عام حالات میں جہاد (فرض کفایہ) - حصہ ٣

جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی اصطلاح میں '' رباط '' کہا جاتا ہے ۔ اور جہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضائل قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا تھا۔

آج کل یہ فرائض ہماری رینجر ز پولیس انجام دیتی ہے۔ اگر نیت میں اخلاص اور اسلامی ملک کی حفاظت کا جذبہ ہو تو تنخواہ لینے کے باوجود بھی یہ ''رباط '' کے ثواب کے مستحق ہوں گے۔

جہاں دشمن کے حملے کا خطرہ ہو ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے۔ یہ ایسا جہاد ہے جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے، بشر طیکہ اخلاص کے ساتھ اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت (یعنی ظالمان سے حفاظت بھی اسی زمرے میں آتی ہوگی؟) کا جذبہ رکھتا ہو اور مقدور بھر اس میں کوشش کرے۔

جہاد عام حالات میں فرضِ کفایہ ہے

فرض کفایہ اصطلاحِ شرع میں اس فرض کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق ہر مسلمان کی ذات سے نہیں بلکہ پوری مسلم قوم سے ہے (صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے نہیں ہے)۔ اسے فرض کا یہ حکم ہے کہ مسلمانوں سے چند آدمی اس فرض کو پورا کردیں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو جن جن لوگوں کو اطلاع پہنچے اور قدرت کے باوجود ادا نہ کریں، وہ سب گنہگار ہوں گے

احکامِ دین کی تعلیم و تبلیغ، ضرورت کے مطابق مسجدوں کی تعمیر اور دینی تعلیم کے مدرسوں کا قیام، محتاجوں، یتیموں اور غریبوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے محتاج خانے، یتیم خانے وغیرہ قائم کرنا، ناواقفوں کو احکام شرعیہ بتلانے کے لیے فتویٰ دینے کے کا اِنتظام، امر بالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا انتظام، اسلام کے خلاف اسلام کے دشمنوں یا گمراہوں کی طرف سے شبہات وتحریفات کے جوابات کا انتظام، اسلام کا کلمہ بلند کرنے اور معاند دشمنوں کو زیر وزبر کرنے کے لیے جہاد (ًمگر صرف اپنے مقاصد اور اپنے زاتی فائدوں کے لیے دوسروں کے معصوم بچوں کو جہاد کی وادی میں بھیجنا یقیناً جہاد نہیں ہے جس سے آپ بھی اتفاق کریں گے)۔

یہ سب امور وہی ہیں جن کا تعلق پوری مسلم قوم سے ہے اور یہ اجتماعی فرائض ہیں۔ ایسے فرائض کو عین حکمت کے مطابق حق تعالٰی نے ہر شخص پر فرضِ عین نہیں کیا بلکہ پوری قوم کے ذمہ لگا دیا ہے تاکہ وہ تقسیم کے ذریعہ ان سب فرائض کو آسانی سے ادا بھی کرسکیں اور اپنی معاشی ضروریات اور عینی فرائض کی ادئیگی کے لیے بھی ان کو فرصت مل سکے۔

مثال کے طور پر مسلمان میت کی نمازِ جنازہ اور کفن دفن کا انتظام ہے کہ یہ فریضہ پوری قوم کے ذمہ ہے، عزیز قریب اور برادری کے لوگ اگر اس فریضے کو ادا کریں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہوگئے اور میت کا کوئی ایسا عزیز قریب موجود نہیں یا موجود ہوتے ہوئے عاجز ہے یا جان بوجھ کر غفلت کرتا ہے تو محلے کے دوسرے لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اس کو انجام دیں۔ محلے والے بھی نہ کریں تو شہر کے دوسرے لوگوں پر جن کو اطلاع ملے یہ فریضہ عائد کیا جائے گا۔ شہر والے بھی نہ کریں تو اس کے متصل دوسرے شہر والوں پر عائد ہوگا۔ اسی طرح اسلام کے جتنے بھی اجتماعی فرائض واجبات ہیں سب فرضِ کفایہ ہیں اور ان کا بھی یہی حکم ہے ۔

پوری قوم میں سے جس قدر آدمی ایک کام کی ضرورت کو پورا کر سکیں اور وہ اس کام کیں لگ جائیں تو باقی پوری قوم اس فریضہ سے سبکدوش ہوجاتی ہے۔

بعض تعلیم دین کے لیے مدارس کا انتظام کریں۔ بعض فتویٰ اور تصنیف کی ضرورت پوری کریں۔ بعض مساجد کے قیام وانتظام میں لگیں، بعض یتیم خانے، محتاج خانے، شفا خانے وغیرہ بنانے کا کام کریں۔ بعض قلم اور زبان کا جہاد کر کے مخالفین اسلام کے جوابات دیں۔ بعض جہاد و قتال کے فرائض کو انجام دیں۔

جہاں تک بات ہے جہاد و قتال کی تو اس بارے میں حق تعالٰی کا واضح ارشاد ہے:۔

فضل اللہُ المجاھِد ین باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجۃً ط وکلاً وعداللہ ا لحسنی وفضل اللہ المجا ھدین علی القاعدین اجراً عظیما ط

( سورئہ نساء پ : 5 ۔ ع: 13 )

ترجمہ :۔ اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کا درجہ بہت بلند بنایا ہے جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر بیٹھنے والوں کے اور سب سے اللہ تعالٰی نے اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی نے مجاہدین کو بمقابلہ گھر میں بیٹھنے والوں کے اجر عظیم دیا ہے ۔

اس آیت نے واضح طور پر بتلا دیا ہے کہ اگرچہ جان ومال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے مگر جو لوگ دوسرے کاموں کی وجہ سے خود کو جہاد میں شریک نہ کرسکیں ان سے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ جہاد اپنی اصل عام قومی فرائض کی طرح فرض کفایہ ہے ۔

دوسری آیت ماکانَ المؤمنونَ لینفرُوۡاکآ فۃ میں بھی یہ بتلا گیا ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد کیلیے کافی ہو تو سب پر جہاد واجب نہیں رہتا۔ (تو کیا صرف پاکستان کے جہادیوں کام میں لگے رہیں اور دوسرے اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں یہ کیا شرافت یا مقصود و مقبول ہوگا)
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533483 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.