یہودی جو کہ خود کو سب سے زیادہ بلکہ یوں کہ لیں کہ صرف
وہ خود کو ہی اس قابل سمجھتے ہیں کہ وہی صرف دنیا پر حکومت کرنے کا حق
رکھتے ہیں اور کئی سالوں سے وہ اس کی راہ ہموار کرتے چلے آ رہے ہیں اور
عظیم تر اسرائیل جو کہ انکا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور وہ اپنے اس گول کو
حاصل کرنے کے لیے ہر پستی میں اتر گئے ہیں۔ فری میسن (پرانا نام ٹمپلرز ) ،
الومیناتی اور بہت سی تنظیمیں ایسی ہیں جو کہ اپنے اس منصوبے کے حصول کے
لیے رات دن ایک کر رہی ہیں اور کچھ ایسے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں جو کہ
بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہیں جن میں ایم کے الٹر، بیک ٹریکنگ، جادو ، ہارپ
ٹیکنالوجی، مائکرو چپس، اور شارٹ وژن وغیرہ شامل ہیں پر بہت تیزی سے کام کر
رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم ، بینکنگ، جمہوریت
اور بہت سے ایسے معاملات میں پھنسا دیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس سے نلکنا بھی
چاہے تو بہت ہی مشکل نظر آتا ہے۔
ایم کے الٹر، جیسے کہ نام ہی سے ظاہر ہے اور اس میں ایم مائنڈ اور کے کنڑول
کے زمرے میں آتا ہے۔ عام طور پر کوئی کھیل کھلاڑی آپس میں کھیلتے ہیں۔
لیکن یہ کھیل سادہ لوح اجنبیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ عام طور پر کسی
کھیل کو کوچ ، مینجر اور ریفری کھلاتے ہیں لیکن یہ کھیل ایسا جس کی نگرانی
تھنک ٹینک ، سائنس دان اور یہودی سرمایہ دار کرتے ہیں۔ رینڈ کارپوریشن جیسا
بدنام زمانہ تھنک ٹینک اس کھیل کا نگران ، ایون کیمرون جیسے ذہین یہودی
سائنس دان اس کے کوچ اور راک فیلر جیسا یہودی سرمایہ دار اس کے سپونسر ہے۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کھیل میں لوگوں کے ذہنوں سے کھیلاجاتا ہے۔ ان کی
مرضی کی بغیر ان کے دماغوں کو مخصوص پیغامات بھیجے جاتے ہیں ۔ لہروں اور
شعاعوں کے ذریعے تسلسل کے ساتھ بیجھے جانے والے یہ پیغامات لوگوں کے ذہن کو
رفتہ رفتہ اپنا معمول بنا لیتی ہیں اور وہ بے خودی اور خود فراموشی کے عالم
میں سوچے سمجھے بغیر وہ سب کچھ کرتے چلے جاتے ہیں جو کہ یہودی ان سے کروانا
چاہتے ہیں۔
یہود کو آخر اس پروجیکٹ میں کیا دلچسپی ہے ؟ اور وہ اس پر کیوں اتنی خطیر
رقم خرچ کر رہے ہیں؟ پہلے ہم اس کو سمجھ لیں کہ اس پروجیکٹ میں کس طرح کی
ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے۔ آج کل کے دور میں تعلیم یافتہ لوگ لوگوں کی
اکژیت دنیا کی تازہ ترین ایجادات سے آ گاہ ہے لیکن ایم کے الٹرا میں
انسانی ذہن کو مسخر کر کے اپنا تابعدار بلکہ غلام بنانے کے لیے کس طرح کام
کیا جا رہا ہے اس سے دنیا کی تعلیم یافتہ لوگوں کی اکژیت آگاہ نہیں ہے۔ اس
ٹیکنالوجی میں ہائی فریکونسی مائیکروبیمز خارج ہوتی رہتی ہیں۔ یہ اپنے ہدف
کو ٹرانس میں لر کر اس کے لاشعور کو گرفت میں لے لیتی ہیں اور اس کا لاشعور
اس کے شعور کو وہ پیغامات ٹرانسفر کرتا ہے جو یہاں بیٹھے شیطان نما انسان
،فرد یا افراد کے ذہنوں میں منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ شعاعیں کسی بھی
انسان کو کسی بھی مقصد کے لیے کچھ بھی کرنے کو آمادہ کر سکتی ہیں۔
اس کی پروجیکٹ کی تین بڑی مثالیں ہیں ان میں پہلی ہے جان ایف کینیڈی کی۔
جان ایف کینیڈی وہ کیتھولک صدر تھا جو فری میسن نہیں تھا ۔ اس سبب برادری
اس کو ناپسند کرتی تھی ۔ جان ایف کینیڈی کا قتل ایم کے الٹرا کی ایک عمدہ
مثال ہے۔ دوسری مثال اس جان کینیڈی کے بھائی رابرٹ کینیڈی کی ہے۔ کینیڈی کے
قتل کے بعد تمام تر شورو غوغا کے باوجود کیس ختم کر دیا گیا۔ یہ اقدام عوام
اور کینیڈی خاندان کے لیے نہایت پریشان کن تھا۔ اس کے بھائی رابرٹ کینیڈی
اور اس کی بیوی جیکولین کینیڈی نے ذمہ داری سنبھال لی۔ رابرٹ کینیڈی نے عزم
کیا کہ وہ اس سازش کے خلاف کھڑا ہوگا ۔ اپنے بھائی کے قتل کے مقدمے کو
انجام تک پہنچائے گا اس نعرے نے اس کو بے حد مقبولیت دی لیکن برادری کے
اجینڈے میں یہ چیز شامل ہی نہیں تھی اور ان کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا تھا
کہ اس سے جان چھڑا لیں ۔ چنانچہ وہ بھی قتل ہو گیا۔ اور ایم کے الٹرا کی
تیسری مثال جان لینن کے مشہور قتل کی ہے۔
تو آپ یہ دیکھیں کہ کس طرح یہودی مسلمانوں کو دولت۔ بینکنگ اور جمہوریت
جیسی چیزوں میں پھنسا کر اپنے دجال کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں اور ہم لوگ
کن پستیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ہمیں ناچ گانے سے ہی فرصت نہیں ہے ۔۔۔ ہماری
نوجوان نسل کا دماغ میڈیا اور فلموں کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے اور
جہاد کے مقصد کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا ہے۔
ایک عظیم الشان حدیث جسے ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے جس میں
راوی کہتا ہے کہ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ ان دنوں کون سی چیز لوگوں کے
لیے حیات بخش ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تسبیح ( سبحان اللہ کہنا) ، تمہید
( الحمد اللہ کہنا) ، تکبیر ( اللہ اکبر کہنا) کھانے پینے کی جگہ ان کے
اندر سرایت کر جائے گی”
اللہ ہم سب کو فتنہ دجا ل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین |