بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سوال: میں نے کچھ رقم اپنی والدہ کو دے دی ہے، ان پیسوں پر زکوٰۃ دینا مجھ
پر لازم ہے یا نہیں؟
جواب: اگر آپ نے اپنی والدہ کو یہ رقم ہبہ (گفٹ) کی ہے تو آپ پر اس رقم کی
زکوٰۃ واجب نہیں۔ اگر وہ مالک نصاب ہوں اور زکوٰۃ کی دیگر شرائط ان میں
پائی جارہی ہوں تو وہ اس رقم کی زکوٰۃ ادا کریں گی۔ لیکن اگر آپ نے یہ رقم
قرض دی ہے اور آپ میں شرائط زکوٰۃ موجود ہیں تو پھر اس کی زکوٰۃ آپ ہی کے
زمہ ہے۔
سوال: کیا امیر الموٌمنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ مرادِ رسول ﷺ ہیں؟
جواب: جی! آپ مرادِ رسول ہیں، کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے آپکے اسلام لانے سے دو
دن قبل یہ دعا کہ تھی، جو صحاح ستہ میں سے جامع ترمذی کتاب المناقب اور
مستدرک حاکم میں موجود ہے کہ
’’اللّٰھُمَّ اَعِزِّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ اَوْ
بِعَمْرِو بْنِ ہِشَام۔‘‘
ترجمہ: ’’اے اﷲ عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام (ابو جہل) میں سے کسی ایک کے
ذریعے اسلام کو عزت وغلبہ عطا فرما۔‘‘
سوال: کیا شراب پینے والے کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی؟
جواب: صحاح ستہ میں سے سنن نسائی کی کتاب الاشربہ، سنن ابن ماجہ کی کتاب
الاشربہ کی احادیث کا مفہوم ہے:
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی شراب کا ایک گھونٹ پئے گا
تو اس کی چالیس دن تک کی نماز قبول نہیں ہوگی، پھر اگر وہ شخص توبہ کرے تو
اﷲ کریم اس کی توبہ قبول فرمالیں گے۔ پھر اگر وہ شخص (دوبارہ) شراب پئے گا
تو چالیس دن تک اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، اس کے بعد اگر وہ توبہ کرے تو
اﷲ کریم اس کی توبہ قبول فرمالیں گے۔ پھر اگر وہ شخص شراب پئے تو اﷲ اسے
’’ردغۃ الغبال‘‘ ضرور پلائیں گے، صحابہ کرام نے ’’ردغۃ الغبال‘‘ کے متعلق
سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا وہ جہنمیوں کا خون اور پیپ ہے۔
سوال: کیا صالح والدین کا اثر ان کی نسلوں پر بھی ہوتا ہے؟
جواب: اس سلسلہ میں تاریخ کے اوارق سے ایک واقعہ ملاحظہ کریں:
خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور میں ایک خاتون اپنی بیٹی کو
دودھ میں پانی ملا کر بیچنے کی ترغیب دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ پانی
ملا لو امیر المؤمنین کو خبر نہیں ہو گی۔ اسی لمحہ بیٹی نے جواب دیا: ماں!
