عظیم حکمران

وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک ہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداﷲ موجود ہے، عبداﷲ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔سلطان غیاث الدین سکندرشاہِ بنگال میں ۷۳۳۱ء سے لے کر۳۷۳۱ء تک حکمران رہے (بمطابق ۹۶۷ھ تا۵۷۷ھ)وہ ان فرما نرواؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے اسلامی شریعت کی متابعت میں کوئی فرق نہ آں ے دیا۔حتیٰ کہ ایک دن ایساآیاجب وہ خودبھی گرفت میں آگئے۔

یہ اس دن کی بات ہے جب سلطان غیاث الدین تیراندازی کی مشق کررہے تھے کہ ناگہاں ایک تیر کمان سے نکل کردورایک بیوہ عورت کے بچے کوجالگا۔یہ بیوہ عورت اس وقت کے قاضی سراج الدین کی عدالت میں آئی اورساراواقعہ بیان کرکے انصاف کی طالب ہوئی۔

چونکہ ملک میں تمام فیصلے شریعت اسلامی کے تحت ہوتے تھے۔اس لیے فیصلہ دینے والے اپنے آپ کوخداکے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔بیوہ کی رو دادسننے کے بعدقاضی سراج الدین نے سلطان کو طلب کرنے کے لیے ایک پیادہ روانہ کیا۔ پیادے کے جانے کے بعدانہوں نے ایک درّہ اٹھاکراپنی مسندکے نیچے چھپالیا۔

پیادہ جب دربارکے پاس پہنچناآسان نہیں ہے،چنانچہ اس نے اذان دینی شروع کردی۔ اذان سْن کرسلطان غیاث الدین نے اسے دربار میں طلب کرلیااوربے وقت اذان دینے کی وجہ دریافت کی۔

پیادے نے کہا:’’سلطان معظم!مجھے آپ تک پہنچناممکن نظرنہیں آرہاتھا،چنانچہ میں نے اذان سے مددلی۔‘‘

پھر اس نے اپنے آنے کامقصدبیان کیا اور کہا کہ آپ قاضی سراج الدین نے عدالت میں طلب فرمایاہے کیونکہ آپ کے تیرسے ایک بیوہ کے بچے کوزخم لگاہے۔

سلطان غیاث الدین اٹھ کھڑے ہوئے لیکن چلنے سے پہلے انہوں نے ایک تلواراپنے کپڑوں میں چْھپالی اورپیادے کے ساتھ عدالت روانہ ہوگئے وہ عدالت میں پہنچے توقاضی سراج الدین نہ ان کی تعظیم کے لیے اٹھے اورنہ ان کی جانب کوئی التفات کیا۔ بلکہ بیوہ کو اپنابیان دْہرانے کے لیے کہا۔بیوہ نے بیان مکمل کیاتوقاضی نے سلطان کی طرف دیکھا۔

سلطان غیاث الدین نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔

اس پرقاضی نے کہا:’’اگریہ بیوہ خاتون راضی نہیں ہوتی اورآپ کومعاف نہیں کرتی تو آپ پرشرعی حدجاری ہوگی۔‘‘

سلطان نے سرتسلیم خم کیااوربیوہ سے معذرت کرتے ہوئے اس کے سامنے معقول رقم اس تکلیف کے سلسلے میں پیش کی جواسے اوراس کے بچے کوپہنچی تھی۔ضعیفہ نے سلطان کی معذرت قبول کرلی۔

سلطان نے قاضی سے کہا’’جناب ! میرے اورضعیفہ کے درمیان اب کوئی جھگڑا نہیں رہا۔‘‘

قاضی نے ضعیفہ سے پوچھا:’’اے خاتون، کیاآپ نے انصاف پالیااورآپ راضی ہو گئیں؟‘‘

ضعیفہ نے کہا:’’جی ہاں‘مجھے انصاف مل گیا اورمیں راضی ہوگئی۔‘‘

مقدمے کافیصلہ ہوگیاتوقاضی سراج الدین اْٹھے اورسلطان کوادب کے ساتھ مسندپربٹھایا۔اس وقت سلطان نے اپنی چھپائی ہوئی تلوارنکالی اورکہا۔

’قاضی صاحب !میں اسلامی شریعت کے مطابق آپ کی عدالت میں حاضرہوگیاتھا۔اگر آپ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتے تویہ تلوار آپ کوختم کردیتی۔‘‘

قاضی سراج الدین نے بھی مسندکے بیچے چھپایاہوْادرّہ نکالااورکہا:

’’اے سلطان !اگرآج میں اپ کوذرابھی شریعت کے خلاف چلتے ہوئے دیکھتاتوخداکی قسم اس درّے سے آپ کی کمرسرخ کردیتا۔‘‘

سلطان نے تلوارایک طرف رکھ دی: ’’قاضی نے درّہ ایک طرف ڈال دیا۔اورپھر سلطان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:’’آج ہم دونوں کے امتحان کادن تھااورخداکاشکرہے کہ اس کی دی ہوئی شریعت ہمارے درمیان موجود تھی۔

تاریخ اٹھا کر دیکھیں اپنے عظیم ماضی میں جھانکیں تو افسوس ہوتا ہے ہمارے آج کے حکمران کسی طرح بھی انصاف پسندی کے کم ترین معیار پر بھی پورا اترتا نظر نہیں آتا۔۔کیا آپ کو اس عظیم حکمران کے الفاظ یاد ہیں؟؟’’اگر دریائے فرات کے کِنارے کوئی کْتّا بھی بھوک سے مر جائے تو اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے عمر اس کا ذمہ دار ہو گا‘‘۔۔جی ہاں یہ الفاظ ہیں عمربن خطاب کہ جن کی عظیم فتوحات کی دنیا گواہ پے۔۔۔
Farrukh Shahbaz Warraich
About the Author: Farrukh Shahbaz Warraich Read More Articles by Farrukh Shahbaz Warraich: 119 Articles with 126972 views


فرخ شہباز

پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں گریجوایٹ ہیں۔انٹرنیشنل افئیرز میں مختلف کورسز کر رکھے ہیں۔رائل میڈیا گروپ ،دن میڈیا گروپ اور مختلف ہ
.. View More