آج ہر طرف ایک بحث برپا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور
فرقہ واریت کا بیج سابق آمر جنرل ضیاء الحق نے بویا تھاجس کے ثمرات آج پوری
قوم بھگت رہی ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اس طبقے کی آواز ہے جسے ایک فوجی
آمر( ضیاء الحق )کی افغان جنگ تو پسند نہیں مگر دوسرے فوجی آمر (پرویز
مشرف)کی افغان جنگ پر واری جاتے ہیں ،اپنی پسند وناپسند کے اس معیار کی
بنیادی وجہ ان دونوں فوجی حکمرانون کا دین دوست اوردین مخالف رویہ ہے تمام
ترپروپیگنڈااپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے جنرل ضیاء الحق ایک ایسا حکمران تھا
جس نے قومی غیرت اور اسلامی حمیت سے گندھا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی
جبکہ پرویز مشرف نے جہاں قومی غیرت کا جنازہ نکالا وہیں اسلامی حمیت کی بھی
دھجیاں اڑا دی تھیں،رہی بات ملک میں فرقہ واریت کے فروغ کی تو حقائق سے
نظریں چرا کر تاریخ کومسخ نہیں کیا جا سکتا گوکہ اہلسنت اور اہل تشیع میں
مذہبی مخاصمت نئی بات نہیں ہے اورناہی اس کے تناظرمیں فرقہ وارانہ فسادات
اس دور کا قضیہ ہیں اس کے پیچھے 14سوسال کی تاریخ ہے ،لیکن اس سے انکار
نہیں کیا جاسکتا کہ جو تباہی عالم اسلام میں پچھلی سواتین دھائیوں سے ہو
رہی ہے اس نے سابقہ تمام واقعات کوپس پشت ڈال دیا ہے وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ تاریخ کے اوراق سے یہ حقیقت طشت ازبام ہورہی ہے کہ 1979 میں ایرانی
انقلاب محض کسی شخصیت کی کرشمہ سازی نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے مدتوں تک کی
جانیوالی سوچ وبچار اورامت مسلمہ کو سنی شیعہ فسادات کے الاؤ میں دھکیلنے
کی مبینہ سازش کار فرما تھی۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ سنی اکثریتی ملک پاکستان میں ایران کے خمینی انقلاب
سے پیشتر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نامی تنظیم کا کوئی وجود نہ تھااورکیا بھلا
کسی ملک کی مذہبی اکثریتی آبادی کسی اقلیتی طبقے کی مذہبی اجارہ داری تسلیم
کر سکتی ہے ؟یقینا نہیں تو سمجھ لیجئے کہ یہی وہ نقطہ آغاز ہے مشرق وسطیٰ
اور پاکستان میں مذہبی منافرت کی انتہاؤں کا ۔۔۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ
پاکستان واحد ملک ہے جہاں کئی بار سنی شیعہ مناقشت کو جنگ وجدل سے نکالنے
کے لئے عوامی اورحکومتی سطح پر منظم کوششیں کی گئیں مگرافسوس کہ وہ خفیہ
ہاتھ ہمیشہ اپنی چال میں کامیاب ہو جاتا ہے جسے نا تو اس ملک کا امن عزیز
ہے اور ناہی اپنے بنائے گئے منصوبوں کی ناکامی کا صدمہ سہنے کی ہمت۔
مجموعی طور پر اس تناظر میں جو کوششیں کی گئیں ان کی اجمالی تفصیل اور کچھ
احوال بیان کردیتے ہیں تاکہ قارئین کو معلوم ہوکہ اتنی کاوشوں کے باوجود وہ
کون سے ہاتھ ہیں جو اتنے طاقت ورہیں کہ جن کے سامنے حکومتیں بھی بے بس ہو
جاتی ہیں اس حوالے سے اولاًمذاکرات کی میز میاں نواز شریف کے پہلے دور
اقتدار میں سجائی گئی جب نامور عالم دین اور وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا
