تم کافر ہو،تم تکفیری ہو،تم رافضی ہو،تم نجدی ہو،تم مشرک
ہو ،تم گستاخ ہو،تم واجب القتل ہو،تم اولیا کو نہیں مانتے،تم اکابرین کا
ادب نہیں کرتے،تم صحابہ کرامؓ کے دشمن ہو،تمہیں اہل بیتؓ سے بغض ہے،تمھارا
عبادت کا طریقہ کار ہی غلط ہے،تمھارا طریقہ سراسر اسلام کے خلاف ہے،تم جلوس
کیوں نکا لتے ہو،تم رائے ونڈ کیوں جاتے ہو،تمھارا مذہب غلط ہے نہیں تمھارا
غلط ہے،یہ اور اس طرح کے بے شمار فتوٰی نما مسائل اس وقت ہماری رگ جاں کو
دبوچے ہوئے ہیں،اور کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام دنیا بھر میں ایک
عالمگیر مذہب کی حیثیت رکھتا ہے مگر کہیں بھی نہ اس مذہب کو کوئی خطرہ ہے
نہ کسی کی خباثت سے اس کی صحت ہی پر کوئی فرق پڑتا ہے،دنیا ساری مزے میں ہے
بلکہ اب تو ہمیں دیکھ کر شاید محظوظ بھی ہو رہی ہے کہ یہ کون ہیں اسلام
اسلام کرتے جن کو اسلام کی الف ب کا بھی نہیں پتہ،جھنڈا اسلام کا اٹھائے
پھرتے ہیں مگر اندر سے ہلاکو اور چنگیز سے شدید متائثر ہیں اور یہ کوئی
ایسا غلط بھی نہیں آج اگر ہم اپنی حالت پر نظر دوڑائیں تو سب صاف نظر آجائے
گا،ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے ہیں،یہاں تو اب حالت یہ ہے کہ نجانے کون کس کو
مار دے کافر کہہ کر،کہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے ،ہر کوئی انا پرست
،ہر کوئی اندر سے طالبان ،دوسروں کو انتہا پسند کہنے والے اندر سے انہی کے
رنگ میں رنگے ہوئے،ہم نے یہاں جلوس نکالنا ہے ،ہم نہیں نکالنے دیں گے ،ادھر
آپ نہیں آسکتے ،ہم ہر صورت میں ادھر آئیں گے،یہ کونسا اسلام اور کونسا مذہب
ہے کم از کم ہماری سمجھ میں تو آج تک یہ بات نہیں آسکی ،کہ ضد ہٹ دھرمی
،انا پرستی اور اسلام کا آپس میں کیا تعلق ہے کیا ہمیں دیکھ کر کوئی اسلام
کے نزدیک لگے گا،میں کسی ایک کی بات نہیں کرتا یہاں تو مجموعی طور پر
انسانیت کا قحط پڑا ہوا ہے،منبر و محراب جہاں سے امن آشتی کے پھول بکھرنے
اور صلح وسلامتی کے فوارے پھوٹنے تھے وہاں سے نجانے کیوں اور کس کے لیے
شعلے برسائے جا رہے ہیں،ایک دوسرے کو کافر اور گردن زدنی قرار دینے کے
فتووں کا لا متناہی سلسلہ جاری و ساری ہے،جو جہاں ، جب اور جو چاہتا ہے کر
گذرتا ہے کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں،اس سب میں ریاست کہاں ہے اس کی رٹ
کہاں ہے،مذہب کے نام پر جو ظلم و بربریت یہاں قائم ہے کیا کسی دوسرے ملک
میں اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے،مگر وہاں ریاست کا قانون اتنا طاقتور
ہوتاہے کہ کسی کے لیے ایسا کرنا تو دور کی بات ایسا سوچنا بی محال ہے،مگر
یہاں ساری ریاست ملکر بھی صرف ایک خباثت لاؤڈ اسپیکرنہیں بند کروا سکتی،جی
یہ ایسی خباثت ہے جس پر اگر آج کنٹرل کر لیا جائے تو یقین کیجیئے آدھے سے
زیادہ مسائل خو د بخود حل ہو جائیں،مگر جو انتظامیہ جو ریاست لاؤڈ اسپیکر
اتارنا تو دور کی بات صرف بند نہیں کروا سکتی اس سے اور کیا توقع کی جاسکتی
ہے،یہ مولوی صاحبان اس وقت تک باز نہیں آئیں گے جب تک یہ اسپیکر مکمل نہ
اتارے گئے،اسپیکر سامنے دیکھ کر دوسروں کو صبر کا درس دینے والوں کا اپنا
