سانحہ راولپنڈی

محرم الحرام کے مہینہ شروع ہوتے ہی ملک بھر میں سیکورٹی کے مناسب انتظامات کئے گئے تھے تا کہ ملک کسی قسم کے نا خوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے ۔ محرم کے 9دن تو ملک میں کسی قسم کا نا خوشگوارواقعہ نہیں پیش آیا اور سب کا خیال تھا کے 10 محرم بھی امن و آمان سے گزر جائے گا لیکن بد قسمتی سے 10 محرم کو راولپنڈی راجہ بازار فوارا چو ک کے قریب ایک نا خوشگوار واقعہ پیش آیا جس نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا اس واقعہ کے نتیجے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 12 افراد جان بحق اور 60 افراد زخمی ہوئے اور 150 دکانوں کو جلا دیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد راولپنڈی شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور موبائل سروس بند کر دی گئی راولپنڈی سے ملحقہ راستوں کو کنٹینر لگا کر بلاک کر دیا گیا جس کی وجہ سے راولپنڈی کا نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا اور لوگوں کو ان کے گھروں تک محدود کر دیا گیا جس کی وجہ سے راولپنڈی کی عوام کو کرفیو کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اشیائے ضرورت کی چیزیں نہیں مل رہی تھیں اور جو چھوٹی دکانیں کھلی ہوئی تھیں وہ مہنگے داموں اشیاء کو فروخت کر رہے تھے کاروباری مراکز بند ہونے کی وجہ سے معیشت کو 22 ارب کا نقصان اٹھانا پڑا اور اگر جلاؤ گراؤ کو ملایا جائے تو کہیں زیادہ بنتا ہے۔

17 نومبر ، سانحہ راولپنڈی میں جاں بحق افراد میں سے تین کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اس سے پہلے وزیرِ اعلی شہباز شریف راولپنڈی پہنچے اور انہوں نے مولانا سمیع الحق کی قیاد ت میں علماء کے وفد سے ملاقات کی جن میں ان کو یقین دلایا گیا کے کسی قسم کے اشتعال انگیز بیانات سے گریز کیا جائے گا اور علماء کو بھی یقین دلایا گیا کہ واقعہ کے ملزموں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی جس کے بعد ان افراد کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں کرفیو کے با وجود ہزاروں افراد نے شرکت کی اور علمائے کرام نے بھی بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو صبر و تعمل کا درس دیتے رہے جس کی وجہ سے کوئی نا خوشگوار واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا ۔

سانحہ راولپنڈی میں ہمارے میڈیا نے بہت ذمہ داری کا ثبوت دیا میڈیا کی آزادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب میڈیا نے آزادی کے مفہوم کو صیح طرح سمجھا تھا اور یہ موقع عاشورہ کے روز سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے سامنے آیا ۔ آزادی کے بھی کچھ حدود و قیود ہوتے ہیں اور ہمارا میڈیا مبارک باد کا مستحق ہے کے اس نے اس سانحہ کے موقع پر اپنی بھر پور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اگر میڈیا نے اس واقعہ کی
براہِ راست کوریج کی ہوتی تو ملک میں فساد بر پا ہو سکتا تھا جس کے باعث کئی جانیں جا سکتی تھیں اور املاک کو بھی نقصان پہنچایا جا سکتا تھا ۔

سانحہ راولپنڈی پر عدالتی کمیشن قائم کر دیا گیا ہے جو کہ حکومت ِ پنجاب کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر بندیال نے جسٹس مامون رشید کی سر براہی میں قائم کیا اس کے ساتھ پنجاب حکومت نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی قائم کر دی جس کی قیادت نجم سعید کر رہے ہیں ۔ یہ سات روز کے اندر اپنی رپورٹ وزیرِ اعلی کو پیش کرے گی اس کے بعد یہ ذمہ داری حکومت پنچاب کی ہوگی کہ وہ ملزموں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دے تا کہ آئندہ ایسے کسی بھی قسم کے نا خوشگوار واقعات سے بچا جا سکے۔

سانحہ راولپنڈی میں انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہے اور انتظامیہ کی نا اہلی کا کھلا ثبوت ہے کہ جو محرم کا جلوس سا لہا سال سے امام بارگاہ کرنل مقبول حسین سے برآمد ہو کر تین بجے سہ پہر مسجد تعلیم القرآن سے گزرتا تھا وہ اس برس نمازِ ظہر سے پہلے کیسے پہنچ گیا یہ وہ سوال ہے جس کا جواب انتظامیہ کو دینا ہوگا تا کہ واقعہ کے حقائق کو سامنے لایا جا سکے ۔

Shakir Abbasi
About the Author: Shakir Abbasi Read More Articles by Shakir Abbasi: 8 Articles with 6366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.