اور ضابطہ ٔ حیات مانتے تھے اور اس کے علاوہ وضعی قوانین اور آرڈیننس کو ہیچ سمجھتے تھے تو تعداد میں کمی اور بے سر وسامانی ان کی فتوحات کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ جب تعداد صرف ۳۱۳ تھی تو ساری دنیا پر ان کا تسلط و غلبہ تھا، انہی کا سکہ چلتا تھا اور اپنی ایمانی قوت وطاقت کا لوہا منوا چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی سب سے مضبوط وقوی ہیکل طاقت اور اس زمانے کی" سپر پاور" طاقتیں روم وفارس ان کے خوف سے لرزہ بر اندام تھیں۔

مگر ستم بالائے ستم اس دور میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، تعداد میں کہنے اور شمار کرنے کو تو سوا ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے، ۵۶ سے زائد اسلامی مملکتیں، ریاستیں اور ممالک ہیں۔ تمام قدرتی وسائل ان کے ہاتھوں میں ہیں، پٹرول، گیس، المونیئم، لوہا، نمک،،،،،، وغیرہ اور دوسری تمام معدنیات اسلامی ملکوں سے ایکسپورٹ ہوتی ہیں۔ قدرتی وسائل کی تمام کانیںقدرت نے ان کو ودیعت کی ہوئی ہیں۔ دھاتی، زمینی، آبی، فضائی ہر وسائل سے مالا مال ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کرنسی بھی کویتی دینار ہے ( اس وقت ایک دینار کی قیمت 380 پاکستانی روپے ہیں ) اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے پہلا ملک بھی اسلامی ہے اور وہ کویت ہے ( راقم السطور بھی ایک عقد سے یہاں مقیم ہے)، لیکن جب مسلمانوں کی تعداد میں کمی اور بے سروسامانی تھی اس وقت وہ معزز تھے، جلالت وشرافت، وقار وعزت، فتح مندی وفتح یابی، تسلط وغلبہ، کامیابی وکامرانی ان ہی کا حصہ تھا اور جب تعداد ان گنت ہو گئی، تمام وسائل کے مالک بن گئے تو ذلت ورسوائی، شکست وناکامی ان کی مقدر بن گئی جس پر ایک ہی نہیں بلکہ ہزار سوالیہ نشان ہیں۔

ان ایام میں مسلمان ایک کٹھن اور دشوار گزار مرحلے سے گزرنے سے دوچار ہیں۔ جاپان سے لے کر امریکہ تک طولِ بلد میں اور روس سے لے کر ساؤتھ افریقہ تک عرضِ بلد میںاگر ہم دیکھیں اور پرکھیں تو ہر جگہ مسلمان مظلوم، مقہور اور مجبور ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد اور عبادت گاہیں منہدم ہو رہی ہیں، ان کی کتابِ مقدس قرآنِ کریم کی بے دریغ، دن دیہاڑے بے حرمتی کی جا رہی ہے، ان کے نوجوانوں کو شہید کئے جا رہے ہیں، ان کے بوڑھوں کے جسموں کو چھلنی کیا جا رہا ہے، انکی ماؤں اور بہنوں کی عزت وآبرو کا آنچل تار تار کیا جارہا ہے۔

مصر ہو یا شام، برما ہو یا یمن، لیبیا ہو یا تیونس، کشمیر ہو یا فلسطین، عراق ہو یا افغانستان، چیچنیا ہو یا فلپائن، تھائی لینڈ ہو یا سویٹزرلینڈ ہر جگہ اور ہر سمت مسلمان ہی گوناگوں مصائب ومشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کی عزت وناموس، مال ومنال، جان وجسم، اسباب وجائیداد اور ایمان واسلام تک پر دگرگوں مظالم و شدائد کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جسے وہ چار ونا چار سہنے پر بے بس ومجبور ہیں۔

آخر ان حالات کی وجہ کیا ہے؟ بنیادی سبب کیا ہے؟ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اور مسلمانوں کے لئے اتنی رذالت وقباحت کیوں کر راس آتی ہے اور انہیں یہ سب کچھ کیونکر منظور و مقبول ہے؟ ان کے اسباب ووجوہات کیا ہیں؟ اور اصل ذمہ دار کون ہیں؟؟!!
Yasin Sami
About the Author: Yasin Sami Read More Articles by Yasin Sami: 9 Articles with 9042 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.