معلومات تک رسائی کا حق اور عام آدمی

ہمارے ساتھ اور سامنے یہ سب کچھ روز ہوتا ہے کہ ہم کسی سبزی فروش کے ہاں جائیں یا کریانہ کی دکان پر وہ ہمیں کس معیار کی چیز اور کن داموں پر فروخت کر رہا ہے اس کا کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ،اور اگر آپ عام آدمی ہو اور کسی جرنل اور میڈیکل اسٹور سے کچھ خریدیں اور ان سے معیار اور نرخوں کے بارے میں پوچھیں تواکثر دوچار باتیں سُنا کر سامان واپس لے لیا جائے گا مگر کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں ملے گا،شہروں میں صفائی کے کام پر مامور بلدیہ کا عملہ افسران ، نمائندگان کے گھروں کی صفائی میں لگے ہونگے مگر شہروں میں کچرے کے ڈہیروں اور گندگی میں روز اضافہ ہوگا پر آپ کو اس بارے میں معلومات نہیں ملے گی کہ اس محکمہ میں کتنے خاکروب کام کرتے ہیں اور کہاں کہاں صفائی کے کاموں پر مامور ہیں یہ رکارڈ میسر نہیں ہوگا،ضلعی سطح پر سالانہ اربوں روپوں کا بجٹ ملتا ہے،مگر اکثرآپ کو ٹوٹی سڑکیں ، پینے کے پانی کی شکایات ، نکاسی آب کا بوسیدہ نظام ، تفریحی پارکوں کی خستہ حالت ،کھیلوں کے اُجڑے ہوئے میدان ہی نظر آتے ہیں ، ترقیاتی کاموں پر ملنے والی بجٹ کا آدھا بھی خرچ ہوجائے تو شاید کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں ، مگر آخر کام کیوں نہیں ہوتے اور وہ رقم کتنی اور کہاں جاتی ہے اس بارے میں معلومات ملنا بہت مشکل ہے ، ان سب مسائل کی جہاں دوسری وجوہات ہیں وہیں سب سے اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ایک عام آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے علاقے میں کتنی رقم کن کاموں کے لئے خرچ ہوئی ہے، اسی لئے اب یہ ضروری بن چکا ہے کہ عام آدمی کو معلومات تک رسائی کا حق ملے تاکہ وہ اپنے اس حق کو استعمال کرکے اپنے علاقوں میں ہونے والے کام اور ان پر کئے جانے والے اخراجا ت سے واقف ہو،دنیا میں جہاں دیگر انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے وہیں معلومات تک رسائی کے حق کو بھی بنیادی حق تسلیم کیا جاتاہے،

آج کی دنیا میں 1946 ع میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ معلومات تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے، پاکستان میں 2002 میں فریڈم آف انفارمیشن کے نام سے آرڈیننس لایا گیا،جس کے بعد 2013 میں ایکٹ کی صورت میں سامنے آیا،اب اسے قومی اور صوبائی اسمبلی میں سے پاس ہوکر قانونی شکل اختیار کرنی ہے،پاکستان کے 1973 کے آئین میںسیکشن 7 ( اٹھارویں ترمیم) ایکٹ 2010 ( 2010 کا دسواں نمبر) میں نئی شق 19(A) شامل کرکے ہر شہری کے معلومات تک رسائی کے حق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” قانون کے لاگو کئے گئے ضابطوں میں رہ کر عوامی اہمیت کی ہر معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے“

پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون مختلف مراحل سے گذرا ہے،اور اب پاکستان معلومات تک رسائی ایکٹ 2013 پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پڑا ہے،پاکستان میں معلومات تک رسائی کو کبھی بھی خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے،اسی وجہ سے اب تک اس سلسلے میں کی گئی قانون سازی پر عمل درآمد ایک مسئلا بنا ہوا ہے،معلومات تک رسائی بھی دیگر سماجی حقوق کی طرح اہم ہے مگر اس کے بارے میں عوام کو آگاہی کی بہت ضرورت ہے، اس سلسلے میں سندہ کے شروعاتی طور پر دو اضلاع دادو اور سانگھڑ میں سماجی تنظیم آکسفیم جی بی کے تعاون سے سافکو آگاہی کا کام کررہی ہے، کیونکہ اس قانون کا اصل مقصد عام عوام کو فائدہ پہچانا ہے اور وہ سب جو کہ ان سے وابسطہ ہے اُس کے بارے میں ان کو معلومات دی جائے، مگر اس کے لئے لوگوں کو آگاہی کی بھی ضرورت ہے، پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون بن رہا ہے اور بن بھی جائے گامگر اُس کا حشر کرپشن کے خلاف بنائے گئے اینٹی کرپشن کے محکمے جیسا تو نہیں ہوگا،قانون اور ادارے بننا تو اچھی بات ہے مگر جب تک ان اداروں میں ایمانداری اور مخلصی نہیں ہوگی ان کا فائدہ عام عوام تک نہیں پہچ سکے گا، لیکن معلومات تک رسائی کو اور بھی آسان بنایا جائے تو شاید مسائل بہتری کی جانب جا سکیں گے ،ضلعی سطح پر ترقاتی کاموں اور دیگر عوام سے متعلقہ ادارے اگر اپنا مکمل رکارڈ کمپیوٹرائزڈ کریں اور اس کے بارے میں ہر معلومات اگر وہاں موجود ہو تو شاید کچھ بہتری ممکن ہے ، جہاں تک معلومات تک رسائی کا حق اور اس کے بارے میں قانون اور ادارے بنانے کے بعد بھی اگر عوام نے اس میں دلچسپی نہیں لی تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ لوگوں میں شعور کو بیدار کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے، کیونکہ اب تک عام عوام کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا معلومات کس طرح حاصل کرسکتے ہیں، اور ہو سکے تو اس قانون کو جتنا ہوسکے آسان اور شفاف بنایا جائے تاکہ عام لوگ نہ صرف اس سے مستفید ہوں بلکہ اس قانون سے رشوت خوری ، لُوٹ مار ، غیر معیاری ترقیاتی کاموں کا خاتمہ بھی ہوسکے۔

Sarwar Baloch
About the Author: Sarwar Baloch Read More Articles by Sarwar Baloch: 5 Articles with 3955 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.