صبرنجانے کہاں چلا جاتا ہے،یہ لوگ اپنے سامنے لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر اپنے
اوسان پر قابو نہیں رکھ سکتے ،اور اب تو جنازے میں بھی عین میت سامنے رکھ
کر یہ سوچے بنا کہ لوگ نجانے کیسے آئے اور کس کس کی کیا مصروفیت ہے لمبا
لیکچر شروع کر دیتے ہیں،کئی دفعہ مجبوراً لوگوں کو ان کی شان میں باقاعدہ
گستاخی کرنی پڑتی ہے کہ یا حضرت ننگے پیر کھلی گرم جگہ پر کھڑے ہیں رحم
فرمایئے،اس طبقے کو بھی دیگر طبقات کی طرح کسی خاص اصول اور ظابطے کا پابند
کیا جائے،ایمپلی فائر ایکٹ کی مکمل پابندی کروائی جائے،ریاست کا قانون توڑ
کر جو تعلیم دی جائے گی اس تعلیم اور عالم کی عقل و دانش کاانداذہ بڑی
آسانی سے لگایا جا سکتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی اب وقت آگیا ہے کہ دو برادر
ملکوں سعودیہ اور ایران سے بڑے ادب سے گذارش کی جائے کہ جناب بہت ہو گیا اب
برائے کرم اپنے گندے کپڑے اپنے گھر دھوئیں یا کسی اور کو دیکھیں ہمیں معاف
فرمائیں،آپ اپنے ملک میں تو کسی کو ذرا سی بھی چوں چراں تک نہیں کرنے دیتے
اور اکھاڑہ بنایا ہو ا ہے پاکستاں کو،واشگاف لفظوں میں سعودیہ سے کہا جائے
کہ جناب جن کو کافر کہنے کی آپ حوصلہ افزائی فرماتے ہیں پہلے ذرا ان کے مکہ
مکرمہ اور مسجد نبویﷺ میں داخلے پر تو پابندی لگائیں،حج کے دوران ان کو
اپنی صفوں سے نکالیں پھر ہم سے بات کریں،دوسری طرف ایران سے بھی اسی دو ٹوک
لہجے مین گفتگو کی جائے کہ جناب اگر یہ لوگ جن کے بارے میں ہمیں کتابیں
بھجوائی جاتی ہیں کہ اہل بیت کے گستاخ ہیں ان کی اپنے ملک میں آمد اور
دعوتیں نہ صرف بند کریں بلکہ جو آپ کے ملک میں ہیں انہیں وہاں سے دیس نکالا
دیں پھر ہم سے بات کریں،بہت ہو گیا اب بس کردیں ہمیں معاف کر دیں،دنیا ہم
پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ،بہت جگ ہنسائی کروا لی ہم نے اپنی آپ کے کہنے
پر،اب اورممکن نہیں،اور یقین کریں ان دونوں ملکوں سے چندہ اور امداد لینے
والے افراد کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ شاید سینکڑوں میں بھی نہیں ہو
گی،انگلیوں پر گنے جا سکنے والے یہ افراد ہمیں اپنی انگلیوں پر نچا رہے
ہیں،ہمیں اب اور کچھ نہیں تو کم از کم اندھی تقلید کے خول سے باہر آ جانا
چاہیئے،ہمیں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی اخلاقی جرٗات اپنے اندر
پید اکرنی چاہیئے،ہمیں مسلمان کہلوانے کے ساتھ ساتھ اسلام کو سمجھنا اورسنی
سنائی باتوں اور قصے کہانیوں کی بجائے دین کی اصل تعلیمات پر عمل کرنے کی
اپنے طورپر ہر ممکن سعی بھی کرنی چاہیئے،ریاست کو غریب کی جورو بننے کی
بجائے اپنی رٹ کو ہر ممکن قایم کرنا چاہیے،آپ صرف پولیس کو مکمل اختیار دے
دیں ،پھر دیکھیں یہ کیا کرتے ہیں،آپ اس محکمے کو جس کا سلوگن پولیس کا ہے
فرض مدد آپکی پر مکمل اور کھل کر عمل کرنے دیں مہینوں نہیں بلکہ ہفتوں اور
دنوں میں صورتحال بہتری کی طرف اپنا سفر شروع کر دے گی،آپ دنیا کے کسی بھی
ملک کی پولیس کو دیکھ لیں اتنی لاوارث ہر گز نہیں جتنی اپنے ہاں ہے،وہاں
ایک سپاہی کسی منسٹر تک کو جیل بھیج سکتا ہے اور یہاں کسی منسٹر کے نوکر تک
