مسلمانوں میں تعلیمی بیداری تیزی سے آئی ہے
لیکن یہ صرف دنیوی تعلیم میں ہی دکھائی دے رہی ہے ،دینی تعلیم کے میدان میں
ابھی بھی ناخواندگی پھیلی ہوئی ہے۔ایک بھرم تھا کہ مسلمانوں کے بچے اور
بچیوں کی اکثریت مدرسوں میں پڑھتی ہے لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ نے اسے بھی
توڑ دیا ،اس کی رپورٹ کے مطابق 4% ہی مسلم بچے اور بچیاں مدرسوں میں تعلیم
حاصل کرتے ہیں۔
یہ دینی تعلیم سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں نماز کے
تئیں غفلت پائی جاتی ہے۔اس میں جہاں ایک طرف والدین قصوار ہیں وہیں دوسری
طرف ہمارے سماج کے نام نہاد’ مولوی حضرات‘ بھی ذمہ دار ہیں۔خاص کر بچوں کے
سلسلے میں ان لوگوں کا برتاﺅ عجیب و غریب ہے۔یہ لوگ بچوں کو مسجدوں میں آنے
ہی نہیں دیتے ہیں کہ شرارت کرتے ہیں۔اگر کوئی بچہ مسجد میں آگیا تو اس کو
ایسا ڈانٹا اور جھڑکا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ آنے کی جرات ہی نہ کر
سکے۔حالانکہ بچپن میں جو عادتیں پختہ ہوتی ہیں وہ تا حیات قائم رہتی ہیں۔
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ’ماڈرن اور آزاد خیال لڑکیاں‘ جو برقع سے بے نیاز
اوردوپٹہ کے نام پر ’چند دھجیاں‘ گلے میں لٹکائے بازاروں، یونیورسٹیوں اور
کالجوں میں گھومتی ہیں، اذان سنتے ہی ان ’دھجیوں‘کو ہی سروں پر رکھ لیتی
ہیں۔ کون سی چیز ان کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے؟سیدھی سی بات ہے نانی یا
دادی کا سکھایا ہوا طریقہ،جو ان کے ذہن کے کسی گوشے میں غیر شعوری طور پر
دبا ہوتا ہے اور ان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بعد
میں ان کے ’انگریز والدین یا فیشن کی دنیا ‘نے بے پردہ کر دیا۔بالکل اسی
طرح سے اگر چھوٹے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں شروع ہی سے لایا جائے تو
اسی طرح ان کی بھی ذہن سازی ہوگی۔
بچوں کی نماز کے لیے نبیِ کریم ﷺ نے کتنی زیادہ تاکید کی ہے ،اس کا اندازہ
اس حدیث سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔عمرو بن شعیبؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے
فرمایا!اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو،جب وہ سات سال کے ہو جائیںاور ان کی
پٹائی کرو ،جب وہ دس سال کے ہو جائیںاور ان کا بستر الگ کر دو(ابوداﺅد:۵۹۴)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات سال کے بچے کو نماز کے لیے مسجد میں لانا چاہیے
اور دس سال کے بعد اگر کسمسائے تو ا س پر سختی کرنا چاہیے اور اس میں مار
پیٹ کی بھی اجازت دی گئی ہے۔اسی وجہ سے لوگ اپنے ننھے منے بچوں کو انگلی
پکڑے مسجدوں میں لاتے ہیںاور بچے بھی خوشی خوشی آتے ہیں۔ایسا نظارہ جمعہ یا
عیدین کی نمازوں میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن عام نمازوں میں ایسا نہیں ہوتا
۔اس کی وجہ یہ ہے کہ” زاہدانہ ، خشک مزاج اور پڑھے لکھے جاہل لوگوں “نے
مساجد کو بڑی حد تک بچوں کے لیے’ جیل خانہ‘ بنا دیا ہے۔
مگر ان لوگوں کا اپنا ’عمل‘ مسجدوں میںکیا رہتا ہے ؟جماعت کھڑی ہونے سے
پہلے تک دنیا جہاں کی باتیں آمنے سامنے یا موبائل سے کی جاتی ہیں ۔ مسجد
میں ثواب لینے جاتے ہیں اور وہاں سے فرشتوں کی بد دعائیں لے کر آتے
ہیں۔کیونکہ جب کوئی شخص مسجد میں دنیا کی باتیں کرتا ہے تو فرشتے پہلے کہتے
