روزنامہ پاکستان ایکسپریس میں
حیرت کدہ کے عنوان سے چند آپ بیتیاں پڑھ کر مجھے اپنی ایک آپ بیتی یاد آ
گئی۔ تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ سن ١٩٩٤کے اوائل میں، میں اپنے ایک کزن (خالہ
زاد) عابد طاہر کے ساتھ اپنے ایک اور کزن (عبدالقدوس) کے گھر انکے گاؤں
پوٹھہ کسگمہ گیا۔ جو کہ ہم سب کا (سانجھا) ننہیال گاؤں بھی ہے۔( یہ دونوں
اصحاب آج کل یوُ کے UK میں آباد ہیں۔) وہاں ہم اکثر جایا کرتے تھے۔ ہمارا
ایک مشغلہ ہواکرتا تھا کہ ہم مچھلیاں پکڑنے یعنی Fishing کے شوقین تھے۔
کبھی منگلا ڈیم پر چلے جانا اور کبھی ننہیال گاؤں چلے جانا، چونکہ وہاں بھی
ایک ندی بہتی تھی جو کہ آزاد کشمیر کے خوبصورت پہاڑوں کے میٹھے چشموں کے
پانی کی بدولت اب بھی بہتی ہے مگر اب اسکا پانی قدرے کم ہو گیا ہے لیکن
برسات کے موسم میں اب بھی طغیانی آتی ہے۔ عرف عام میں اسے سکیتر کے نام سے
پکارا جاتا ہے۔ گاؤں بھر کی عورتیں وہاں بنی ہوئی قدرتی جھیلوں کے پانی سے
کپڑے دھونے جایا کرتی تھیں اور شاید اب بھی وہی روایت چلی آ رہی ہے۔ اور
گاؤں کے جوان مرد اور بچے وہاں دن بھر کی تھکان اتارنے کے لئے غسل کرنے
جاتے تھے۔ اس بہتی گنگا کے کنارے بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں مچھلیاں
بھی خوب پلتی تھیں اور جنہیں پکڑنے کے لئے دائیں بائیں آباد گاؤں کے نوجوان
شغل کرنے وہاں جاتے تھے۔ سو ہم بھی نکل پڑے۔ دراصل اس دن ہم شام کے وقت
وہاں کے لئے اپنے کزن عبدالقدوس کے گھر سے نکلے پروگرام کچھ یوں تھا کہ ہم
شام کے اندھیرے میں وہاں جا کر مچھلیوں کا جال لگا آئیں گے اور صبح جا کر
Fishing Hooks کے ذریعے باقی کا شوق پورا کریں گے۔ ہم شام کے تقریباً سوا
سات بجے انکے گھر سے نکلے اور تقریباً سات بجکر پیتالیس منٹ کا وقت ہوا ہو
گا کہ ہم اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے۔ وہاں پر پیچھے کی طرف پہاڑ تھے اور
سامنے ایک گہری جھیل، جو کہ اپنی گہرائی کی وجہ سے مشہور ہے۔ اور بیچ میں
تھوڑا سا پانی بہتا جاتا ہے جو کہ ان ساری جھیلوں کے پانی کو آپس میں ملاتا
ہے۔ اس پانی کو جُوتے اتار کر آرام سے کوئی بھی شخص پار کر سکتا ہے۔ اور اس
ندی کے کنارے کنارے تھوڑا بہت کم گھنا جنگل بھی اُگا ہوا ہے۔ تو ہوُا یوں
کہ جب ہم وہاں جال کھول کر اس چھوٹی جھیل میں اُتارنے کی غرض سے تیاری پکڑ
رہے تھے تو ہمیں پیچھے کی پہاڑی کے اوپر سے کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی
آوازیں سنائی د یں۔ جنہیں ہم نے ان سُنا کر دیا یہ سمجھ کر کہ پیچھے گاؤں
کے کچھ گھر آباد ہیں تو وہاں کے لوگ شاید ٹہل رہے ہوں گے۔ پھر کچھ دیر گزری
کہ ہمیں اس ندی کے دوسرے کنارے پر آباد ایک چھوٹے سے گاؤں گنگراڑہ جو کہ
ندی کے جنوب مشرق کی جانب پڑتا ہے۔ اس سمت سے ڈھول اور تاشے کوُٹنے کی
آوازیں آنے لگیں۔ میں نے عبدالقدوس سے دریافت کیا کہ یہ کیسی آوازیں ہیں۔
اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتا ۔ جناب عابد طاہر بول پڑے کہ اس گاؤں میں
کوئی شادی وادی کی تقریب منعقد ہو رہی ہوگی۔ میں نے مسٹر عبدالقدوس سے اس
کی تصدیق چاہی تو جواب نفی میں ملا۔ کیونکہ اس علاقے میں شادی ہورہی ہو تو
آس پاس کے دس بارہ گاؤں کے لوگ یا تو مدعو ہوتے ہیں یا پھر باعلم ہوتے ہیں
کہ فلاں قصبے میں کسی کے ہاں کیا خاص تقریب منعقد ہو رہی ہے۔
اور ڈھول بجتے ہوں تو پورا علاقہ آوازوں سے گونجنے لگتا ہے۔ چنانچہ ہم پھر
سے اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ یعنی مچھلیوں کے جال کو کھولنے کا کام۔ اتنے
میں کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے کی گہرائی کی وجہ سے مشھور جھیل کی سمت سے
بھینسوں کا ایک کالا سیاہ جم غفیر غراتا ہوا ہماری سمت میں بڑھتا آ رہا تھا۔
بلکہ یوں کہیے کہ بھاگتا آ رہا تھا۔ اور انکے آگے آگے ان کے بچھڑے بھی
اودھم مچاتے بھاگے آ رہے تھے۔ نہ صرف وہ بھاگتے آگے بڑہ رہے تھے بلکہ وہ
زور زور سے چنگھاڑ بھی رہے تھے۔ اندھیرے کے باعث کوئی سر پیر تو نظر نہیں آ
رہا تھا ۔ ان کی آوازوں کی پہچان سے پہلے پہل تو ہم سمجھے کہ واقعی وہ کوئی
بھینسیں ہوں مگر حالات کی سنگینی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی کہ ان کا
رُخ ہماری ہی جانب تھا۔ ہم شدید سہمے ہوئے تھے کہ نہ جانے کیا ہو۔ ایک تو
اندھیرا اوپر سے سنسان علاقہ اورایک جانب پانی کی جھیل، پیچھے اونچے پہاڑ
اور واپس جانے کا راستہ بھی اُسی گہرائی والی جھیل کے ساتھ ساتھ چلتا تھا
اور پھر حیرانی کی بات یہ تھی کہ بھینسیں پانی اور ریت والی سطح زمین پر
بھاگ کیسے رہی تھیں۔ اور اوپر سے بچھڑے بھی ساتھ دے رہے تھے۔ میں اور مسٹر
عبدالقدوس شانہ بشانہ کھڑے تھے اور بیچ میں ہم میں سے زیادہ قامت والے مسٹر
عابد طاہر تھے۔ وہ کبھی ہم دونوں کے کندھوں کے بیچ سے اُٹھ کر جھانکتے اور
کبھی نیچھے جھک جاتے۔ اس موقع پر مسٹر قدوس بول پڑے کہ یا تو نیچے بیٹھے
رہیں یا پھر کھڑے رہیں کیونکہ ہم تینوں ہی اسوقت مصیبت میں جکڑے ہوئے تھے۔
ہماری تھوڑی سی بھی غلطی کچھ بھی بد انجام لا سکتی تھی۔ مجھے جو بھی قرآنی
آیات اور سورہ جات زبانی یاد تھیں اور آیت الکرسی کا ورد میری زبان سے جاری
تھا۔ میں وہ پڑھ کر ہم تینوں پر پھونکنے لگا۔ اور اس کا اثر فوراً ظاہر
ہونے لگا۔ وہ بھینسیں اور انکے بچھڑے جنکا رُخ ہماری ہی جانب تھا۔ ان کا
رُخ شمال کی جانب واقع پہاڑیوں کی سمت ہو گیا ۔ پھر وہ پہاڑیوں میں کہیں
گُم ہو گئیں۔ اس پر ہم سب کی جان میں جان آئی۔ کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ
مسٹر قدوس گویا ہوئے کہ کیا کرنا چاہیے۔ واپس چلنا چاہیے کہ جال لگا ہی
دینا چاہیے۔ اس پر مسٹر عابد طاہر صاحب فوراً بول پڑے کہ وہ تو کوئی
بھینسیں ہی ہوں گیں آگے بڑھ گئیں۔ تو طے پایا کہ جال لگا دینا چاہیے۔ مگر
جیسے ہی ہم نے جال کو کھولنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے شروع کئے تو ہمارے
