زلزلہ سے متاثرہ ضلع آواران اوروہاں کی خواتین کے مسائل

تباہ کر گئیں مجھے پکے گھر کی خواہشیں
میں اپنے گاوں کے کچے مکان سے بھی گیا
میں آپ کوپاکستان کے ایک ایسے علاقے کی سیر کروانا چاہتی ہوں اور اس کے مسائل اجاگر کرنا چاہتی ہوں جسکا نام شاید ہی بلوچستان سے باہر کسی پاکستانی نے سنا ہو۔زندگی کی بنیادی سہولیات اور انفراسٹرکچر سے محرو م ایک علاقہ جو بظاہرتو ایک ضلع ہے،اور وہ بھی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑاضلع ۔ایک ایسا ضلع جس کا ہیڈکوارٹر بھی ایک انتہائی پسماندہ علاقے کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں اول تو پینے کا پانی نہیں اور اگر ہے تووہ بھی ایسا کہ جسے پینے سے شاید جانور بھی کتراتے ہوں،البتہ کہیں کہیں کنویں اور ہینڈ پمپ بھی نظر آتے ہیں۔ایک ایسا ضلع جہاں ذرایع آمدورفت اول تو ہے نہیں اور اگرہے تو ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک جو کہ بیلہ کو آواران سے ملاتی ہے، جہاں سفر کرنے کہ بعد صدیوں کہ سفر کا گمان گذرتا ہے، یہاں انفراسٹرکچر کی کمی کا یہ حال ہے کہ کچی پکی پگڈنڈیاں ایک علاقے کو دوسرے سے ملاتی ہیں، کہیں کہیں اونٹ بھی ذرایع آمدورافت کے فرائض نبھاتے ہیں۔ایک ایسا علاقہ جہاں بجلی نام کو نہیں کہیں کہیں ذاتی جنریٹر اور سولر سسٹم نظر آتے ہیں،صرف ٹاؤن میں بجلی جنریٹر کے ذریعے مہیا کی جاتی ہے مگر وہ بھی پیناڈول کی گولی کی طرح ،دو گھنٹے صبح دو گھنٹے رات کو۔ایک ایسا علاقہ جہاں کے اسکول اساتذہ کے دیدار کو ترستے ہیں ، اور شرح تعلیم مشکل سے۲فیصد ہوگی۔ ایک ایسا علاقہ جیاں پکے گھر آٹے میں نمک کی طرح ملیں گے۔زیادہ تر کچے مقانات اور جھونپڑیاں ہیں۔ایک ایسا علاقہ جہاں صحت کی حالت اور بھی نازک ہے،اسپتال میں موجودکمپوڈر سے لے کر دائی تک سب ہی ڈاکٹر کا رول کرتے نظر آتے ہیں اور تو اور اسکول کے ٹیچر اورملابھی ڈاکٹر کہلائے جاتے ہیں،اور یہ معصوم لوگ انہیں مسیحا سمجھ کر اپنا مرض کم کرنے کہ بجائے بڑھاتے ہیں۔ میڈیکل سینٹر کی کمی اور ان میں ڈاکٹرکی عدم دستیابی اسکی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں گیس نام کو نہیں، عورتیں لکڑیاں جلا کر کھانا بناتی ہیں۔

اکیسویں صدی کے اس دور میں یہ حالات ہیں ایک ایسے ضلع کے جو کہ قرون وسطہ کے مناظر پیش کرتا ہے۔اور اگرشاید اس سے پہلے کوئی اس بارے میں کچھ لکھتاتو لوگ اسے مبالغہ آرائی سمجھتے،مگر چوبیس ستمبر۳۱۰۲؁ کی شام ساڑھے چار بجے زمین نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیااور ہر آنکھ اشکبارہونے کے ساتھ ساتھ دنگ رہ گئی یہ دیکھ کرکہ جہاں ایک طرف دنیاچاند کی بلندی کو چھو چکی ہے وہیں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں کے مکین زندگی کی انتہائی بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں۔ جی ہاں میں بات کر رہی ہوں ضلع آواران کی جس کی حقیقت حالیہ زلزلے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا پر آشکارہ کردی۔