ہیں ’اسکت یا بغیض اللہ‘ (ائے اللہ کے دشمن چپ رہ)پھر اگر وہ شخص اس سے بھی
آگے بڑھتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں ’اسکت لعنت اللہ علیک‘(تجھ پر خدا کی لعنت
چپ رہ)ابن ماجہ۔
غور کرنا ہوگا کہ کہیں ہم بھی تو ان میں سے نہیں ہو جاتے ہیں جن پر فرشتے
اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں؟علامہ ابن حمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ مسجد
میں دنیا کی باتیں نیکیوں کا اس طرح سے صفایا کردیتی ہیں جس طرح چوپائے
گھاس کھا جاتے ہیں ۔دوسرا عمل یہ رہتا ہے کہ نماز مکمل ہوتے ہی پیچھے جانے
کے لیے نمازیوں کے آگے سے گذرتے ہیںیا نماز پڑھ رہے لوگوں کے سامنے کھڑے ان
کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتے ہیں، جس سے سامنے والا ڈسڑب ہوتا ہے اور وہ
جلدی جلدی نماز پڑھ کر سلام پھیرنے کی کوشش کرتا ہے۔جب کہ نمازی کے سامنے
سے گزرنا منع ہے اور اس پر سخت گناہ ہے۔ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ اگر
نمازی کے آگے سے گزرنے والا شخص جان لیتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو اسکو
نمازی کے سامنے سے نکلنے سے چالیس سال کھڑا رہنا زیادہ پسند ہوتا ۔راوی کو
شبہ ہے کہ آپﷺ نے ۰۴دن یا۰۴ماہ یا۰۴ سال کہا۔(صحیح بخاری:۴۸۴)
ایسا بھی نہیں ہے کہ اس میں اَن پڑھ طبقہ ملوث رہتا ہے ،بلکہ بڑے بڑے عالم
دین اور عموماً وہ لوگ جن کا تعلق مشہور’ ملی جماعتوں‘ سے ہوتا ہے وہ بھی
ایسا کرتے ہیں۔مسئلہ وہی ہے کہ خود کو ساری پابندی اور احکامات سے مبرا
سمجھتے ہیں ،لیکن اگر کسی بچے نے بول دیا یا ذرا سی شرارت کر دی تو سلام
پھیرتے ہی ڈانٹ ڈپٹ اور برا بھلا کہنا شروع کر دیاجاتا ہے اور ان کے والدین
کو ایسی نظروں سے گھورا جاتا ہے ،گویا بس کھانے کی دیر ہے،کہ ہمت کیسے ہوئی
کہ بچوں کو مسجد میں لائے۔جب کہ صحابہ کرام کے بارے میں آتا ہے کہ وہ
مسجدوں میں انگوروں کا خوشہ لٹکا دیا کرتے تھے کہ بچے مسجد میں آئیں۔بلکہ
نبی کریمﷺ کے سامنے بچے مسجد میں کھیلا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے کبھی ان کو
ڈانٹا یا منع نہیں کیا۔بخاری شریف میں آتا ہے کہ عید کے دن مسجدِنبوی میں
حبشی بچے اپنے چھوٹے چھوٹے نیزے لے کر سپاہیانہ کھیل کھیلتے تھے اور آپ ﷺ
نے ان کو دیکھ کر فرمایا:بنوارفدد!نیزہ بازی اور تیراندازی جم کر کرو،تاکہ
یہودکو معلوم ہو کہ ہمارے دین میں کہاں تک وسعت ہے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد میںساری غلطیاں بچوں کی ہی ہوتی ہیں۔بچے تو اکثر
بہت اہتمام کے ساتھ صف بنا کر نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں پھرجب بڑے لوگ آتے
ہیںتو دیکھتے ہی تیوریاں چڑھا کر ان کو پیچھے جانے کا حکم دے دیتے ہیں یا
کھینچ کر سب سے پیچھے کر دیتے ہیںاور خود ان کی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔اس سے
بچوں کو سبکی محسوس ہوتی ہے اور یہ ان کے دلوں پر گراں گذرتا ہے ۔جس کا
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ بھول بھال کر شرارت اور کھیل کود میں لگ
جاتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ بچوں کی صف کو سب سے پیچھے ہونا چاہیے۔پہلے مرد اپنی صف قائم
کریں پھر بچے اور جب نماز شروع ہو جائے تو بعد میں آنے والے لوگ بچوں کے
