سوچ کے دھارے کو بدلنا ہو گا

انتظار کرنے والوں کو صرف اتنا ہی ملتا ہے ،جتنا کوشش کرنے والوں سے بچ جاتا ہے۔اور ہم انتطار کو صبر کا نام دیتے ہیں ۔اور آخر میں کہتے ہیں قسمت میں نہیں تھا،(ڈاکٹر عبدلقدیرخان)

انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے۔انسان جتنا ہی عظیم ہو گا ،اس کی گفتگو اتنی ہی جامع ،پر کشش اور بامعنی ہوگئی۔

ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ! جن میں انسان کی کامیابی کا واحد راز پوشیدہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اسے ایک الگ پہچان دی ،اسے اپنی مخلوق میں سب سے افضل بنایا۔اور کچھ اختیارات بھی انسان کو دیدئے۔انسان کائنات کے نظام میں ردوبدل نہیں کر سکتا۔لیکن ذاتی معملات اپنی مرضی سے سر انجام دے سکتا ہے۔اور جزا اور سزا کا تعلق بھی انسان کے ذاتی معملات تک محدود رکھا۔قوموں کا عروج و زوال بھی انسانی کی محنت پر ہی منحصر ہے۔تاریخ گواہ ہے ۔آج انسان نے جتنی بھی ترقی کی محنت مسلسل کوشش اور لگن کے بل بوتے پر۔ انسان اپنی کامیابی تو اپنے حصے میں ڈالتا ہے لیکن اپنی ناکامی چھپانے کے لئے بڑی آسانی کہہ دیتے ہیں قسمت میں ہی نہیں تھا ۔

آج اگر مسلم دنیا پر نظر دوڑائی جائے تواس کے زوال کی ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے۔وہ ہے علمی میدان میں مسلمانوں کی محنت لگن اور کوشش کا نہ ہونا۔اس وقت دنیا کی آبادی کا 23فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ لیکں اس کے باوجود مسلمانوں کی پہچان دہشت کرد اور انتہا پسند ہے۔

ہلاکوخان نے جب1258میں بغداد پر حملہ کیا تو وقت بھی مسلمان سنی شیعہ باہم دست گریبان تھے۔ہلاکو خان نے عراق پر قبصہ کیا بصرہ اور کوفہ جیسے عظیم شہر تباہ کر ڈالا ۔مسلمانوں کا بری طرح قتلِ عام کیا مسلمانوں کی لائیبریز،کتب خانے سب کچھ جلا ڈالا.مسلمانوں کا علمی سرمایہ تباہ کر دیا گیا۔یہ مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ تھا جس کا ازالہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا ۔لیکں اسلام کو اس سے بھی زیادہ نقصان فتویٰ فیکٹریوں نے پہنچایا۔فتویٰ فیکٹریوں سے میری مراد وہ نام نہاد دین کے ٹھیکدارمولوی حضرات ہیں ۔جو ہر دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔معاف کیجئے گا میرا مقصد کسی کی توہین نہیں ہے۔میں یہ جانتا ہوں کہ انہی لوگوں کی وجہ سے دین ہم تک پہنچا۔لیکن دین کو ان لوگوں نے ایک مخصوص دائرے تک محدود کر دیا۔یعنی اس سے آگئے نہیں جانا ۔نہ کوئی کچھ سوچے نہ تحقیق کرے ۔اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔جسے یہاں تحریر کرنا ممکن نہیں ہے۔ دورِ حاضرہ پر ہی نظر دوڑائیں توحقائق ہمارے سامنے ہیں۔دینی مدارس جو اسلام کا قلعہ سمجھے جاتے ہیں۔ان میں سائنس وٹیکنالوجی کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر اس موضوع پر بات کی جائے تو جواب ملتا ہے۔یہ تو دنیاوی علم ہے۔ایک ہنر ہے،اور پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔اس کے سواا ور کچھ نہیں ۔اصل علم تو قرآن وحدیث ہے ۔اس بات سے کسی بھی مسلمان کو انکار نہیں ہے کہ اصل علم قرآن وحدیث ہے لیکن سائنس کا علم قرآن کی ہی تشریح ہے۔قرآن مجید کائنات میں غورو فکر اورتدبر کی تاکید کرتا ہے۔آج دنیا کی سب سے بڑی امریکن خلائی تحقیقاتی کمپنی ناسا اپنی خلائی تحقیق کیلئے قرآن سے رہنمائی لے رہی ہے۔لیکن ہمارا حال یہ ہیکہ ہم ہر سائنسی ایجاد کے خلاف پہلے فتویٰ دیتے ہیں ۔مسلمانوں کو اس سے فائدہ اُٹھانے سے روکنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔لیکن جب ٹیکنالوجی ہمیں روندتی ہوئی آگئے نکل جاتی ہے تو پھر اس کا خود بھی استعمال اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔آج ہم سینہ پھلا کر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی بم اسلامی بم ہے۔ لیکن سائنسی میدان میں ہماری کارگردگی صفر ہے۔مسجد میں استعمال ہونے والی ہر چیز سائنس اور ٹیکنالوجی کہ اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہم جس مصلے پر نماز پڑھتے ہیں ،جس پر تسبیح ہم ہاتھ میں لے کر سبحان اللہ ،اللہ اکبر کا ورد کرتے ہیں،جو احرام پہن کر ہم حج و عمرہ کے لئے جاتے ہیں ۔وہ سب ہم چین سے امپورٹ کرتے ہیں۔لیکن اپنے نوجوانوں کو سائنس کی تعلیم دیناگناہ سمجھتے ہیں۔