ضلع آواران جو کہ پہلے ہی بدترین حالات کا شکار تھی اس زلزلے کے نتیجے میں مزید تباہی کی طرف بڑھ گئی، جہاں کہ مکین پہلے پانی، بجلی ،خوراک،صحت، تعلیم ،گیس اور ذرایع آمدورفت ک لیے ترستے تھے اب چھت اور چاردیواری کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔یہ شعر ان کے تباہ شدہ حالات کی مکمل ترجمانی کرتا ہے
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے گھر میں راستے بنا لیے

اس زلزلے نے جہاں بربادی کے کے انمٹ نقوش چھوڑے ، لوگوں کوانکے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا کیا، اور لوگوں کی جمع پونجی ایک پل میں چھین لی،وہیں دنیا کے لیے بھی کئی سوالیہ نشان چھو ڑے کہ کیا یہ لوگ اس زمین کے رہنے والے نہیں ہیں؟؟ کیا ان کا ان سہولیات زندگی پہ کوئی حق نہیں؟؟کیایہ ہمیشہ صحت اور تعلیم کے لیے ترسیں گے؟؟ کیا انفراسٹرکچر جو کہ کسی علاقے کی ترقی کی بنیاد ہوتے ہیں وہ اس سے ہمیشہ محروم رہیں گے؟؟ کیا ہمارے ارباب اختیار صحابہ کرام کی زندگیوں سے سبق نہیں لے سکتے جو کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کرصرف اس لیے گھومتے تھے کہ شاید کوئی مجبور ، بے بس بھوکا اور لاچار انسان نظر آئے اور وہ اس کے دکھوں کا مداوا کر سکیں مگر نہیں ہمارے حکمران بے بسی کی تصویربنے ان لوگو ں کو بھلا کراپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔

بات صرف زلزلے تک محدود وقتی تباہیوں کی نہیں بلکہ زلزلے کے نتیجے میں آنے والی ہولناک تباہیوں کی ہے۔اگر صرف وقتی تباہیاں ہوتی تو کسی نہ کسی طرح یہ لوگ اپنی زندگیاں آگے بڑھا چکے ہوتے،مگر یہاں زلزلہ زدگان کے لیے ایک نیا امتحاں کھڑا ہے اور زلزلے کے نتیجے میں نہ ختم ہونے والے مسائل کا جو لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ہے وہ تمتا نظر نہیں آتا ۔دیکھا جائے تو مسائل کا انبھار ہے جو آواران کے لوگوں کو پریشان کر رہا ہے، مگر میں یہاں چیدہ چیدہ مسئلوں کواجاگر کروں گی ۔ایک لیڈی ڈاکٹر ہونے کے ناطے ان مسائل سے شدید متاثر میں نے عورتوں کہ دیکھا ہے جو کہ بلواسطہ یا پھر بلاواسطہ متاثر ہوئی ہیں۔ جیسا کہ میں نے زلزلے کے بعدشروع کہ دس دنوں میں ان خواتین کو دیکھا ہے جو کہ زلزلے سے براہراست متاثر ہوئیں اور کئی حاملہ عورتیں موت کے منہ میں چلی گئیں ۔کچھ عورتیں منہدم مکانات کے نیچے دبنے کی وجہ دردوں میں مبتلا ہوئیں اور بچوں سے محروم ہوگئیں، کچھ بچہ دانی پھٹنے کی وجہ سے مر گئیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مالار کی رہائشی ایک عور ت ز لزلے کے عین وقت دردوں میں مبتلا تھی اور کمزو ر ہونے کی وجہ سے باہر نہ نکل سکی اور موت کے منہ میں چلی گئی ۔

