بوسنیا ہیرزیگووینا کے ایک گاؤں سانیچا کے باہر ایک جوہڑ
تھا جس کے کنارے قطار در قطار بید کے درخت لگے تھے اور وہاں بچے مچھلیاں
پکڑا کرتے تھے۔ اب زمین اس جوہڑ کو اس کے پانی، مچھلیوں اور کنارے پر لگے
درختوں سمیت نگل چکی ہے۔
|
|
ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق بیس میٹر قُطر کا آٹھ میٹر گہرا یہ جوہڑ اب
ایک پچاس میٹر چوڑے اور تیس میٹر گہرے دیو ہیکل گڑھے کی شکل اختیار کر چکا
ہے، جسے دیکھ کر ہول آتا ہے۔ اس گاؤں کے باسی جب اپنے پرانے جوہڑ کی جگہ اس
ہیبت ناک گڑھے کو دیکھتے ہیں تو انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ یہ
سارا منظر کسی سائنس فکشن فلم کا حصہ معلوم ہوتا ہے کہ کیسے ایک گہرے گڑھے
نے پانی، اُس میں موجود مچھلیوں، حتیٰ کہ آس پاس کے تمام درختوں کو بھی نگل
لیا۔
اس گاؤں کے ایک باسی جمال حسن کا کہنا ہے کہ ’’اِس واقعے سے صرف ایک روز
قبل مَیں یہاں بیٹھا پلم برینڈی کی چُسکیاں لگا رہا تھا کہ یکایک ہر طرف
افراتفری پھیل گئی۔ مچھلیوں نے اچھلنا کودنا شروع کر دیا اور بید کا بڑا
درخت یوں غائب ہوا، جیسے اُسے کسی نے ہُک ڈال کر جھٹکے سے زمین کے اندر
کھینچ لیا ہو۔‘‘
|
|
بوسنیا ہیرزیگووینا کے اس دور افتادہ گاؤں میں یہ واقعہ کوئی دو ہفتے قبل
پیش آیا تھا۔ تب سے اس گاؤں کے باسی ایک سکتے کی سی کیفیت میں ہیں۔ وہ حیرت
سے یہ ڈراؤنا منظر دیکھ رہے ہیں کہ اُن کا چھوٹا سا جوہڑ نہ صرف ایک بڑے
اور گہرے سوراخ کی شکل اختیار کر چکا ہے بلکہ اس سوراخ کا قُطر بھی مسلسل
بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ جوہڑوں یا چھوٹی چھوٹی جھیلوں کا یوں اچانک غائب ہو
جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زیر زمین پانی کے چشموں
کا خشک ہو جانا یا پھر فراہمی آب کے عمل کے دوران مٹی کی تہوں میں کسی
تبدیلی کا رونما ہو جانا اس کا سبب ہو سکتا ہے۔
تاہم اس گاؤں کے باسی اپنے جوہڑ کے غائب ہو جانے کی سائنسی توجیہات نہیں
مانتے بلکہ اسے کچھ اور ہی عوامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ایک نے کہا کہ
’ہو سکتا ہے کہ کسی بہت بڑی زیر زمین غار کے دروازے کھل گئے ہوں یا نیچے
کوئی آتش فشاں پہاڑ ہو‘۔
دیہاتیوں میں مقبولِ عام ایک اور نظریہ، جسے سائنسدان اور دیگر رَد کرتے
ہیں، یہ ہے کہ گاؤں کے چھوٹے سے جوہڑ میں کسی مچھلی کی حرکت کے نتیجے میں
دوسری عالمی جنگ کے دور کے اُن بہت سے اَن پھٹے بموں میں سے کوئی ایک بم
پھٹ گیا ہوگا، جنہیں جنگ کے بعد ایک بوڑھی خاتون نے جوہڑ میں پھینک دیا تھا۔
|
|
’پاتال‘ کے کنارے کھڑے جمال حسن نے اُس بوڑھی خاتون کو یاد کرتے ہوئے کہا
کہ وہ خود بھی اُس وقت ہلاک ہو گئی تھی، جب ایک بم اُس کے ہاتھوں ہی میں
پھٹ گیا تھا۔
یک اور پُر اَسرار توجیہ یہ پیش کی جا رہی ہے کہ ایک ماہ پہلے انتقال کر
جانے والا اس جوہڑ کا مالک اِسے اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ گاؤں کے ایک باسی
رزاق موتانِچ نے بتایا: ’’حسن نے مرنے سے چند ہی روز پہلے کہا تھا کہ جب
مَیں مروں گا تو سب کچھ اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ جس رات اُس کا انتقال ہوا،
اُس کی بیٹی نے اُسے جوہڑ کے کنارے چلتے دیکھا تھا۔‘‘
ایک اور دیہاتی حسین نانِچ نے کہا کہ جوہڑ کا اس طرح سے غائب ہو جانا اس
بات کی بھی علامت ہو سکتی ہے کہ آخرت قریب آ گئی ہے: ’’روزِ محشر سے پہلے
ہر طرح کے معجزے رونما ہونے لگتے ہیں۔‘‘ |
|
|