اگردینی مدارس جو اسلام کاقلعہ سمجھے جاتے ہیں۔ اگرتعلیمی حالت دیکھی جائے تو برائے نام ہی ہے۔اعلیٰ تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ کسی دینی مدارس کے فارغ التحصیل ہو کر نکلنے والے طالبِ علم گریجویٹ بھی ہوتے ہیں۔ تو گریجویٹ طلبہ کی تعداد 0.002فیصد،نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہو گا۔اور سائنسی میدا ن میں نتیجہ زیرو ہی ہو گا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ مدارس کو بھی ایسے لوگ تیار کرنا چاہیے جو سائنسی میدا ن میں اپنا کردار ادا کریں۔ مدارس میں ریسریچ لیباٹریزہونی چاہیے۔کمپیوٹراور سائنس کی تعلیم دی جانی چاہیے۔

آج اگر مسلمان دنیا میں مظلوم ہیں تو اس کی بھی وجہ علمی میدا ن میں مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا ہے۔اسرائیل جو ایک غیر قانونی ریاست ہے۔جیسے پاکستان نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔وہاں پر فصلوں کی کاشت کے لئے پانی کی کمی ہے۔اس کا حل سائنسدانوں نے یہ نکالاکہ پڑے پڑے پول کھڑے کر کے ان کے ساتھ باریک جعلی لگا دی۔ہوا میں موجود آبی بخارات جعلی کے ساتھ ٹکرانے سے پانی کے چھوٹے چھوٹے قطروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔اور وہ پانی کے ننھے ننھے قطرے جعلی کے ساتھ موجود پکی نالی میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔جن سے اتنی مقدار میں پانی جمع ہو جاتا ہے جس سے کھیتوں کو سیراب کیا جا سکے۔اور اسرائیل اس پانی سے تیارکی گئی سبزیاں نہ صرف خود کھاتا ہے۔ بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی بھیجتا ہے ۔جو ہر جمعہ کی نماز کے بعد اسرائیل کی بربادی کے لئے صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔

اگر لمبے لمبے خطبے واعظ ونصحیت اور لمبی لمبی تقاریرکرنے سے کامیابی حاصل کی جا سکتی تو ایٹم بم کے بانی آج ڈاکٹر عبدالقدیر نہ ہوتے بلکہ حضرت مولانا فلاں ،فلاں ہوتے۔کسی چیز میں محنت وکوشش کے بغیر اسے حاصل کرنا خداکے قانون کے بھی خلاف ہے۔ نبی پاکﷺ کے لئے نصرت کے فرشتے اترتے ہیں تو وہ بھی میدانِ جنگ میں ۔اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتو کیا اپنے حبیب ﷺکو گھر بیٹھے مدد کر سکتا تھا۔ لیکن آپ ﷺ خود صحابہ کرام کی ایک جماعت لے کر لڑتے رہے۔

