میں ایسا مسلمان نہیں
(Faisal Azfar Alvi, Islamabad)
یکم محرم الحرام سے لیکر 9 محرم الحرام تک
جہاں وقت خیر و عافیت سے گزر گیاتھا اورہم خدا کا شکرادا کر رہے تھے کہ
کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا اسی طرح یوم عاشور بھی امن و مان کے ساتھ
گزر جائے گا مگر یوم عاشور پر فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث تمام افراد
نے اقوام عالم میں جس طرح اسلام کا مذاق اڑایا یہ تاریخ میں درج ہو چکا ہے،
وطن عزیز پاکستان میں موجود مسائل کے انبار میں خونی اژدھا نما سب سے بڑا
مسئلہ فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے، پاکستان جو کہ پہلے ہی
مختلف مسائل، اندرونی و بیرونی سازشوں اور معاشرتی، معاشی و سیاسی مسائل کی
آماجگاہ بنا ہوا ہے ایسی صورتحال میں انتہائی نازک موقع پر فرقہ وارانہ
فسادات کا سر اٹھا لینا وطن عزیز کیلئے انتہائی مہلک نظر آرہا ہے، پاکستان
میں قائم تمام وہ درسگاہیں جو شدت پسندی اور فرقہ واریت کی تعلیم دے رہی
ہیں کیا وہ یہ بھول بیٹھی ہیں کہ ہمارا ملک کن سازشوں کا شکار ہے؟ سازشی
عناصر ہمیں آپس میں لڑوا کر جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں پوری
طرح کامیاب ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، کف افسوس کہ چودہ سو سال گزرنے کے
بعد بھی آج تک ہم مسلمان تو دور کی بات انسان بھی نہیں بن سکے، قرآن جو
ہمیں سب سے پہلے درس انسانیت دیتا ہے کہ ’’ جس نے ایک انسان کی جان بچائی
گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی اور جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا
اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘ ہم کیسے مسلمان ہیں جو قرآن کے ان احکامات
کو پس پشت ڈال کر انسانیت کے قتل عام میں اس طرح ملوث ہیں جیسے کسی انسان
کو قتل کرنا ثواب کا کام ہو، ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ایک اچھا اور سچا
مسلمان بننے کیلئے پہلے انسان بننا ضروری ہے، جو ایک اچھا انسان نہیں بن
سکتا اس کا اچھا مسلمان بننا نا ممکن ہے، قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ
’’اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ اس کے برعکس
ہم فرقہ واریت میں اس طرح مشغول ہیں جیسے فرقہ واریت ہی جنت کی ضامن ہے، آج
کل کے مسلمانوں ن جنت کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ مسلمان جنت پانے کیلئے
مسلمان کو مارتا نظر آ رہا ہے، کیا ہمارے رب اور ہماری مقدس ترین کتاب نے
ہمیں فرقہ واریت کا درس دیا؟ کیا آپ ﷺ یا کسی اہلبیت یا کسی صحابیؓ نے فرقہ
واریت کی تلقین کی؟ یقیناََ نہیں۔۔۔ تو ہم کس کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں
اور خود کو کس طرح مسلمان کہہ سکتے ہیں؟ دین اسلام تو غیر مذاہب کیساتھ بھی
مساوات کا درس دیتا ہے۔ ہمارے اعمال جو عالم اقوام میں ہماری جگ ہنسائی کا
سبب بنتے ہیں ہم ان کو درست کرنے سے قاصر ہیں، اور جب کوئی مسلمان کو دہشت
گرد کہہ دے تو ہم سیخ پا ہو جاتے ہیں،در حقیقت عالم اسلام کو جتنا نقصان
خودمسلمانوں نے پہنچایا ہے اتنا کسی نے بھی نہیں پہنچایا۔
دنیا چاند پر کمندیں ڈال رہی ہے اور ہم آج تک اس چکر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ
کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں، چودہ سو سال گزر گئے مگر واضح احکامات