عبدالستار نیازی کی سربراہی ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے
400جید علماء شامل تھے انہوں نے بڑے شرح وبست کے ساتھ دونوں متحارب جماعتوں
(سپاہ صحابہ+تحریک جعفریہ )کی قیادت کا مؤقف سنا اور پھران کو اسلامی وقومی
حقوق وفرائض کا احساس دلاکر معاشرے میں فروغ پذیر جذباتی ماحول سے نکالنے
کے لئے ایک متفقہ ضابطہ اخلاق مرتب کیا اور پھر اسی ضابطہ اخلاق کو سامنے
رکھتے ہوئے ایک قانونی ڈرافٹ بھی تیار کیا گیاجس کے لئے الگ سے آئینی
ماہرین سے مشاورت کی گئی یہ بہت مشکل اوراہم مرحلہ تھا کہ مذہبی منافرت کے
بارے میں قانون سازی کی طرف قدم اٹھائے جا رہے تھے بلآخر وہ دن بھی آیا جب
گورنرہاؤس لاہور میں وزیراعظم میاں نوازشریف اورتمام مکاتب فکر کے اہل علم
اور دانشوروں کی موجودگی میں ضابطہ اخلاق اور قانونی ڈرافٹ پڑھ کر سنایاگیا
اور سب لوگ بہت اطمینان لیکر رخصت ہوئے کہ اب مسئلہ کم از کم قتل وقتال کی
طرف نہیں جائے گا اور میاں صاحب نے بھی اسے اپنے بہت بڑے کارنامے کے طورپر
عوام کے سامنے پیش کیا تھالیکن کچھ ہی عرصہ گزرا کہ سب لوگ خاموش ہوتے چلے
گئے اور پھر یہ ساری محنت سرخ فیتے میں لپیٹ کر کسی سرکاری الماری میں
سجادی گئی ۔
دوسری کاوش سپاہ صحابہؓکے مرحوم سربراہ مولانا اعظم طارق نے خود اسمبلی کے
ذریعے کی اور1993میں قومی اسمبلی میں تحفظ ناموس صحابہؓواہلبیت ؓبل پیش کیا
لیکن افسو س اسے ہمیشہ مختلف بہانوں کے ذریعے التوامیں ڈالا جاتا
رہاحالانکہ اس کی تیاری میں ملک کے جید علماء واکابرین کی محنت شامل تھی
اور اس میں توہین صحابہؓواہلبیت ؓپر سخت سزاؤں کا قانون منظور کروایا
جاناتھا(یاد رہے کہ اس وقت توہین صحابہؓ واہلبیت ؓپر جوقانون موجود ہے اس
کے تحت سزاصرف تین سال اور قابل ضمانت جرم ہے)
تیسری کاوش میاں محمد شریف کی طرف سے کی گئی جب ڈاکٹر اسرار احمد کی
سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی گو کہ اس میں انہیں اپنے بیٹوں کا پورا
پورا ساتھ حاصل تھا مگر چند اجلاسوں کے بعد تحریک جعفریہ کے نمائندہ وفد نے
یہ کہہ کر اس کمیٹی میں بیٹھنے سے انکار کردیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد کے بیٹے
کی شادی محرم میں ہوئی تھی لہٰذا ہمیں ان کی سربراہی قبول نہیں ،یوں اس بار
بھی لوگ حسرتیں دل میں لئے رہ گئے۔
چوتھی کاوش مکمل طور پر عوامی تھی جس میں کسی قسم کی سرکاری مداخلت نہ تھی
اور جسے ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء واکابرین کی اس قدر
سرپرستی حاصل تھی کہ نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد اتنی بڑی عوامی کاوش سامنے
آسکی اور یہ تھی ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل،جس کی سربراہی متفقہ طورپر
نامور اہلسنت عالم دین مولانا شاہ احمد نورانی کو دی گئی تھی اس کے متفرق
اجلاس ہوئے کھل کر تلخ وشیریں باتیں ہوئیں باوجود اس کے کہ سپاہ صحابہ ؓ کی
تمام مرکزی قیادت بہاولپور کے ایک جاگیردار کے قتل کے الزام میں پابند