سامنے والی ندی سے کہ جس میں ہم جال لگانے والے تھے ایک د یو ہیکل شے
نمودار ہوئی کہ جیسے ہاتھی ہو یا پھر بھینس اور اس کے پانی میں سے اُٹھ کر
چلنے کی شڑاپ شڑاپ کی آوازیں آئیں اور وہ آگے بڑھ گئی۔ اور سامنے کی گہرائی
والی جھیل سے ویسا ہی بھینسوں اور بچھڑوں کا جم غفیر پھر سے برآمد ہوُا۔
مگر اب کی بار وہ سب خاموش تھیں اور آگے بڑھ رہیں تھیں۔ اب پھر سے ہمارا
وہی حال تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور لب پر قرآنی آیات اور آیت الکرسی
کا ورد جاری تھا۔ اب تو ہم چاہ رہے تھے کہ جیسے تیسے ہمیں راستہ ملے اور ہم
بھاگ کر وہاں سے گھر پہنچیں۔ اور دوبارہ یہاں نہ آنے کا عہد دل میں تھا۔
اور خاص طور پر رات کے اُس پہر۔ اور جیسے ہی ان غیب سے وارد ہونے والی
بلاؤں کا سایہ وہاں سے ہٹا ہم تینوں وہاں سے ایسے سر پٹ بھاگے اور اُس جگہ
سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جیسے تیسے کر کے ہم وہاں سے
نکلے اور بھاگ کر پھاڑ چڑھے اور مسٹر عبدالقدوس کے گھر پہنچے۔ کچھ دیر تو
ہم خاموش وہاں بیٹھے رہے اور پھر جیسے اوسان بحال ہوئے۔ ہم مسٹرعبدالقدوس
کے والد گرامی حافظ عبدالقیوم صاحب (جو کہ ہمارے رشتے میں خالوُ تھےاور
حافظ قرآن اور عالم دین بھی تھے) سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ کیا یہاں اس
گاؤں کے لوگ بھینسوں کو رات کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں تو انہوں نے توجیہ
دریافت کی کہ کیا بات ہوئی۔ تب ہم نے ساری بات اُن کے گوش گزار کر دی۔ تو
وہ فرمانے لگے کہ ایک تو اس پوُرے علاقے میں اتنی بھینسیں نہیں ہوں گیں کہ
جتنی ہم بتا رہے تھے۔ یعنی سو، ڈیڑھ سو کے قریب اور دوسرے بات یہ کہ لوگ تو
اپنی بھینسوں کو دن میں باہر نہیں کھلا چھوڑتے۔ اور ہم رات کی بات کر رہے
تھے۔ اور جو بات قبل غور اور توجہ طلب تھی وہ یہ کہ اُن لوگوں کو بھینسوں
کے چنگھاڑنے کی آوازیں سنائی نہیں دیں اور نہ ہی ڈھول تاشے کُوٹنے کی کوئی
آواز کیونکہ وہاں پہاڑی علاقے میں معمولی آواز کی گونج دوُر دُور تک سنائی
دیتی ہے۔ اور کہاں اتنی بھینسوں اور بچھڑوں کے گلا پھاڑ کر بولنے کی اور
ڈھول بجنے کی آواز۔ تو دراصل وہ آوازیں صرف اور صرف ہماری سماعت تک ہی
محدود تھیں اور کسی دوسرے شخص کو سنانا مقصود ہی نہ تھا۔ اور وہ آفات الٰہی
صرف ہمیں ہی ڈرانے کے مقصد سے وہاں نمودار ہوئی تھیں۔ مگر قدرت نے قرآنی
آیات کی برکت سے ہم تینوں کو محفوظ رکھا۔ ایک اور واقع اس علاقےاور خاص طور
سے اُس گہری جھیل سے منسوب ہے کہ جہاں سے وہ آفات نکل رہی تھیں۔ کہتے ہیں
کہ بیسویں صدی کے اوائیل میں اُس گہری جھیل کو پار کرتے وقت جب کہ شدید
بارشوں کے باعث ندی میں طغیانی تھی ایک بارات دولہے سمیت ڈوب کرہلاک ہو گئی
تھی۔ واللہ عالم باالثواب۔ تو یہ تھی ایک آپ بیتی جو ہم پر بیتی تھی۔ نا
معلوم وہ سب کیا تھا مگر اب جب بھی وہ واقع یاد آتا ہے تو جسم کے رونگٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں۔
۔ والسلام۔ |