دائیں بائیں کھڑے ہوتے جائیں ۔بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں،کیوں کہ بچے اپنے
صحیح مقام پر کھڑے ہیں۔مردوں اور بچوں کی ترتیب نماز کے شروع میں ہے ،نہ کہ
پوری جماعت کے دوران کہ لوگ آتے جائیں اور بچوں کو کھسکا کر مسجد کی آخری
صف میں پہنچا دیں۔اب بچے نماز پڑھیں کہ صفوں میں کھسکتے رہیں؟؟اسی سے ان کی
توجہ ختم ہو جاتی ہے اور پھر وہ شرارتوں میں لگ جاتے ہیں۔
یہ رجحان صرف بر صغیر میں ہے ورنہ خلیجی ممالک میں یا مکہ مکرمہ اور مسجد
نبوی میں اس طرح کے مناظر دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔وہاں بھی ناسمجھ بھی اور
سمجھ دار دونوں طرح کے بچے ہوتے ہیں لیکن وہاں بچوں کو ساتھ کھڑے رکھنے کا
رجحان ہے۔اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بچے نظر کے سامنے رہتے ہیں اور وہ
جانتے ہیں کہ ابو یا بھائی ہمیں دیکھ رہے ہیں۔اس لیے وہ شرارت کرنے سے باز
رہتے ہیں۔بہتر یہی ہوگا کہ اگربچوں کی شرارت کا اندیشہ ہو تو بچوں کو ایک
ساتھ ایک جگہ جمع نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کو متفرق اور منتشر کر کے صفوں
کے درمیان کھڑا کیا جائے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک یا دو بچے شرارت کرتے ہیں اور نماز کے بعد لوگ
سارے ہی بچوں پر پل پڑتے ہیں اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے لگتے ہیں ،اب
اگر بچے صفائی دے رہے ہوں تو ڈانٹ کر چپ کرا دیا جاتا ہے یاوالدین نے حمایت
کر دی تو ان کو بھی ’ریمانڈ‘ پر لے لیا جاتا ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے اس واقعہ میں سبق ہے کہ ہندوستان کے ایک صاحب مسجدِ نبوی
میں نماز پڑھ رہے تھے تو دیکھا کہ بچے صفوں کے درمیان دوڑ بھاگ رہے ہیں ،ان
کو پورا یقین تھا کہ نماز ختم ہوتے ہی لوگ ان بچوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور بری
طرح ڈانٹیں پھٹکاریں گے مگر انھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نماز کے بعد
بچوں کو ان کے والدین نے بڑے پیار سے چوما اور گود میں بٹھا لیا۔اسی طرح کا
واقعہ ان کے ساتھ مسجدِ حرام میں بھی پیش آیا تو انھوں نے اپنے عزیز جو
وہیں مقیم تھے ،اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ اچھا ہوا کہ آپ نے
صرف دیکھا ،اگر آپ غلطی سے بھی بچوں کو ڈانٹ دیتے یا ان کے والدین سے شکایت
کرتے تو لوگ آپ کو’ سنانا‘ شروع کر دیتے۔یہاں عام خیال ہے کہ مسجدِ نبوی
میں بچوں کا حق سب سے زیادہ ہے ،اگر وہ نادانی میں بھاگیں ،دوڑیں یا شرارت
کریں تو اس میں نہ تو کوئی حرج ہے اور نہ ہی کوئی کراہیت۔اس لیے کہ حضرت
حسنؓ اور حسین ؓ بھی مسجد میں بھاگتے دوڑتے منبر تک چلے آتے تھے ۔
تبھی کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں نبی کریم ﷺ نے حسنؓ اور حسینؓ کو
مسجد میں آنے سے روکا ہو اور ان کے دوڑنے بھاگنے پر ڈانٹا ہو یا حضرت
فاطمہؓ سے کہا ہو کہ بچوں کو مسجد میں مت آنے دیا کرویا یہ کیوں جاتے
ہیں؟؟بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبیِ کریمﷺ کے ساتھ آپﷺ کی نواسے اور نواسی
بھی آتی تھیں۔ابوقتادہؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبیﷺ کو لوگوں کی امامت کرتے
ہوئے دیکھا اور امامہ ؓبنت ابو العاص،آپ ﷺ کی نواسی آپ ﷺ کے کندھے پر سوار