سلاسل تھی لیکن ان کی یہ اسیری بھی امن کوششوں کی راہ میں حائل نہ ہو
سکی،ملی یکجہتی کونسل کی حیثیت بھی ایک جرگے کی سی تھی جہاں متنازعہ مواد
سے لیکر قتل و غارت گری تک ہر بات کا مکمل تک کا جائزہ لیا گیا اور بلآخر
مولانا عبدالستار نیازی کمیٹی کی سفارشات کوبھی سامنے رکھ کر ایک نیاضابطہ
اخلاق بنایاگیا جسے ہر دو فریقین نے قبول کیا اورملی یکجہتی کونسل کے آغاز
میں کہاگیا تھا کہ متفقہ مسودہ مکمل ہونے کے بعد تمام مکاتب فکر کے جید
علماء کانمائندہ وفد وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹوسے ملاقات کرکے ان کویہ
پیش کرے گااوراسے قانون سازی کا حصہ بنایاجائے گا مگر بد قسمتی اِس قوم کی
اور خوش قسمتی امن دشمن قوتوں کی کہ جونہی ملی یکجہتی کونسل کا کام مکمل
ہوا انہی دنوں پی پی حکومت کابھی خاتمہ ہوگیا اور قوم نئے الیکشن میں الجھ
گئی وہیں ملی یکجہتی کونسل کے چند اکابرین نے اسے دینی قوتوں کے سیاسی
اتحاد کے طورپرمیدان میں لانے کا فیصلہ کیاجیسے ہی اس بارے میں مشاورت شروع
ہوئی سپاہ صحابہؓکی قیادت نے فوری اقدام اٹھاتے ہوئے کہاکہ ملی یکجہتی
کونسل کی حیثیت ایک جرگے کی ہے اور اگراسے سیاسی اتحاد کی طرف لے جایاگیا
تو ہمارا اس سے کوئی تعلق نہ ہوگالیکن چند مخصوص علماء اپنی ہٹ دھرمی پر
قائم رہے اور ملی یکجہتی کونسل کا جنازہ نکل گیا۔(اس سے یہ بات بھی ثابت
ہوگئی کہ جس طرح ڈاکٹر اسراراحمد کی کمیٹی میں شیعہ قیادت کے بیٹھنے سے
انکار پر اس کی کوئی حیثیت نہ رہی تھی اسی طرح ملی یکجہتی کونسل میں سپاہ
صحابہؓکی قیادت کے انکار کے بعد اس کی حیثیت بھی ختم ہو گئی تھی اس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ غیرنمائندہ لوگ جتنے مرضی اتحاد یاکمیٹیاں تشکیل دے لیں
وہ حقیقی سنی شیعہ نمائندگی سے محروم رہیں گے)
پانچویں بار امید کی کرن سپریم کورٹ کے پلیٹ فارم سے نظر آئی جب سابق چیف
جسٹس سجاد علی شاہ نے بڑھتی ہوئی سنی شیعہ قتل وغارت گری پر سوموٹو ایکشن
لیا ایک طرف سپاہ صحابہ+لشکرجھنگوی تو دوسری طرف تحریک جعفریہ +سپاہ محمد
کی قیادت کو طلب کرلیاابھی کیس میں تقریباً ایک ایک بار تمام فریقین کو سنا
گیا تھا کہ اسی اثناء میں ان کی وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ مخاصمت
پیداہوگئی جس کے نتیجے میں ان کو سپریم کورٹ سے ہٹادیاگیایوں یہ امید کی
کرن بھی ان کے ساتھ ہی ختم ہو گئی(بعدازاں انہوں نے اس کیس کا ذکرریٹائرمنٹ
کے بعد اپنی کتاب میں بھی کیا تھا کہ میں اس کیس کو ہرصورت نمٹانا چاہتا
تھا تاکہ پاکستان میں امن ہومگر۔۔۔)
چھٹی بڑی کاوش ایک بارپھرمیاں نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں چیف جسٹس
سیدسجاد علی شاہ کو ہٹانے کے کچھ عرصہ بعد کی گئی جب ان کے حکم پر وفاقی
سطح پرمتحدہ علماء بورڈ کے نام سے ایک کمیٹی بنائی گئی تاکہ گلیوں بازاروں
میں لگی آگ کو ٹیبل پرٹھنڈا کیا جاسکے اور کئی بارایساہواکہ اس کمیٹی کے
اجلاسوں میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف
نے بنفس نفیس شرکت کی ، اس کمیٹی میں شامل ملک بھرکے جید علماء نے جہاں
سرکاری گن مینوں کے مزے لوٹے وہیں کئی نے اپنے علاقے کے لوگوں پررعب جمانے
کے لئے اپنی گاڑیوں کی نمبرپلیٹیں بھی سبز کرلیں جن پرجلی حروف میں ممبر آف
متحدہ علماء بورڈپاکستان لکھا ہوتا تھابلکہ کئی تو ایسے کمال نکلے کہ انہوں
نے اپنی انہی سبز نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کے اوپرنیلی بتی بھی لگوالی خیر
بڑی تگ و دو کے بعد بے شمار کتابوں کو اشتعال انگیز ی کا سبب قرار دے کر
پابندی کا فیصلہ کیا گیا وہیں سابقہ کمیٹیوں کی طرح ان سے ملتا جلتا ایک
متفقہ لائحہ عمل بھی مرتب کرلیا گیاجس کی سرکاری ٹی وی اور پرنٹ میڈیا
پرخوب تشہیر کی گئی مگر اس کے باوجود خفیہ ہاتھ اپنا کام کرتا رہا اور
وزیراعظم کی خواہش کے باوجود اسے قانونی یا عملی شکل نہ دی جا سکی اور اس
کے کچھ دنوں بعد وزیر اعظم کی موجودگی میں وہ دھماکہ خیز اجلاس ہواجس کے
بعد اس پلیٹ فارم پربھی سنی شیعہ قیادت مل کر نہ بیٹھ سکی قارئین کی دلچسپی
اور موجودہ حالات کے پیش نظر اس کا ذکر مناسب سمجھتے ہوئے یہ واقعہ سپاہ
صحابہؓکے سربراہ علامہ علی شیر حیدری مرحوم کی زبانی رقم کردیتے ہیں ،ایک
اجلاس میں جس کی صدارت خود وزیراعظم میاں نواز شریف کررہے تھے میں وزیراعظم
نے مجھے اورتحریک جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجدنقوی سے سوال کیا کہ آج آپ
دونوں ہاؤس کوآگاہ کریں کہ آپ دونوں کو ایک دوسرے سے تکلیف کیا ہے؟اس
پرعلامہ ساجدنقوی نے کہاکہ جناب وزیر اعظم یہ لوگ ہمیں کافرکہتے ہیں اور
اگر یہ لوگ یہ نعرہ لگانا بند کردیں تو ہمیں ان سے کوئی تکلیف نہیں یہ
ہمارے بھائی ہیں اس کے بعد مجھ سے پوچھا گیا کہ اب بتائیں کہ آپ کو ان سے
کیا تکلیف ہے تو میں نے کہامجھے اِن سے تین تکلیفیں ہیں نمبر 1: یہ لوگ
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کومانیں یا نہ مانیں ان کی قسمت مگر ان
کو گالی نہ دیں۔ نمبر2:یہ اپنی امام بارگاہوں میں اذان وہ دیں جو ان کی
کتابوں میں لکھی ہوئی ہے کیونکہ ان کی موجودہ اذان ہماری شدید ترین مذہبی
دل آزاری کا سبب ہے۔نمبر3:یہ لوگ ماتم دس دن نہیں 365دن کریں لیکن میرے
دروازے پر نہیں بلکہ اپنے عبادت خانے میں کریں۔اب میاں نواز شریف علامہ
ساجد نقوی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ آپ علامہ علی شیرحیدری کی باتوں کا
کیا جواب دیتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ میں ان کی باتوں کا جواب اگلی میٹنگ
میں دونگااس پرمیں دوبارہ کھڑا ہوا کہاکہ ان سے جو جواب لینا ہے وہ آج ہی
لے لیں یہ اگلی میٹنگ میں نہیں آئیں گے ،میاں نواز شریف نے کہاکہ علامہ
صاحب یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں وفاق میں میں بیٹھا ہوں پنجاب میں شہباز
بیٹھے ہیں ہم دیکھ لیں گے کہ یہ کیسے آکرجواب نہیں دیتے تو میں نے ہنستے
ہوئے کہاکہ اتنی ولایت میں بھی رکھتا ہوں کہ یہ دوبارہ اس ہاؤس میں نہیں
آئیں گے اورنا ہی انہیں کوئی لاسکے گا اس میٹنگ کے بعد باہرنکل کرعلامہ
