تفرقوں میں نہ پڑو اور متحد ہو جاؤ

سنا تھا مدارس اسلام کے قلعے ہیں جہاں اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے اور مدارس سے بچے دینی و دنیوی علوم سیکھ کر عالم و فاضل بن کر نکلتے ہیں ،پہلے تو علماء حضرات کو معاشرے میں اہم مقام حاصل تھا پھر اک سازش ہوئی اور مولوی حضرات کو ’’دہشت گردملا‘‘ کے ٹائیٹل سے نواز دیا گیا اور مدارس کو بھی مشکوک بنا دیا گیا لیکن اسلام سے محبت کرنے والے اور دین کو سیکھنے والے پھر بھی اپنی تشنگی بجھانے کے لئے مدارس سے جڑے رہے اور علمائے کرام بھی دین کی پیاس بجھانے والوں کی پیاس بجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے،جب دنیا نے دیکھا کہ جتنا اسلام کو دبایا جاتا ہے اس سے زیادہ یہ پروان چڑھ رہا ہے اور پوری دنیا میں اسلام پھلتا پھولتا جا رہا ہے ، مسلمانوں کا پھلنا پھولنا اور ترقی کرنا مسلم دشمن عناصر کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا تو اس نے اک نئی چال چلی اور مسلمانوں میں انتشار کو ہوا دینے کے لئے ان کی صفوں میں اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کچھ ایسے سادہ لوح مسلمانوں کو استعمال کیا جو اپنے تئیں بہت پہنچے ہوئے تھے جنہوں نے ایک دوسرے کو کافر ، مشرک، گستاخ اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا،جس سے مسلمانوں میں انتشار بڑھا اور وہ ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ،اور یوں دشمن کی چال کامیابی سے تاحال جاری ہے اور ہم آپس میں الجھے ہوئے ہیں ،دشمن دور کھڑا ہم پر ہنس رہا ہے اور اپنی کامیابی پر تالیاں بجا رہا ہے ،ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گاکیونکہ ہمیں اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے اور فرمان باری تعالےٰ کو یاد رکھنا ہو گا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’تفرقوں میں نہ پڑو اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو‘‘۔

اگر موجودہ حالات میں مسلم امہ نے اغیار کی سازش کو نہ پہچانا اور چہرے پہ سنت رسول ﷺ کو سجانے والوں کو دہشت گرد سمجھا جانے لگا ،ایک دوسرے کو کافر ،کافر کی گردان جا ری رہی ،منبر رسولﷺ پر مشرک اور گستاخ کے الفاظ استعمال ہوتے رہے اور مدارس کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں سمجھا جاتا رہا تو یاد رکھو تم کبھی اپنے اسلاف کی طرح ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکو گے اپنے ماضی کو کھنگالو ہمارا ماضی کتنا تابناک تھا اور آج ہم فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور پوری دنیا میں ہم پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں حالانکہ امت مسلمہ کا ماضی بڑا تابناک تھا ؂
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

آج امریکہ مدارس پر ڈرون حملہ کرتا ہے اور ہم چپ سادھ لیتے ہیں کہ شاید اس میں دہشت گرد وں کو نشانہ بنایا ہوگا ،ہاں آج دنیا نے بھی اس ’’معصوم دہشت گرد‘‘کی فوٹو اخبارات میں دیکھی ہو گی جس میں ایک معصوم کلی کو نشانہ بنایا گیا ،یقینا مدارس اسلام کے قلعے ہیں ہمیں ان مدارس کی حفاظت بھی کرنی ہو گی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کوئی مدارس کی آڑ لے کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازش تو نہیں کر رہا ،یہاں مجھے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒکی یاد آرہی ہے جس نے کہا تھا ؂

جب میں بھی جوان تھا میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی ،میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو انقلاب، ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کر دے ،یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی ہے ،ان مکتبوں اور مدرسوں کواسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مکتبوں میں پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جوکچھ ہوگا میں اپنی ان آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ،اگر ہندوستان کے مسلمان ان مدارس کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح ہسپانیہ(اندلس)میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کھنڈر اور الحمراء کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ،ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔

خدارا ! اغیار کی سازش کو پہچانیں اور متحد ہو کر دنیا کو بتا دیں کہ مسلماں ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک عضو کو بھی تکلیف ہو گی تو پورے جسم کو تکلیف محسوس ہوگی ۔اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201865 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.