تھیں،(یہ آپﷺ کی صاحبزادی سید زینبؓ کی بیٹی تھیں)جب آپﷺ رکوع کرتے تو ان
کو بٹھا دیتے اور جب سجدہ سے کھڑے ہوتے تو پھر ان کو کندھے پر بیٹھا
لیتے(مسلم:۶۴۳) ۔آج کے دور میں کوئی ایسا کر دے تو ’بزرگ حضرات ‘ اس کو کان
پکڑ کے باہر نکال دیں گے۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے دور میں بچے بچیاں مسجدوں میں آتے
تھے ،اس لیے ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ بچوں کو مسجد آنے سے روکیں۔اگر وہ
شرارت کر بھی رہیں ہوں تو ان کو پیار سے سمجھائیں کہ مسجد اللہ تعالی کا
گھر ہے ،یہاں شرارت نہیں کرنی چاہیے۔اس سے ان کے اندر احساس پیدا ہوگا اور
وہ بچنے کی کوشش کریں گے مگر لوگوں کو تو تربیت کرنے سے کہیں زیادہ آسان
اور اچھاڈانٹ ڈپٹ کرنا لگتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ شرارت کر بھی رہا ہے تو اس
کو سب کے سامنے ڈانٹ مار کے ذلیل نہ کریں بلکہ اس کو اکیلے میں سمجھائیں
،بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ان کے ہم عصروں کے سامنے برا بھلا کہنے سے ان کو بے
عزتی محسوس ہوتی ہے اور پھر وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں اور بات ماننے سے
انکار کر دیتے ہیں یا مسجد میں آنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ساتھ ہی صبر و تحمل سے
کام لیں، ان سے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ فوراً ایک ہی بار میں آپ کی بات مان
لیں گے ،ان کا ذہن آپ کے ذہن کے برابر نہیں ہے ،اس لیے اپنے بچپن کو ذہن
میں رکھتے ہوئے ان کی تربیت کریں۔
اب ذرا دوسرے رخ پر بھی نظر ڈال لیں۔مسجدوں کے آس پاس کتنی گندگی ہوتی
ہے۔خود مسجدوں کے اندر ٹوائلٹ،باتھ روم اور استنجاءخانے اتنے گندے اور بدبو
دار ہوتے ہیں کہ داخل ہوتے ہی دماغ پھٹنے لگتا ہے،مسجدوں میں جگہ جگہ تیل
کے دھبے ،ٹوپیوں پر میل کی پرت جمی ہوئی رہتی ہیںاور’بڑے لوگ‘ اپنے جوتے یا
چپل مسجد کے اندر لے جاکر رکھتے ہیں،اس کی جو جگہ بنائی جاتی ہے وہاں نہیں
رکھ سکتے،جس کی وجہ سے مسجد گندی ہوتی ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ لوگ آ کر
صاف کرتے ہوں۔جب کہ اس کا ثواب بھی ہے ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے
فرمایا میری امت کے ثواب میرے سامنے پیش کیے گئے یہاں تک کہ ایک تنکا جس کو
کسی شخص نے مسجد سے نکال دیا ہو اس کا بھی ثواب پیش کیا گیا(ابوداﺅد:۱۶۴)
لیکن ہم لوگ کا حال یہ ہے کہ مسجد کی صفائی ’موذن یا امام ‘ہی پر فرض
سمجھتے ہیں۔
مگران سب باتوں پر نہ تو کسی کی روکنے ٹوکنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی درست
کرنے کی۔غصہ اگر آتا ہے توان معصوم بچوں پر جو اپنے والدین کے ساتھ خوشی
خوشی آتے ہیں، جو ابھی نادان ہیں اور آدابِ نماز یا احترام سے واقف نہیں
ہیں۔اسی وجہ سے بچے مسجدوں میں نہیں آنا چاہتے ۔پھر کیانبیِ کریمﷺاور صحابہ
کرام کے دور میں بچے’ بزرگ‘ تھے؟ان میں بچوں کی خصوصیات نہیں تھیں؟کیا وہ
دوڑ بھاگ ،شرارت
نہیںکرتے تھے؟لیکن ایسی کوئی روایات نہیں ملتی جس میں آپ ﷺ نے اس پربچوں کو
ڈانٹا ہو۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کے ساتھ شفقت ،محبت اور نرمی کا رویہ
اپنایا جائے تاکہ وہ مسجد سے بیزار نہ ہوں اور بچپن ہی سے نماز کے عادی
بنیں۔ |