جہاد فی القتال کب فرض عین ہوتا ہے - جہاد حصہ ٤

جہاد فی القتال کب فرضِ عین ہوجاتا ہے؟

جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ کردیں اور اس کی مدافعت کے لیے ملک کا مسلمان حاکم و امیر حکم عام جاری کرے کہ سب مسلمان جو قابلِ جہاد ہیں، شریک ہوں، تو سب پر جہاد کے لیے نکلنا فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ مدافعت کی ضرورت میں عورتوں پر بھی مقدور بھر مدافعت فرض ہو جاتی ہے ۔

غزوہ تبوک میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی حکمِ عام جاری فرمایا تھا اسی لیے جو لوگ اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان پر سزائیں جاری کی گئیں۔

ضروری مسائل برائے جہاد فی القتال

مسئلہ :۔ یہ ضروری نہیں کہ شہر کا حاکم و امیر جو اعلان جہاد کرے، متقی، پرہیزگار یا عالم ہی ہو، جو بھی مسلمان حاکم ہو، جب ایسے حکمِ عام کی ضرورت محسوس کرے، یہ حکم دے سکتا ہے، اور سب مسلمانوں کو اس کا یہ حکم ماننا فرض ہے۔ ( فتح ا لقدیر۔ ص : 280 ۔ ج: 4 )

فائدہ :۔ اس میں شبہ نہیں کہ امیرِ جہاد کا عالم و متقی ہونا بہت بڑی نعمت ہے اور فتح کا بہت بڑا سامان ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کسی کو امیر ِ جہاد مقرر فرماتے تو اس کو وصیت فرماتے تھے کہ خود بھی تقویٰ اختیار کریں اور اپنے سپاہیوں کو بھی اس کی تلقین کریں اور یہی مسلمان کا وہ اصلی جوہر ہے جو دنیا کے کسی طاقت سے مغلوب نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہے مگر عملِ جہاد کے لیے شرط نہیں ۔

جہاد ہر مسلمان امیر و حاکم کے ساتھ ضروری اور اس کے جائز احکام کی تعمیل واجب ہے ۔

مسئلہ :۔ جہاد جب فرضِ کفایہ ہو تو بیٹے کو ماں باب کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں کیونکہ ان کی خدمت اور اطاعت فرضِ عین ہے۔ وہ فرض کفایہ کی وجہ سے ساقط نہیں ہوسکتی۔

اسی طرح عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر جہاد کے کام میں لگنا جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صورت میں جائز نہیں۔ البتہ اگر دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے مسلمان حاکم وقت سب کو جہاد میں لگنے کا حکم جاری کردے اور جہاد فرضِ عین ہوجائے تو پھر بیٹا ماں باپ کی اجازت کے بغیر، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اپنے اس فرض کو پورا کرے۔ (بدئع۔ ص : 98 ۔ ج: 7 )

مسئلہ:۔ عین حالتِ جنگ و قتال میں بھی ایسے کافروں کو قتل کرنا جائز نہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔ مثلاً چھوٹے بچے، عورتیں، بوڑھے، اپاہج، اندھے، دیوانے، مندروں اور عبادت خانوں میں مشغولِ عبادت رہنے والے، بشرطیکہ وہ جنگ میں حصہ نہ لیں۔ (تو بھیا خودکشں حملہ آور کے کام کو جائز قرار دینے والے خود کش حملہ کے نتیجے میں ہونے والے معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کے کام کو کس طرح جائز قرار دے سکتے ہیں جبکہ صریحتاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مندرجہ ذیل واقعہ سامنے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے اس گزرے واقعے کے بعد جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر عورت کے قتل پر بھی بہت افسوس کا اظہار کیا تھا اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرنا صریحتاً شریعت کی نافرمانی نہیں ہے اللہ مجھے اور ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے آمین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک میدانِ جنگ میں کسی کافر عورت کو مقتول پایا تو بہت افسوس کا اظہار فرما کر فرمایا کہ یہ تو جنگ کرنے والی نہ تھی، اس کو کیوں قتل کیا گیا؟
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533500 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.