جہاں ز لزلے کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں، وہیں لوگوں کے پاس موجود انکا واحد سہارہ ان کی چھت ان سے چھن گئی اور وہ یا توجھونپڑیوں میں محدود ہو گئے یا پھر خیموں میں دن رات گزار رہے ہیں ، جنہیں ہوا کا ایک جھونکا اکھاڑسکتاہے یا بچے ہوئے سامان کوبار ش کی چند بوندیں تباہ کرسکتی ہیں۔متاثرین کی ایک بڑی تعدادتو اسی وجہ سے اپنی زمین اور املاک چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے کیوں کہ ایک طرف تو یہ زلزلہ کا شکار ہوئے اور دوسری جا نب آواران کے اند ر برسوں سے جاری کشیدہ حالات جن کی وجہ سے ان تک امدادی سامان کی رسائی بھی مشکل ہو گئی ۔

مذکورہ بالا حالات کی وجہ سے یہاں کئی لوگ Post traumatic stress disorder میں مبتلا ہوگئے ہیں یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کسی مخصوص افسوس ناک واقعہ کی وجہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں انہیں وقتن فوقتن ڈپریشن اور غشی کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔عورتوں میں مردوں کی نسبت PTSD کے مریض زیادہ ہیں۔کیونکہ عورتیں زیادہ تر گھروں میں رہتی ہیں اوران کے سامنے چوبیس گھنٹے ان کے ٹوٹے پھوٹے گھر، ان سے بچھڑے ہوے لوگ،اور ان سے وابسطہ پرانی یادیں رہ گئی ہیں۔ کیوں کہ جہاں ایک طر ف ا ن کے سامنے اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم اور املاک کا ضیاع ہے ، تو دوسری جانب آنے والے نامسائد حالات بھی ہیں جو کہ ا نہیں مزیدپریشان رکھتی ہیں۔حالیہ دنوں میں اسی وجہ سے اکثر حاملہ عورتیں بلند فشار خون میں مبتلا ہو رہی ہیں اور ان میں شرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔حاملہ عورتوں کو یہی بات پریشان رکھتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد یہ آنے والے ننھے مہمان کو کیسے ان پریشانیوں سے بچا پائیں گی جو کہ انکا مقدر بن چکی ہیں اس ننھی سی جان کو وہ کیسے موسم کے سردو گرم سے محفو ظ ر کھ پائیں گی۔اسے نمونیا، ٹاییفائید،ا،ملیریا ، ٹی بی اورپیٹ کی خطرناک بیماریوں سے کیسے بچا پائیں گے۔لیٹرین کی عدم دستیابی اور پانی کی کمی، جو کہ کنوئیں خشک ہونے کی وجہ سے ہوئی ، وہ صفائی جیسی نصف ایمان سے کیسے استفادا کر سکیں گی اور یہی ڈرانہیں پریشان رکھتا ہے ،
کچھ غیر سرکاری اور مذہبی تنظیمیں اپنی میڈیکل کی ٹیموں سمیت ان علاقوں میں روز اول سے مصروف ہیں اور اپنے تئیں کوشش کر رہی ہیں مگر ان میں سے کسی کہ ساتھ کوئی لیڈی ڈاکٹر یا میڈیکل سٹاف نہیں اس لیے یہ عورتیں اپنے مسائل کسی کے ساتھ شئر نہیں کرسکتیں
یہاں میں چند ایک تجاویز پیش کرنا چاہوں گی جس سے اس علاقے کی مشکلات کا کچھ حل نکل سکے
۱؛ ہر یونین کونسل میں ایک لیڈی ڈاکٹر اور فیمیل سٹاف کی تعیناتی اور وہ بھی گررنمنٹ کی سطح پہ کیوں کہ جب ان سخت حالات میں فوج آگے آکے کام، کرسکتی ہے تو گورنمنٹ کیوں نہیں
۲؛ہنگامی بنیادوں پہ تباہ شدہ علاقوں میں لیٹرین بنوانا
۳؛علاقے میں بحالی کے کام کو جلد ازجلد آگے بڑھانا
۴؛لوگو ں کو جلد از جلدمستقل رہائش کی سہولت دینا
۵؛ذرایع آمدورفت کو بہتر بنانا تاکہ لوگوں کی میڈیکل سینٹرز تک رسائی آسان اور ممکن ہو سکے