حیران کن بات تو یہ ہیکہ ہم ایک ایسے مذہب کے نام پر علم کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔جس کی بنیاد پہلی آیت ہی پڑھنے کاحکم دیتی ہے۔علم کے بارے میں حدیث پاک میں بھی زور دگیا ہے۔یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو ماں کی گودسے لے کر گور تک۔ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا علم حاصل کرو چاہے تمہیں اس کے لئے چین جانا پڑھے۔اب چیں میں کون سا علم تھا۔کیا وہ دین کا علم تھا جس کی حکم آپ ﷺ نے دیا۔جنگِ بدر کے قیدیوں سے آپﷺ نے فدیہ لینے کے بجائے مسلمانوں کے دس دس بچوں کو پڑھانے کوکہا۔اب بھی کیا اس چیز کا کوئی جواز رہ جاتا ہے۔کہ ہم کہیں کہ یہ علم صرف پیسہ کمانے کا زریعہ ہے؟ سائنس ہمیں گمراہ کر رہی ہے؟ایک ویڈیو میرے نظر سے گزری جس میں مولانا صاحب انتہائی جوشیلے انداز میں فرما رہے تھے۔اللہ کے بندوفیس بک حرام ہے ۔اس پر نبی پاک ﷺ کی گستاخی کی گئی ہے۔مجھے مولانا صاحب کی معصومیت پر ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا۔کہ کس طرح مسلمانوں کو علم کے ایک بہترین زریعے سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے جاہلانہ فتووں کا اثر یہ ہو گا۔جو لوگ دین سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ تو دور ہو جوئیں گئے۔اور کمزور ایمان والے لوگ اس کی پروہ کئے بغیر اپنے کام میں لگے رہیں گئے۔اور وہ لوگ جو گستاخ ہیں جب ان کی روک ٹھوک والا اور انہیں دلیل سے جواب دینے والا کوئی نہیں ہوگا تو ان کا راستہ صاف ہوگا۔اب انہیں اسلام کے خلاف اس طرح کے پرپگنڈے کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے گئی۔اور وہ کمزور ایمان لوگ بھی ان لوگوں کے شر کا شکار ہو جائیں گئے۔اور اس طرح مسلمانوں کو علم سے دور کرنے کابہت ہی آسان طریقہ ہو گا۔جس چیز سے بھی مسلمانون کو دور رکھنا ہو وہاں پر اس طرح کی گستاخی کرو۔مسلمان خود بخود دور ہو جائیں گئے۔مولانا صاحب کو کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ بھی اپنے بچوں کو انٹر نٹ کی تعلیم دیں۔میں بھی دیتا ہوں تاکہ ایسے گستاخون کو منہ توڑ جواب دینے والے کی کوئی کمی نہ ہو۔مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ٹیکنالوجی مسلمانوں کو گمراہ کر رہی ہے۔اور اس کے لئے مختلف قسم کے دلائل اور مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔

انسانوں کہ بھلائی کے لئے کوئی بھی چیز جو سائنسدان نے ایجاد کی ہے ۔وہ اس کا پورا پور حق دیتے ہیں۔استعمال کا۔جتنا ان کے پاس ہے۔ اب اگر ان کے پاس بھی اتنا ہی اختیار ہے جتنا ہمارے پاس تو پھر ہمیں گمراہ کیسے کر رہے ہیں؟اگر وہ ہمیں گمراہی کی طرف لے کر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم انہیں اپنے دلائل سے حق کی طرف کیوں نہیں لا سکتے ؟کیونکہ اصل علم تو ہمارے پاس ہے۔حق ہمارے پاس ہے۔ ان کے پاس اگر کوئی دلیل ہو گئی بھی تو وہ ظاہر ہے جھوٹی ہو گئی۔اور ہمارے پاس حق اور سچ ہونے کے باوجود ہم ڈر رہے ہیں؟آخر کیوں؟یہ تو میدان سے بھاگنے والی بات ہوئی جیسے کوئی شخص ایک تلوار ہمیں دے ،اور ایک خود رکھے ۔اور کہے کہ مجھ سے مقابلہ کر و۔اور ہم کہیں نہیں نہیں یہ تو مجھے مار ڈالے گا۔

کوئی بھی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی۔اس کا استعمال اچھا یا بُرا ہوتا ہے۔اوراُس کے منفی یا مثبت اثرات ضرور ہوتے ہیں۔اگر ہم ایک پانی کا گلاس جسے ہم پانی پینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اگر اس سے پانی پئیں تو اچھا اثر ،اور اگر اسی گلاس میں شراب ڈال کر پی جائے تواثرات بُرے ہوں گئے ۔بلکہ اسی طرح انٹرنٹ کے بھی اچھے اور بُرے اثرات دونوں ہوتے ہیں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں انٹرنٹ کے اچھے کے بجائے بُرے اثرات زیادہ پڑ رہے ہیں۔اور اس کی بڑی وجہ بھی تعلیم کی کمی ہے۔ اورانٹرنٹ کے استعمال سے ناواقفیت ہے۔کیوں کہ جب سکول کالجز یونیورسٹی اوردینی مدارس میں انٹرنٹ کی تعلیم نہیں دی جائے گئی۔اور انٹرنٹ کو تعلم کے لئے نہیں استعمال کیا جائے گا۔تونوجواں اسے صرف تفریح کے لئے استعمال کریں گئے۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ گناہ کی طرف آسانی سے مائل ہوتا ہے۔اور اس کا نتیجہ بھی ہمیں بھگتنا پڑے گا۔جب تک ہم سوچ کو نہیں بدلیں گئے۔
Muzammil Abbasi
About the Author: Muzammil Abbasi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.