امیر المؤمنین کو تو خبر ہو نہ ہو لیکن امیر المومنین کا رب تو دیکھ رہا
ہے! اتفاق سے امیر المؤمنین اس وقت گشت کے دوران ماں بیٹی کا یہ مکالمہ سن
رہے تھے، آپ خاموشی سے واپس تشریف لے گئے اور صبح اپنے بیٹے عاصم کو اس خدا
خوف لڑکی سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا، چنانچہ رشتہ بھیجا گیا جو منظور کرلیا
گیا، اور پھر تاریخ عالم گواہ ہے کہ اسی نیک جوڑے کی اولاد سے خلیفہ راشد
حضرت عمر بن عبد العزیز پیدا ہوئے جنہوں نے بنو امیہ کے دورِ حکومت میں
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور حکومت کی یادیں تازہ کیں اور آپ کا دور
حکومت تاریخ کے سنہری دوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
سوال: سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فضائل کیا ہیں؟
جواب: نواسہ رسول سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ خوبصورت بھی تھے
کیونکہ حبیب خدا ﷺ سے مشابہ تھے اور خوب سیرت بھی کہ امام الانبیاء ﷺ، حضرت
علی المرتضیٰ اور سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہما کی بے مثال تربیت کے
نتیجے میں انتہائی پاکباز، متقی، پرہیزگار، شب بیدار، روزوں کی کثرت کرنے
والے، بے حد صدقہ و خیرات کرنے والے، انتہائی بہادر، غیور، صاحب استقامت،
حق گو، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، اور ضرورت مندوں
کی ضرورتیں پوری فرمانے والے تھے۔
آپ ہی کے متعلق رسول خدا حضرت محمد مصطفیﷺ نے دعا فرمائی تھی، جو جامع
ترمذی کی کتاب المناقب میں ہے کہ
’’اَحَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْنًا‘‘
ترجمہ: ’’اﷲ اس سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے۔‘‘
آپ اور آپ کے بڑے بھائی حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہما (جو دونوں گل گلستان
رسول ہیں) کے متعلق ہی جامع ترمذی کی کتاب المناقب اور مسند امام احمد کی
مسند الشامیین میں حدیث مقدسہ ہے:
’’الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ۔‘‘
ترجمہ: ’’(سیدنا)حسن اور (سیدنا) حسین (رضی اﷲ عنہما)جنتی نوجوانوں کے
سردار ہیں‘‘
داستانِ حج
ایک بزرگ غلاف ِ کعبہ پکڑے بارگاہ الٰہی میں عرض گزار ہیں: ’’الٰہی ! اس
گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور کلمہ حج میں دو حرف ہیں ح اور ج ، الٰہی!
ح سے تیرا حکم اور ج سے میرے جرم مراد ہیں تو، اپنے حکم سے میرے جرم معاف
فرمادے‘‘
آواز آئی! ’’ اے میرے بندے تو نے کتنی عمدہ مناجات کی، پھر کہو۔‘‘
وہ بند ۂ خدا دوبارہ نئے انداز سے یو ں پکارتا ہے: ’’اے میرے بخشنہار ، اے
غفار ! تیری مغفرت کا دریا گہنگاروں کی مغفرت و بخش کے لیے جوش زن ہے اور
تیری رحمت کا خزانہ ہر سوالی کے لیے کھلا ہے ،الٰہی ! اس گھر کی زیارت کو
حج کہتے ہیں اور حج دو حرف پر مشتمل ہے ح اور ج ،ح سے اگر میری حاجت اور ج
سے تیرا جود مراد ہے تو تُو اپنے جو د و کرم سے اس مسکین کی حاجت پوری
فرمادے۔‘‘
آواز آئی: ’’ اے جوانمرد تو نے کیا خوب حمد کی ، پھرکہو۔‘‘
وہ پھر عرض کرنے لگا: ’’اے خالق کائنات! تیری ذات ہر عیب و نقص اور کمزوری
سے پا ک ہے تو نے اپنی عافیت کا پردہ مسلمانوں پر ڈال رکھا ہے ،میرے مولا!
اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں حج کے دو حرف ہیں ح اور ج ، ح سے اگر میری
حلاوت ِایمانی اور ج سے تیری جلالتِ جہانگیری مراد ہے تو تُو اپنی جلالت
جہانگیری کی برکت سے اس ناتواں ، ضعیف و نزار بندے کے ایمان کی حلاوت کو
شیطان سے محظوظ رکھنا۔‘‘
آواز آئی: ’’میرے مخلص ترین عاشق وصادق بندے ، تو میرے حکم، میرے جودو کرم
اور میری جلالت جہانگیری کے توسّل سے جو کچھ طلب کیا میں نے تجھے عطا
فرمایا۔ ہمارا تو کام ہی مانگنے والے کا دامن بھر دینا ہے مگر بات تو یہ ہے
کوئی مانگے تو سہی، کسی کو مانگنے کا سلیقہ تو آتا ہو!!!
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہ رو منزل ہی نہیں |