کا چالان کرنے پر پولیس والا خود جیل کے نزدیک پہنچ جاتا ہے،آپ نے موٹر ووے
پولیس کو تھوڑا سا اختیار دیا ہے رزلٹ بھی سامنے ہے،یہ سارے قانون شکن جب
باہر کی دنیا میں جاتے ہیں تو تیر کی طرح سیدھے ہو جاتے ہیں،کیوں صرف اس
لیے کہ وہاں ریاست ،اس کا قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہلکار
مظبوط ہوتے ہیں،یہاں بھی یہ سب ممکن ہے مگر ضرورت صرف تھوڑی سی ہمت اور
جراء ت کی ہے،ہر شخص کے جان و مال اور مذہب و عقیدے کی ذمہ دار ہر حالت میں
ریاست ہے جس سے وہ کسی بھی صورت بری الذمہ نہیں ہو سکتی، اور یہ تمام نہیں
تو کم از کم ہر جامع مسجد کو اپنے کنٹرول مٰیں لے ،یہاں پراکثر نالائق اور
اسکول میں پیچھے رہ جانے اور پھر درس کا رخ رکنے والوں کی بجائے باقاعدہ
سول سروس سے پاس خطیب تعینات کرے،جو لوگوں کو فتووں اور دوسروں کی تحقیر کا
درس دینے کی بجائے اسلام کی اصلی اور مدلل تعلیمات سے آگاہی فراہم
کریں،ریاست ان خطیبوں کو پرکشش معاوضہ دے،ان کو کمشنڈ افسران کی سہولیات
فراہم کرے،اس کے علاوہ ہر جمعے کو دنیا بھر کی طرح باقاعدہ متعلقہ محکمے کی
طر ف سے پرنٹڈ خطبات فراہم کیے جائیں اس سے ذرا بھی دائیں بائیں ہونے کی
صورت میں سخت ترین کاروائی کی جائے، اب وقت آ گیا ہے کہ وزارت مذہبی امور
سے مذہب کا بھی کوئی کام لیا جائے محکمہ اوقاف چندے کے بکسوں سے اپنے بکسے
بھرنے کے علاوہ بھی دین کی کوئی خدمت کرے،تمام فتوٰی ساز فیکٹریاں بند کر
کے کوئی بھی فتوٰی صرف حکومت کا منظور شدہ شریعہ بورڈ جاری کرے اس میں تمام
مسلک کے علماء کی نمائندگی برابری کی سطح پر رکھی جائے،ریاست کی اتھارٹی کو
کسی بھی صورت مجروح نہ ہونے دیا جائے اور ایسا کرنے والے کو کڑی سزا دی
جائے،اسلام کی من مرضی کی تشریح کرنے پر سخت ترین پابندی لگائی جائے ،مکروہ
لٹریچر اور سی ڈیز تلف کر دی جائیں دوبارہ مارکیٹ میں لانے پر دکانوں کو
سیل کر کے لانے والوں کو جیل یاترا کرائی جائے،عبادت گزاروں ور عبادت گاہوں
کا احترام ہر صورت ملحوظ خاطر رکھا جائیاور اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا
جائے،اسپیکر صرف مسجد کے احاطے کے اندر ہی استعمال کی اجازت دی جائے ،خلاف
ورزی پر مولوی صاحب کے علاوہ منتظم کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی جائے، یہ
نہ کوئی مذہب ہے نہ اسلامی تعلیمات ،اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتاکہ ہو صحابہ
کرام ؓ کا چاہنے والااور گلے کاٹے بے گناہوں اور ،معصوموں کے،ہو اہل بیتؓ
کا محب اور پولیس کی بندوق چھین کر اندھا دھند فایرنگ کرے اپنے کلمہ گو
بھائیوں پر،نہ صحابہؓ کا چاہنے والا ایسی حرکت کر سکتا ہے نہ غم حسینؓ سے
نڈھا ل کے لیے ہی ایسا ممکن ہے کہ وہ عبادت چھوڑ کر املاک کو آگ لگاتا
پھرے،،یہ جو بھی ہیں نہ اہل سنت کے خیر خواہ ہیں نہ اہل تشیع سے ہی ان کو
کوئی واسطہ تعلق۔ اب وقت ہمیں اب یا ہھر کبھی نہیں کی اسٹیج پر لے آیا
ہے،اب اگر ریاست نے جارھانہ ھکمت عملی اختیار نہ کی تو پھر اﷲ نہ کرے کبھی
ہم ایسی صورت حال کو پہنچ جائیں جہاں ایسی حکمت عملی کا موقع ہی نہ
ملے،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے۔ |