ساجد نقوی نے اپنے وفد کے ہمراہ پریس کانفرنس کی کہ وزیراعظم کی موجودگی
میں ہمیں گالیاں دی گئیں اس لئے آئندہ ہم متحدہ علماء بورڈمیں نہیں بیٹھیں
گے یوں یہ قصہ بھی تمام ہوا۔
میرے خیال میں اب ایک بار پھر حالات اس نہج پرپہنچ چکے ہیں کے دونوں فریقین
کو اسلام کفر کا فیصلہ کرنے کی بجائے صرف اور صرف ملکی امن اور معصوم عوام
اور ان کی املاک کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بار پھر آمنے سامنے بٹھایاجائے
اور جہاں اہل تشیع کے جلوس جویکم محرم سے شروع ہو کر 20صفر المظفرتک جاری
رہتے ہیں وہیں اہلسنت کے بھی 12ربیع الاول اور خلفاء راشدین کے ایام پر
نکلنے والے جلوسوں کو بھی اب چار دیواری میں محدود کرنے کے لئے کوئی ٹھوس
حکمت عملی مرتب کی جانی چاہئے کیونکہ جس طرح ان جلوسوں کی وجہ سے ملکی
معیشت کا کا پہیہ جام ہو رہا ہے اور کسی بھی اشتعال کی صورت میں شامت عوامی
املاک کی آجاتی ہے صرف یہی نہیں بلکہ ان جلوسوں کے راستے دس دس دن پہلے
کلیئر کروا لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اصل نقصان تودیہاڑی داروں اور چھوٹے
کاروبار والوں کا ہوتا ہے جن کی ریڑھیاں یا چھابڑیاں ان جلوسوں سے کئی دن
پہلے اٹھوادی جاتی ہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی چھوٹا موٹابھی حادثہ ہو
جائے تو بعد کے کئی دنوں تک ان کے کاروبار نہیں کھل سکتے اور یہ صورتحال اب
ناقابل برداشت حد تک سنگین ہوتی جارہی ہے اور یہ بات اب قصہ پارینہ بن چکی
ہے کہ اہل تشیع کے ماتمی جلوسوں میں اہلسنت اب بھی پہلے کی طرح شرکت کرتے
ہیں کیونکہ اب جس طرح جلوسوں کے راستے میں آنے والے تمام
ہوٹل،ریسٹورنٹ،مساجد،مدارس،مکاتب،اسلامی تنظیموں کے دفاتر ،فیکٹریوں
،صنعتوں ،کاروباراور اہلسنت کے گھر وں کو سیکورٹی رسک قرار دے کرخالی
کروالیا جاتا ہے اول تو ان سے کہا جاتا ہے کہ جلوس کے وقت گھر خالی کردیا
جائے اوراگر نہ کیا جائے تو گھر کے اوپر پولیس اہلکار متعین کرکے بطور خاص
ہدایت کی جاتی ہے کہ نہ تو اپنے گھرکادروازہ کھولیں اور نہ ہی کوئی کھڑکی
کھولیں اتنا سب کچھ کرنے کے بعدبھی ان جلوسوں کو خوف کے ماحول کے باوجود
ہرصورت گزارا جاتا ہے توسمجھ میں آنے والی بات ہے کہ سنی شیعہ مفاہمت کی
فضا اگرکہیں اور تسلیم کربھی لی جائے تو کم ازکم ان جلوسوں کی حد تک ختم
ہوچکی ہے ۔
ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ ہر مکتبہ فکر یا مذہب کی عبادت کواس کے عبادت
خانے تک محدود کردیا جائے ورنہ جس طرح کراچی کے تاجر سانحہ بولٹن مارکیٹ
کوآج تک نہیں بھولے اسی طرح اب راولپنڈی کے تاجر جامعہ تعلیم القرآن
اورسانحہ مدینہ مارکیٹ کو کبھی نہیں بھولیں گے اور یہ رستے زخم ناسور بن
جائیں گے ،جلوسوں کو بازاروں میں لانے پرپابندی کے عوامی مطالبے کو کچھ لوگ
مذہب پر پابندی کانام دے رہے ہیں جوکہ سراسرغلط ہے بلکہ یہ ملکی سلامتی کا
مسئلہ ہے اور اہلسنت والجماعت کے راہنما علامہ اورنگزیب فاروقی نے بھی جمعہ
کو یوم احتجاج کے موقع پرکراچی میں خطاب کرتے ہوئے یہی بات کی ہے۔ |