ہونے کے باوجود آج تک ہم حلال و حرام کی تمیز نہیں کر پائے، ہمارا خدا ایک،
رسول ﷺ ایک، کتاب ایک، شریعت محمدی ﷺ ایک مگر افسوس کہ ہم اب تک ایک نہ ہو
سکے، قارئین کرام! ہندو مذہب میں کروڑوں کی تعداد میں بھگوان ہیں مگر وہاں
فرقہ واریت کا عفریت اتنا نہیں جتنا مسلمانوں میں ہے ، اسی طرح عیسائی مذہب
اور یہودی مذہب میں بھی فرقے موجود ہیں ہیں مگر وہ مسلمانوں کی طرح اپنے
دیگر فرقوں کے پیرو کاروں کو کافر کہہ کر ان کا گلا نہیں کاٹتے، ان کی صفوں
میں خود کش حملے نہیں کرتے، ان کو سر عام ذبح نہیں کرتے ان کی عبادت گاہوں
میں دھماکے نہیں کرتے مگر ہم انسانیت سے گری ہوئی تمام حدیں پھلانگے کیلئے
ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
قارئین کرام! فرقہ واریت ایک ایسا اژدھا ہے جو حضور اکرم ﷺ کے دین کے نگلنے
کے در پے ہے، اگر راولپنڈی سے شروع ہونے والی فرقہ واریت کی عفریت اسی طرح
جاری رہی تو یہ پورے پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لے
گی پھر نہ کوئی مسلمان رہے گا اور نہ کوئی اسلام، ہم کیوں بھول بیٹھے ہیں
کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ حسن اخلاق سے پھیلا ہے اور یہ کہ دین میں جبر
نہیں، کیا ہم فسادات کی بنیاد ان فرقوں کو چھوڑ کر ایک مسلمان نہیں ہو
سکتے؟ ہماری آپس کی ریشہ دوانیاں اقوام عالم میں ہماری جگ ہنسائی کا سبب بن
رہی ہیں، ہم نے آپس میں لڑ لڑ کر اپنے ملک کو اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ اب
ہم کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کے قابل نہیں رہے، تاریخ اسلام عظیم قربانیوں
سے بھری ہوئی ہے اور ان تمام قربانیوں کا مقصد خدا کی اس زمین کو امن کا
گہوارہ بنانا تھا، خدارا فرقہ واریت کو چھوڑ کر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے
تھام لیں اور ایک سچا انسان اور کھرا مسلمان بننے کی کوشش کریں، یہ فیصلہ
ہم نے نہیں کرنا کہ کون کافر ہے اور کون مسلمان یہ فیصلہ خدائے بزرگ و برتر
نے کرنا ہے، جب ہم کسی کو زندگی دے نہیں سکتے تو کسی زندگی کیوں لیں؟ زندگی
اور موت دینا خدا کے ہاتھ میں ہے اگر ہم نا حق کسی کو موت دیں تو وہ خدا کے
کام میں دخل اندازی ہے اور خدا اپنے کام میں دخل اندازی کرنے والے کو سخت
ناپسند کرتا ہے، کسی کو کافر یا مسلمان قرار دینا ہمارے اختیار میں نہیں۔
میں اپنے اس کالم کے توسط سے تمام مسلمانوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں
کہ فرقہ واریت میں نہ پڑیں اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، یہ اﷲ
تعالیٰ نے طے کرنا ہے کون کافر ہے اور کون مسلمان، میں تمام مکاتب فکر کے
علمائے کرام سے درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ فرقہ واریت کے خاتمے میں بڑھ
چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت کے عفریت سے نجات
دلوائیں، میری تمام علمائے کرام سے یہ بھی اپیل ہے کہ وہ مشترکہ طور پر
فرقہ واریت کے خلاف فتویٰ جاری کریں اور اس فرقہ واریت کو سخت نا پسندیدہ
اور حرام قرار دیں وگرنہ فرقہ واریت کا یہ اژدھا عالم اسلام کو نگل جائے
گا، اگر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ جو راولپنڈی، ملتان اور ملک کے دیگر شہروں
میں اسلام کے نام پر ہو رہا ہے یہی اسلام ہے اور مسلمان ہونے کیلئے ایسے
فسادات ضروری ہیں تو میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ میں ایسا مسلمان
نہیں۔۔۔۔۔ |
|